آزادی مارچ حکومت کے خلاف ہے یا حاکمیت کے؟


وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے مطالبے کے ساتھ صوبہ سندھ سے شروع ہونے والا مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں لانگ مارچ جمعرات کو اسلام آباد پہنچ چکا۔ انتظامیہ کے ساتھ اتفاق کے مطابق اسلام آباد میں اتوار بازار سے ملحقہ کھلی جگہ مین جلسے کے بعد شرکا دھرنے کے لئے بیٹھ گئے۔

گزشتہ چند دنوں سے اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں گھروں کی تلاشی کی سرکاری کاروائی جاری ہے۔اسلام آباد کے ایک شہری چودھری خالد عمر نے سوشل میڈیا پہ بتایا ہے کہ ”  آج صبح پانچ فوجی پانچ پولیس والے دو خواتین پولیس سے ، جو فوجی بھائی تھے وہ دور اپنی پوزیشنز سنبھالے کھڑے تھے وقتی طور پر میں اپنے آپ کو کوئی مجرم تصور کرنے لگ پڑا، یہ آج جی الیون اسلام آباد میں لوگوں کے گھروں میں گھر گھر تلاشی کا واقعہ ہے جب انہوں نے میرے گھر کا دروازہ بجایا میں نے ان سے نوٹیفکیشن دکھانے کو کہا تو سادہ کپڑوں میں ملبوس شخص بدتمیز تھا جس نے مجھے بھی غصہ دلایا میں نے کہا کہ کیا آپ لوگ مولانا سے اتنا ڈر گئے ہیں کہ یہ نوبت آ گئی ہے اس نے کہا نہیں ایسی بات نہیں ۔ میں نے استفسار کیا تو پھر کیسی بات ہے جس پر مجھے کوئی جواب نہ ملا،میں نے انہیں بتایا کہ میرے بچے پولیس کا نام سن کر سہم گئے ہیں جو کہ پہلے سے بخار میں مبتلا ہیں میں بھی تھوڑی دیر پہلے سویا تھا اوپر سے گھر کی تلاشی کا سن کر غصہ آ گیا ، سادہ کپڑوں میں ملبوس شخص نے کہا یہ ٹرپل ون برگیڈ کا حکم ہے جس پر مجھے تعجب ہوا میں نے عرض کی کہ گھر میں بچے اور خواتین ہیں مرد نہیں خواتین اندر آ جائیں جس پر سادہ کپڑوں میں اور وائریس فون تھامے موصوف نے کہا نہیں مرد بھی جائیں گے میں نے کہا نہیں میں پھر گھر کی کوئی تلاشی نہیں دوں گا کافی بحث مباحثہ کے بعد سادہ کپڑوں والے اہلکار نے میرے گھر کی تصویر اور میرا نام نوٹ کیا اور غصے سے چلے گئے۔”

سابق حکومت کے خلاف عمران خان کا  لانگ مارچ اور دھرنا ملک میں مقتدرہ کی حاکمیت کو مستحکم کرنے کے لئے تھا۔اب مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں اپوزیشن کا لانگ مارچ ،دھرنافوج کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف ہے۔کیا کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے سے ملک پہ مقتدرہ کی حاکمیت میں کوئی فرق پڑے گا یا یہ عمل محض سول چہروں کی تبدیلی تک ہی محدود رہے گا  ؟  گزشتہ دنوں اس طرح کی باتیں بھی زیر گردش رہیں کہ ملک کی تمام ناکامیوں کاذمہ دار قرار دیتے ہوئے عمران خان حکومت کی قربانی دی جا سکتی ہے۔

اس لانگ مارچ اور متوقع دھرنے سے عمران خان کی حکومت ختم ہوتی ہے یا نہیں تاہم یہ واضح ہے کہ مارچ کے شرکاء کے اسلام آباد پہنچنے سے حکومت کی چولیں ہل گئی ہیں اور مقتدرہ کی طرف سے بھرپور حمایت کے اقدامات کے بغیر حکومت کو بچانا اور چلانا مشکل ہو جائے گا۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان حکومت کے جانے سے ملک پہ قائم حاکمیت کی صورتحال برقرار رہے گی یا اس میں کمزوری دیکھنے میں آئے گی؟

اقتصادی پالیسی ہی نہیں بلکہ دفاع اور خارجہ امور کے حوالے سے بھی پاکستان کی خود مختاری اور اقتدار اعلی پر  سوالیہ نشان لگ چکے ہیں۔ نت نئے ٹیکسز اور قاتل مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ملک میں معاشی سرگرمیوں کا پہیہ سست ترین رفتار میں محدود نظر آ رہا ہے۔ملک کی سلامتی اور بقاء سے مربوط مسئلہ کشمیر بھی ” کمپرو مائیز” کی بھینٹ چڑہتے محسوس ہو رہا ہے۔

مقتدرہ کے خلاف عوام میں شعور میں بہتری آتی جا رہی ہے اور یہ عوامی مطالبہ شدت اختیار کرتاجا رہا ہے۔مولانا فضل الرحمان نے جس طرح کھل کر مقتدرہ کی سیاست اور حکومتی امور میں نام لے کر تنقید کی انہوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرنے والی باقی اپوزیشن جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو براہ راست مقتدرہ کا نام لینے کے بجائے،خلائی مخلوق،فرشتے،حکام بالا،مقتدر ادارہ کی طرح کی اصلاحات استعمال کرتے ہیں۔عوامی حلقوں میں یہ سوچ ہے کہ ملک میں مقتدرہ کی حاکمیت تو قائم ہے،  عدلیہ، پارلیمنٹ، انتظامیہ، ہر ادارہ اور ہر محکمہ مغلوب و تابعدار ہے لیکن یہ تمام طریقہ کار ماورائے آئین و قانون ہے۔ پاکستان میں حاکمیت کا مسئلہ کب حل ہو گا؟  ملک ایسے ہی چلتا رہے گا  یا  ان سنگین عوامل کے نتائج ملک کو بھگتنا پڑیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).