کیا بچے پیدا کرنا بند کر دیں؟



کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صرف اس لیے کہ اگر تربیت نہیں کر سکتے تو  پیدا کرنا چھوڑ دیں جیسا کہ فرض نماز معاف ہو جاتی ہےصرف اس لیے کہ ہم صبح اُٹھ نہیں سکتے یا پڑھی نہیں جاتی۔ بچہ پیدا کرنا ایک نیچرل پراسیس ہے اسے کیوں روکا جائے؟
میں نے معاشرے کے  اس مسئلہ کی نشان دہی کی ہے کہ جس پہ ہم بات نہیں کرتے وہ ہے تربیت۔  سب غلط نہیں ہیں، ابھی کچھ دن پہلے ہی پاکستان میں پانچویں بہن نے سی ایس ایس پاس کر کے نیا ریکاڈ قائم کیا ہےجبکہ اُن کے والد کوئی بزنس مین یا بیوروکریٹ نہیں ۔ اس سے پہلے میں خود بہت سے خاندانوں کو جانتی ہیں جو کم وسائل میں بھی  5-7 بچوں تک کی اتنی اعلٰی تربیت کی ہے کہ مثال نہیں ملتی۔ ضروری نہیں کہ ہر بچہ ڈاکٹر ، انجینیر ہو، پر ہر بچہ کی اتنی تربیت تو ہو کہ وہ معاشرے کا اچھا فرد ہو، نا کہ دوسروں کیلیے تکلیف کا باعث۔

اور یہ سوال کہ بچے پیدا کرنا چھوڑ دیں؟ تو اس سے پہلے یہ سوال کریں خود سے کہ بچہ پیدا کیوں کرنا ہے؟ صرف اس لیے کہ لوگ باتیں کرتے ہیں بچہ نہیں ہوا، کوئی خرابی ہے کیا؟
یا صرف اس لیے کہ شادی کے بعد بچہ ہونا فرض ہے؟  اگر صرف یہی باتیں ہیں تو میں کہتی ہوں سب شادی شدہ کی اولاد کو پیدا ہونے سے روک دینا چاہیے۔ آپ ایک انسان کو دنیا میں لانے کا سبب بن رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہی نہیں کہ کیوں؟
بچہ کی پیدائش پہ آدھا خاندان نام کے لیے لڑتا مرتا ہے، اور ماں یا باپ تک کو حق نہیں ہوتا خود پیدا کی ہوئی اولاد کا نام رکھنے کا، اور جب کسی ایک کی بات مان لو تو ساری عمر کےطنز طعنے الگ۔  پھر پرورش میں کھینچا تانی جو چلتی ہے اُس کی تو ایسی مثالیں ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ماں کچھ کہتی ہے، تیرا باپ یہ تیرا ددھیال یہ ماں کا خاندان بھی کچھ کم و بیش ایسی ہی باتیں ڈالتا ہے کانوں میں۔ باپ کچھ کہتا ہے، تیری ماں یہ، باپ کا خاندان ننھیال کو پسند نہیں کرتا۔ دونوں میاں بیوی  بچہ کو ایک دوسرے کی خبر گیری کیلیے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بچہ گھڑی کے پنڈولم کی طرح کبھی اس طرف کبھی اُس طرف۔ اسے کہتے ہیں تربیت؟

 دو لوگ جو آپس میں اولاد پیدا کرنے کا سبب ہوتے ہیں کتنی بات کرتے ہیں اولاد کے لئے کہ اولاد ہوئی تو کیا اور کیسا ہونا ہے؟ نام، خاندان، مذہب،  ذات ، سٹیٹیس تو پیدا ہونے سے پہلے سے ہی طے شدہ ہوتا ہے، پیدا ہونے پہ کالا گورا، چھوٹا موٹا، پھینا بھینگا ،لمبا ٹھگنا بھی طے ہو گیا۔  مطلب ایک بچہ دنیا میں سانس بعد میں لیتا ہے مگر اس کیلیے القابات کا بٹوارا پہلے ہو جاتا ہے پھر ہم کہتے ہیں ہم آزاد ہیں تو بچہ بھی آزاد ہوا نا۔  جو لوگ معاشرے کے لیے بچہ پیدا کرتے ہیں وہ آزاد تو نا ہوئے بچہ کیا خاک آزاد ہوا۔
نام، خاندان، مذہب،  ذات ، سٹیٹیس۔  کالا گورا، چھوٹا موٹا، پھینا بھینگا ،لمبا ٹھگنا میں بٹا انسان کتنا اچھا ہو سکتا ہے۔ تربیت کے خانے کہ لیں یا معاشرے کے اُصول۔ ساری عمر ان بس خانوں کا طواف کرتے گزرتی ہے۔ اُوپر سے ماں باپ کے پاس وقت نہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ اس سوال کا جواب نہیں کہ بچہ پیدا کیوں کریں۔ دنیا کی آبادی سات ارب ہو چکی ہے، میں مانتی ہوں یورپ کے کچھ ملک فنڈز دیتے ہیں اگر مرد و عورت شادی کریں تو۔ پر آبادی کم نہیں ہے یہ کہنا کہ آبادی کم ہو جائے گی تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ پچھلی ایک صدی میں تو خیر ہم 2 ارب سے 7 ارب پہ آئے ہیں۔  پاکستانیوں کے مطابق کم اولاد گناہ ہے۔  دس بچے ہوں جی بے شک ناکارہ ہوں۔

ایک اور سوال کہ یہ نیچرل پراسیس ہے، روکا تھوڑی جا سکتا ہے اگر روکیں تو بھی نقصان ہے؟ تو  میڈیکل سائنس کافی ترقی کر چُکی ہے،اور بچہ روکنے کی بات میں نہیں کرتی پر اتنے بچے جن کی  مناسب تربیت ہو، اگر ایک کی تربیت کر سکتے تو ایک، دو کی تو دو،  پانچ کی کر سکتے تو پانچ ۔ پھر لوگ کہتے ہیں گناہ والی بات ہے کہ بچہ نا پیدا کریں۔ پر ہم گناہ ثواب سے نکلیں تو کچھ اور سوچیں، کیا تب گناہ نہیں ہوتا جب آپ ایک ایسا فرد معاشرہ کو دیتے ہیں جو ناسور ہوتا ہے لوگوں کیلیے تکلیف کا باعث ہوتا ہے، ذہنی، جسمانی یا معاشی؟ ساتھ ہی ساتھ آپس میں بات تو کریں جو دو لوگ بچہ پیدا کرتے ہیں وہی دو لوگ سب سے کم بات کرتے ہیں بچہ کیلیے۔ بھلا ایسا کب ہوتا ہے، بات کرتے ہیں نا، میاں بیوی آپس میں بات نہیں کرتے وٹہ مارتے ہیں اک دوسرے کو، میرا بچہ میں کر لوں گی/گا سب، تیرا بچہ تو کر سب۔ فلاں نے اس سکول میں کروا دیا ہم کب کروائیں گے، فلاں کے بچہ کے باپ/ماں نے یہ کیا، ہم کب کریں گے، یہ سکھاتی ہو تم سارا دن گھر رہ کر، اگر ورکنگ ماں ہو تو ساری دنیا کیلیے وقت اپنی اولاد کے لیے وقت نہیں ، اور دوسری طرف تم سارا دن گھر سے باہر ہوتے ہو آکر گھر کبھی پوچھا ہے اولاد کو۔

ہمارے ہاں باپ کمانے کے  سب سے اہم فریضےکےعلاوہ ایک اور بہت ہی اہم کام آتا ہے، باپ  ڈرانے کیلیے، تیرا باپ آئے گھر یہ بتانا ہے، وہ بتانا ہے،  یہ کیوں کیا، وہ کیوں کیا۔ شوہر اور بیوی کا رشتہ  مینیوپلیشن کے کام آتے ہیں اور  اور کسی پہ حاکمیت چلے نا چلے اولاد پہ حاکمیت کمال کی ہوتی ہے۔ وراثت دیں نا دیں اولاد کو اپنے سارے ڈر،  کبھی اس سے ڈر،  کبھی اُس سے ڈر، ماں باپ سے ڈر، خاندان سے ڈر، معاشرے سے ڈر خوب گھول کر پلاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا گھٹنوں میں بٹھاتے ہیں۔ یہ سب کیا تربیت ہے؟

ڈاکٹر سٹپہن کارلیون نے آٹھ سال کی محنت سے اپنے تھیسس مکمل کیے اُن کا سوال تھا جیوش jews اتنے عقلمند کیسے ہوتے ہیں جو دنیا کی پوری اکانومی پہ چھائے ہوئے ہیں، کیا خدا نے اُن کو زیادہ دماغ دیا ہے یا کوئی خاص مہربانی ہے قدرت کی اُن پہ۔ ڈاکٹر سٹپہن نے اپنی ریسرچ میں خوراک، کلچر، اور حمل کے مراحل کو اپنا فوکس رکھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہاں عورت جب پریگنٹ ہوتی ہے تب وہ اپنا دھیان آرٹ، فنونِ لطیفہ کی طرف لگاتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ میاں بیوی مل کر میتھس کے سوالات حل کرتے ہیں، اور ماں بننے والی عورت ہر وقت کتاب اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ یہی نہیں خوراک میں کوئی جنک فوڈ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں کر طرح نہیں ڈرامے اور فلمیں اسی دوران دیکھی جاتی ہیں، کھٹا میٹھا کے چکر میں بازار کا ہر کھانا کھایا جاتا ہے۔ اور بچہ پیدا ہو تو چھ سال کی عمر تک اُس کو آرٹ کی تربیت ،کھیل خوراک  ساتھ ہی تین زبانیں سکھائی جاتی ہیں جن میں عربی بھی شامل ہے۔ یہی نہیں 6 کلاس تک بزنس اور میتھ تک پڑھایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سٹپہن کا کہنا ہے اسی وجہ سے ایک امریکی بچے کا دماغ یہودی بچے سے چھ سال پیچھے ہوتا ہے۔ پاکستان تو پھر کسی کھاتے میں نہیں آتا، جہاں تربیت کا فقدان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).