کیا آئین پاکستان ہمیں مذہبی آزادیاں دیتا ہے؟



چند روز قبل مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک تربیتی ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا۔ اس ورکشاپ کا اہتمام ادارہ برائے سماجی انصاف (سنٹر فار سوشل جسٹس) نے کیا تھا۔ اگرچہ ورکشاپ میں زیر بحث موضوع انتہائی ثقیل اور کسی حد تک خشک بھی تھا مگر چونکہ ورکشاپ کا انعقاد اسلام آباد جسے پرفضا مقام پر تھری سٹار ہوٹل میں کیا گیا تھا اس لئے موضوع کی خشکی پر ماحول کی خنکی غالب رہی جس سے بوریت کا احساس کم رہا۔ورکشاپ میں ملک بھر سے 40 کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی۔ جن میں راقم سمیت مسلم مسیحی ہندو اور سکھ کیمونٹیز کے نمائندگان شامل تھے۔ شرکاء میں وکلا، صحافی، انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت پروفیسرزبھی موجود تھے جس کی وجہ سے باہمی روابط اور موثر مکالمے کی صور ت میں بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں ہے کہ اس تربیتی سیشن کے بعد آئین پاکستان میں مذہبی آزادیوں کے حوالے سے میری رائے یکسر بدل گئی ہے۔

مجموعی رویہ جات کی وجہ سے قائم ہونے والا میرا یہ تاثر بھی زائل ہو گیا ہے کہ آئین پاکستان میں مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کو تحفظ نہیں دیا گیا۔ تین دن کے تربیتی سیشن میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز سمیت جتنے مقررین نے خطاب کیا سب نے نہ صرف سیر حاصل گفتگو کی بلکہ شرکا کے سوالات کے تفصیلی جوابات بھی دیے جس سے کسی حد تک آئین پاکستان کے حوالے سے ابہام ختم ہوگیا۔

سندھ سے آئے ہوئے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز سے کئی چبھتے ہوئے سوالات کیے  مگر انہوں نے نہایت خندہ پیشانی اور مدبرانہ انداز میں سولات کے جواب دیتے ہوئے شرکا کو ہر طرح سے مطمئن کیا۔ سندھ کے ضلع گھوٹکی سے آئے ہوئے ہندو کیمونٹی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے قبلہ ایاز سے جبری شادی اور مذہب تبدیلی کے حوالے سے سوال کیا کہ میاں مٹھو جو کچھ کر رہے ہیں، کیا وہ جائز ہے؟

اس پر قبلہ ایاز نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی کا مذہب جبری تبدیل نہیں کرایا جا سکتا ہے جبکہ آئین پاکستان بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ڈاکٹر عبد الحمید نیئر اور ادارہ برائے سماجی انصاف کے چیف ایگزیکٹو پیٹر جیکب نے آئین کی جن دفعات میں مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کو تحفظ دیا ہے ان کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ آئین میں آرٹیکل 41 کی صورت میں اقلیتوں کے حوالے سے امتیازی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت سربراہ مملکت کوئی غیر مسلم نہیں ہوسکتا مگر اس کے باوجود آئین کا آرٹیکل 25 ریاست کے تمام شہرویوں کو مساوی حقوق دیتا ہے۔

اس آرٹیکل کے تحت ہر پاکستان بلا امتیاز مذہب ہر اعلی اور ادنی سرکاری ملازمت کے لئے درخواست دے  سکتا ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 27 کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے۔ یہ آرٹیکل غیر مسلم پاکستانیوں کو اپنے مذہب کی ترویج اور عبادت گاہوں کے قیام کی اجازت دیتا ہے۔ علاوہ ازیں آئین کا آرٹیکل 21 طلبا کو ایسی تعلیم دینے کی ممانعت کرتا ہے جس کا ان کے مذہبی عقیدے سے تعلق نہ ہو۔

مذہبی آزادیوں کے حوالے سے ان تمام آرٹیکلز کو آئین کا آرٹیکل 22 تحفظ دیتا ہے جس کے مطابق مملکت خداداد مین تمام مذہبی گروہوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے آئین پاکستان کی یہ وہ نمایاں دفعات ہیں جن کا ذکر اس تربیتی سیشن میں بار بار ہوتا رہا۔ مقررین کی گفتگو اور شرکا کے مکالمہ سے راقم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آئین پاکستان کو بناتے وقت مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کو مدنظر رکھا گیا تھا تاہم بعد میں جنہوں نے ترامیم کے ذریعے آئین کا حلیہ بگاڑا انہوں نے آئین کی ان دفعات کو غیر فعال کردیا تھا جو کہ آج بھی کسی حد تک غیر فعال ہیں۔

اس وجہ سے بسا اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ آئین میں مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کو سلب کیا گیا ہے مگر ایسا نہیں ہے۔  پاکستان کے آئین نے مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کو مکمل تحفظ دیا ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).