رینڈ کارپوریشن رپورٹ اور مسلمان


رینڈ کارپوریشن امریکہ کا  ایک تھینک ٹینک ہے۔ جس کی سفارشات کو مدنظررکھتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ اور انٹیلیجنس ایجنسیاں فارن پالیسی کو مرتب کرتیہیں ۔ اس ادارے نے مسلمانوں کی سیاسی نظام کے لحاظ سے تقسیم بندی کی ہے۔ اسلاممذہب کے ساتھ ایک مستقل سیاسی نظام بھی رکھتا ہے کہ نہیں کے لحاظ سے مسلمانوں کی چار حصوں میں تقسیم کی گی ہے۔

پہلےگروہ کو انہوں نے قدامت پسند((Fundamentalists کا ہے جواسلام کو نا صرف مذہب تصور کرتا ہے بلکہ ایک سیاسی نظام کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔ تھینک ٹینک کےمطابق یہ ہمارے اول نمبر کے دشمن ہے کیونکہ یہ اسلام کو نہ صرف ایک سیاسی نظام کے طور پر لیتے ہیں بلکہ مغرب کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسلام کو  ایک کاؤنٹر نظام کےطور پر متعارف کرواتے ہیں۔ یہ قدامت پسند گروہ  تحریروں اور تقریروں کے ذریعےعوامی شعور پیدا کر رہا ہے اور سیاسی تنظیموں کی تشکیل کر کے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اسلام کے سیاسی نظام کو نافذ کیا جا سکے۔ یہ گروہ ہمارے لیےمستقل خطرہ ہے اور ان کو ضرور بالضرور ختم کرنا ہوگا۔

دوسرا بڑا گروپ روایت پسندوں)  (Traditionalistsکا ہے جو مدارس مساجد تک محدود ہے یہ گروپ بھی  اسلام کو دین تصور کرتا ہے اور اس کے سیاسی نظام کا بھی قائل ہے یہ گروہ پڑھنےپڑھانے تک محدود ہے اور اس گروہ نے اپنے آپ کو ایک خاص خول میں بند کر کے رکھا ہوا ہے۔ یہ گروہ ہمارے لئے کوئی مستقل خطرہ نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ قدامت پسندوں کے ساتھ مل گئے تو ہمارے لئے ایک بہت بڑا خطرا بن جائے گا کیوں کہ اس گروہ کی باقاعدہ عوام تک مضبوط رسائی ہے جمعہ اور نمازوں کے اجتماع سے لے کر مذہبی رسومات کے اجتماعتک ان کا عوام سے مضبوط رابطہ رہتا ہے۔اس گروہ کی ایک خاص کمزوری یہ ہے کہ یہ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان کو تفرقہ بازی میں الجھائے رکھیں تاکہ یہ قدامت پسندوں کے ساتھ نہ مل سکیں کیوں کہ ان کی پھیلائی ہوئی تفرقہ بازی جب عوام میں سرایت کر جائے گی تو اتحاد ختم ہوجائے گا۔ اتحاد کا خاتمہ اسلامی نظام سیاست کا خاتمہ ہوگا۔

تیسراگروہ جدت پسندوں((Moderates کا ایک طبقہ ہے جو اسلام کی ایک خاص تعبیر اور تشریح کر رہا ہے۔ان کی اسلام کی کی جانے والی تعبیر اور تشریح مغرب کی تہذیب سے بہت مناسبت رکھتی ہے۔ اسلام کی جدید تشریحات جو مغرب کی تہذیب سے مشابہت رکھتی ہے اور اسلام کے بنیادی سیاسی اور معاشرتی ڈھانچے کے خلاف ہے اسی وجہ سے اس گروہ کی عوام تک رسائی بہت محدود ہے۔  کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق یہ ہمارے سہولت کار ہیں اور ان کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر متعارف کروایا جائے تاکہ عوام سے رابطہ قائم ہوسکے اور ان کی معاشی و اخلاقی مدد کی جائے تاکہ اسلامی نظام کا ڈھانچہ مفقود کیا جا سکے۔

طبقہچہارم کو کارپوریشن نے سیکولر  ( (Secular کہا ہے۔ ان کے بقول یہ طبقہ اسلام کو دین کے بجائے مذہب سمجھتا ہے۔ سیکولرازم کے مطابق اسلام کا سیاسی،معاشی اور معاشرتی نظام کا کوئی ڈھانچہ نہیں ہے۔  بلکہ صرف عقائد، عبادات، رسومات اور اخلاقیات تک محدود ہے۔ یہ طبقہ مغرب کے سیاسی اور معاشی نظام سے مرعوب ہے۔ کارپوریشن کے مطابق اس گروہ کے داعی ہر طبقہ زندگی سے وابستہ ہیں اور ان پر انویسٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو مضبوط کیا جا سکے۔

میرے تجزیے کے مطابق ایک پانچواں گروہ بھی ہےجس کو بین الاقوامی اور ملکی نظام سیاست اور معیشت سے کوئی سروکار نہیں ہے یہ گروہاجتماعیت کے بجائے انفرادیت کو ترجیح دیتا ہے اور انفرادی معیشت کے مسئلے میں ہی الجھا ہوا ہے ۔ یہ گروہ علمی ناخواندگی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔

پاکستان میں ان گروہوں کی بڑی واضح قسم کی تقسیم بندی ہے اور ان گروہوں میں مباحثے اورعلمی چپقلش  بھی ہوتی رہتی ہے۔  قدامت پسند طبقہ کی تعداد بڑی قلیل ہے اور یہ طبقہ یونیورسٹی اور مدارس سے وابستہ ہے۔  قدامت پسند طبقہ کی پاکستان میں دو بڑی تنظیم ہے۔ ایک تنظیم الاسلامی ہے جس کے بانی ڈاکٹر پروفیسر اسرار احمد تھے۔  یہ تنظیم اپنا ایک واضح مقصد رکھتی ہے اور عوامی شعور اور مخصوص طریقہ کار کے ذریعے ملکی نظام کو تبدیل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ دوسری تنظیم فکر شاہ ولی اللہ ہے. جس کی جڑیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور عبیداللہ سندھی کے سیاسی اور معاشی نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں اس فکر کو شاہ عبدالرحیم رائے پوری اور شاہ سعید احمد رائے پوری نے پروان چڑھایا تھا۔ اس تنظیم کی بڑی تعداد پاکستان کی یونیورسٹیوں سے وابستہ ہے۔

دوسرابڑا طبقہ روایت پسندوں کا ہے۔ جس کی بڑی تعداد پاکستان کے مدارس سے وابستہ ہے یہ طبقہ دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث جیسے مکاتب فکر میں بٹا ہوا ہے اور فروعی مسائل پر ان کے درمیان ایک لمبے عرصے سے چشمک جاری ہے۔ اس طبقہ سے بہت سے ایسے لوگ وابستہ ہیں جو فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور ان مکاتب فکر کےدرمیان واضح تفریق کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

تیسرابڑا طبقہ جدت پسندوں کا ہے جس کی زیادہ تعداد یونیورسٹیوں میں پائی جاتی ہے یایونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔  یہ طبقہ سرسید احمد خان،علی گڑھ تحریک حمیدالدین فراہی اور وحید الدین خان سے مانوس ہے۔  ان کا آج کل پاکستان میں سب سے بڑا مکتبہ فکر فکر غامدیت ہے جو اسی نظریاتی پہلو کو لے کر آگے چل رہا ہے اور اسلام کی جدید تشریحات کر رہا ہے۔

 آخری گروہ سیکولر ہے جو ہر شعبہ زندگی سےوابستہ ہے یہ گروہ مغرب کے جدید مادی نظام سے مرغوب ہے۔  یہ طبقہ پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے اور ایکمخصوص طریقہ کار کے ذریعے کام کر رہا ہے۔  ان کی زیادہ تعداد یونیورسٹیوں میں پائی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).