شیخ رشید کی پھرتیاں اور مسلم لیگ (ن) کی قلابازیاں


تیز گام حادثہ کے بعد ریل گاڑی کی رفتار سے بھی زیادہ سرعت سے وزیر ریلوے شیخ رشید نے اس کی وجہ کا سراغ لگا لیا اور مرنے والوں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہوئے بتایا کہ تبلیغی جماعت کا گروپ گیس سلنڈرز پر ناشتہ بنا رہا تھا کہ سلنڈرپھٹنے سے تین بوگیوں نے آگ پکڑ لی۔اس حادثہ میں آخری خبریں آنے تک 74 افراد جاں بحق ہو چکے تھے جبکہ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔

ریلوے کے وزیر نے جس عجلت میں حادثہ کی وجوہات کھوج نکالی ہیں اور آگ لگنے سے پہلے کا وقوعہ جس تفصیل سے بیان کردیاہے ، اس کی روشنی میں ذمہ داروں کا تعین ہوچکا ہے اور شاید وہ بدنصیب اس آگ میں جل کر راکھ بھی ہو چکے ہوں گے۔ حیرت صرف اس بات پر ہے کہ اگر ریلوے کے وزیر اور حکام کو اتنی جلد تمام تفصیلات حاصل ہوگئی ہیں تو پندرہ روز میں کس بات کی تحقیقات کروائی جائیں گی؟ کیا یہ تحقیقات ریلوے کے وزیر کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ہوں گی یا ان میں یہ سراغ لگا یا جائے گا کہ سلنڈر پھٹنے سے پہلے اس پر انڈا ابالا جارہا تھا یا اس کا آملیٹ بنایا جا رہا تھا۔ کیوں کہ اپنے وزیر باتدبیر کے تقش قدم پر چلتے ہوئے متعدد ریلوے افسروں نے بھی مرنے والوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی پوری کوشش کی ہے۔ خاص طور سے یہ گروپ چونکہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتا تھا ، اس لئے یہ باور کرانے میں بھی آسانی پیدا ہو گئی کہ ضرور ان لوگوں نے ہی قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گاڑی پر گیس سلنڈر سے چولہے جلائے ہوں گے۔

شیخ رشید نے حادثہ کے بعد ویڈیو پیغام میں جو تفصیلات بیان کی تھیں ان کے مطابق تبلیغی جماعت کے لوگ سلنڈر سے چلنے والے چولہے پر ناشتہ بنا رہے تھے کہ سلنڈر پھٹ گیا جس کی وجہ سے تین بوگیوں کو فوری طور پر آگ لگ گئی۔ یہ آتشزدگی اس قدر شدید تھی کہ جاں بحق ہونے والے بیشتر لوگوں کی لاشیں پہنچاننا بھی ممکن نہیں تھا۔ بعد میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے شیخ رشید نے یہ تفصیل بھی بتائی ہے کہ ریلوے کے ایک اہلکار نے چولہا جلانے سے منع بھی کیا تھا لیکن متعلقہ گروپ نے اس اہلکار کے سامنے تو چولہا بند کردیا لیکن اس کے جانے کے بعد دوبارہ چولہا جلا کر ناشتہ بنانے لگے۔ شیخ رشید نے جس تیقن سے حادثہ کی وجہ کا تعین کرتے ہوئے اس کی تفصیلات فراہم کی ہیں، اس سے تو یوں لگتا ہے کہ انہوں نے اس وقوعہ کے وقت موجود لوگوں سے براہ راست تفصیلی بات چیت کی ہے۔ اور ایک سے زیادہ چشم دید گواہوں سے گفتگو کے بعد ہی حادثہ کے عوامل کے بارے میں قوم کو آگاہ کیا ہے۔

وزیر ریلوے کی یہی سنگ دلی اور سفاکانہ طریقہ کار ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے اور وزیر اعظم کے لئے انہیں اس عہدہ سے فارغ کرنے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ تاہم تحریک انصاف کی حکومت بھی ماضی کے لیڈروں کی طرح کوئی نئی اور مثبت روایت قائم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ چند ماہ کے دوران کسی ریل گاڑی کو پیش آنے والا یہ چوتھا حادثہ ہے لیکن شیخ رشید یا حکومت کی طرف سے افسوس کا اظہار کرنے اور ذمہ داروں کو سخت سزا دینے کا اعلان کرنے کے علاوہ نہ تو ریل گاڑیوں میں ناقص حفاظتی انتظام کی ذمہ داری قبول کی گئی اور نہ ہی ریلوے کو محفوظ اور بہتر بنانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں۔

جولائی میں صادق آباد کے مقام پر دو گاڑیوں میں ٹکر کے نتیجے میں 20 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس موقع پر بھی ریلوے کے وزیر افسوس کا اظہار اور قصور واروں کو سزا دینے کا وعدہ کرتے دیکھے گئے تھے۔ اس وقت انہوں نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ ’وہ آٹھویں بار وزیر بنے ہیں۔ اس لئے انہیں وزارت کا کوئی شوق نہیں ہے۔ انہوں نے جب بھی اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کیا ، وہ اس عہدہ کو چھوڑ دیں گے‘۔ جو شخص اقتدار کے مختلف ادوار میں وزیر بننے میں کامیاب ہوتا رہا ہو، اس کے ضمیر کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہر طرح کی صورت حال کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شیخ رشید استعفی دینے کی بات صرف اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ ورنہ انہوں نے عمران خان کی مسلسل خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے جو عہدہ حاصل کیا ہے ، وہ اس کی ہر ممکن حد تک اس کی حفاظت کریں گے۔

شیخ رشید کی طرف سے جاں بحق ہونے والے مسافروں پر سارا بوجھ ڈالنے کے تھوڑی دیر بعد ہی سوشل میڈیا پر ایک شخص کا ویڈیو بیان وائرل ہؤا ہے جو خود کو ٹرین کا مسافر اور عینی شاہد بتاتا ہے۔ اس بیان کے مطابق مسافروں کے پاس موجود سلنڈروں میں گیس نہیں تھی کیوں کہ سوار ہونے سے پہلے سلنڈر خالی کروالئے جاتے ہیں۔ اس شخص کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ تیزگام کی بوگیوں میں آگ ائیرکنڈیشنڈ بوگی میں بجلی کی تاروں کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گئی۔

 یہی نکتہ دراصل قابل غور ہے جس کی تحقیق بھی ہونی چاہئے اور بیان بازی کی بجائے اصلاح احوال کی بھی ضرورت ہے۔ اول تو شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگنا گو کہ معمول ہے لیکن اسے بوگیوں کی دیکھ بھال کرنے والے عملہ کی کوتاہی اور غفلت کا نتیجہ ہی کہا جائے گا۔ دوسے تین بوگیوں میں تیزی سے آگ پھیلنے کی وجوہات کا سراغ لگانا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ یہ جواب بھی فراہم کیا جائے کہ حادثہ کی صورت میں ریل کی بوگیوں میں آگ پر قابو پانے یا مسافروں کی حفاظت کے لئے کیا انتظامات کئے جاتے ہیں۔

حکومت، وزیر ریلوے اور محکمہ مسافروں کو قصور وار ٹھہرا کر اور سیکورٹی گارڈز کی کوتاہی پر سزا دینے کا اعلان کرکے، اس المناک حادثہ کی ذمہ داری سے سبک دوش نہیں ہوسکتے۔ جاں بحق ہونے والے لوگ نہ جانے کتنے خاندانوں اور لوگوں کے کفیل ہوں گے۔ پاکستان جیسے ملک میں ایک ایک بالغ شخص پر پورے پورے خاندان کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ مرنے والے زیادہ تر لوگ بالغ مرد تھے۔ اب ان خاندانوں کو پندرہ لاکھ روپے فی کس معاوضہ کا لولی پوپ دے کر حکومت یا ریلوے ان مصائب کی تلافی نہیں کرسکتی جو ان گنت خاندانوں کو پیش آنے والی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مستقبل میں ایسے حادثات کا تدارک کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ اس مقصد کے لئے ریل نظام کو تکنیکی لحاظ سے بہتر بنانے کے علاوہ بوگیوں میں حفاظت اور سیکورٹی کے بہتر انتظامات کرنا بھی اہم ہے۔

پوری قوم کو جس وقت تیز گام کے المناک سانحہ کی اطلاع ملی اس وقت مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آزادی مارچ اسلام آباد کا رخ کرچکا تھا۔ ایک روز پہلے لاہور میں مسلم لیگ (ن) آزادی مارچ کے اجتماع سے غائب رہی تھی اور اس کا کوئی لیڈر تقریر کرنے کے لئے اجتماع میں نہیں پہنچا۔ ریل گاڑی کے المناک حادثہ سے مصلحت اور داخلی انتشار کا شکار مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ایک عذر ہاتھ آگیا اور اس کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ اس حادثہ کے سوگ میں آج رات کو اسلام آباد میں ہونے والا احتجاجی جلسہ منعقد نہیں ہوگا بلکہ اسے جمعہ تک منتقل کردیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بیان جلوس کی قیادت کرنے والے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کئے بغیر دیا تھا۔ اسی لئے مولانا کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا پڑا کہ یہ جلوس اور انتظام ان کی جماعت کی ذمہ داری ہے۔ وہی فیصلہ کریں گے کہ کب اور کہاں جلسہ ہوگا۔

احسن اقبال کے بیان کی وجہ سے البتہ اپوزیشن کی صفو ں میں انتشار واضح ہوگیا۔ پشاور اور خیبر پختون خوا سے اسلام آباد پہنچنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے بھی مسلم لیگی قیادت کے طریقہ سیاست پر شدید احتجاج کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے البتہ بات زیادہ بگڑنے سے پہلے اپنے ساتھی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کے ذریعے جلسہ نماز جمعہ کے بعد منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن احسن اقبال کے بیان اور مسلم لیگ (ن) کی دوہری حکمت عملی نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) داخلی انتشار کا شکار ہے اور شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کی پالیسی کے برعکس کسی نہ کسی طرح مصالحت کا کوئی راستہ تلاش کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ یہ مصالحت دراصل اقتدار تک پہنچنے کی اس سیڑھی تک پہنچنے کی کوشش ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی دسترس میں ہے۔

شہباز شریف اگر اداروں کو عمران کی بجائے خود کو ’نامزد‘ کرنے کی پیش کش کر رہے ہیں تو اسے عوام کے حقوق کی لڑائی یا موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس وقت ملک میں حکومت بدلنے سے زیادہ ووٹ کے احترام کا اصول تسلیم کروانے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب سیاسی لیڈر خود بھی اس اصول کا احترام کرنے کا عملی مظاہرہ کریں۔ درپردہ سازشوں کے ذریعے حکومت سے عوامی ناراضگی کو اپنی کامیابی کا زینہ بنانے والے دراصل جمہوریت ، عوامی مفاد اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا موجب بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali