دھرنے کی سیاست نے عوام کے مسائل حل کر دیے؟


ملک میں ایک ”سیاسی تماشا“ لگا ہوا ہے جسے دیکھنے والے غریب عوام ہیں جو مسائل کی حوالات میں مقید ہیں انہیں دن کو آرام ہے نہ رات کو چین ان کے بچوں کا مستقبل تاریک سے تاریک تر۔ انہیں بھوک ننگ زندگی سے بیزار کرتی چلی جا رہی ہے۔ آج تک کوئی بھی احتجاج مہنگائی، غربت اور جہالت کے خلاف نہیں ہوا۔ جو ہوا ہے اقتدار کے حصول کے لیے یا پھر اقتدار والوں کو قابو میں کرنے کے لیے۔

اس وقت جس احتجاجی منظر کو ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی اقتدار کی خواہش اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ مگر احتجاجیوں نے عوامی مسائل کی بھی بات کی تاکہ اقتدار کے تاثر کو زائل کیا جا سکے۔ جبکہ لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کے دل میں کوئی درد نہیں ان کے ذاتی مسائل ہیں جنہیں حل کروانے وہ سڑکوں پر آتے ہیں۔ اس سے وہ دہرے مقاصد حاصل کرتے ہیں کہ بادشاہ گروں کو بھی خوش کرتے ہیں اور اپنی اہمیت و افادیت کو بھی تسلیم کرواتے ہیں لہٰذا یہ جو دھرنا دیا گیا ہے اس کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا نا چاہیے۔

کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کے لب ولہجہ ٹھیک کرنے اور ان کی سوچ کو منتشر ہونے سے روکنے کے لیے ضروری تھا کہ ایک دھرنا دیا جائے۔ اس منطق سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ حکومت نے دیکھتے ہی دیکھتے بڑی حد تک لچک پیدا کر لی ہے جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ وہ گفت و شنید کی راہ پر بھی چل پڑی ہے جبکہ وہ مولانا فضل الرحمن کا تمسخر اڑاتی آئی ہے ویسے اس نے خود کو جمہوریت پسند ہونا بھی ثابت کیا ہے اور یہ اچھی بات ہے منتخب حکومتوں کو ایسا ہی سوچنا چاہیے ایسا ہی کرنا چاہیے۔

مذاکرات کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں کرنا چاہیے کہ مذاکرات ہی سے روشن در وا ہوتے ہیں۔ جو زندگی کے سفر کو آسان و سہل کر دیتے ہیں۔ لہٰذا پر امن احتجاج فریقین کے لیے موزوں ترین ہے مگر کبھی کبھی حالات بے قابو بھی ہو جاتے ہیں۔ جو بعد ازاں دونوں کو میز پر بیٹھنے پر مجبور کر دیتے ہیں یعنی گھوم پھر کر بات چیت ہی سے گتھیاں سلجھتی ہیں۔

اب بھی جب جے یو آئی (ف) کا دھرنا موسم کی سختی کے باوجود جاری ہے تو حکومت اور اس کے مابین مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اگرچہ وہ کامیاب نہیں ہوئے مگر کامیابی کی جانب بڑھ رہے ہیں کیونکہ میں اوپر بھی عرض کر چکا ہوں کہ حزب اختلاف کے چند ایک مسائل حل ہو چکے ہیں۔ باقی ہونے جا رہے ہیں جن میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی تھا کہ عمران خان وزیر اعظم کا انداز تکلم سخت تھا جو اب تھوڑا سا بدل گیا ہے اور وہ جو ”بے قابو“ ہو رہے تھے ”حالت معمول“ پر آتے جا رہے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ در اصل عمران خان کو یہ ہوش ہی نہ رہا کہ وہ ایسی ریاست کے سربراہ ہیں جو کبھی بھی آزادانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی اسے ایک حد تک آگے نہیں جانا ہوتا اور اگر وہ اس کی کوشش یا خواہش کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ جو اس کے بڑھتے قدموں کو روک دیتا ہے۔ لہٰذا اسے ہر قدم سوچ سمجھ کر اور انتہائی ہوش و حواس کے ساتھ اٹھانا پڑتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ابھی ہم جمہوریت کی منزل پر نہیں پہنچ سکے اور ہمارے چاروں طرف خطرات سر اٹھائے موجود ہیں لہٰذا اکیلے سربراہ مملکت کے بس میں نہیں کہ وہ حالات پر نگاہ رکھ سکے اور ایسے فیصلے کر سکے جو سیاسی، معاشی اور جغرافیائی اعتبار سے مناسب و موزوں ہوں۔ لہٰذا اس کو کھل کھیلنے سے روکنے کے لیے حزب اختلاف اپنا کردار ادا کرتی ہے وہ کبھی دھرنا دیتی ہے کبھی شور مچاتی ہے اور کبھی عدالتوں کا رخ کرتی ہے۔

بہرحال رولا اقتدار ہی کا ہوتا ہے۔ اس میں عوام کے دکھوں کا کہیں ذکر نہیں ہوتا جنہیں بہّتر برس سے یہ آس ہے کہ انہیں زندگی کی سہولتیں ضرور دستیاب ہوں گی نئی صبح ضرور طلوع ہو گی جو ان کی تمام مشکلات کو ختم کر دے گی مگر ابھی تک وہ اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں پا سکے۔ انہیں روپ بدل بدل کر دھوکا دیا جاتا ہے۔ جو کوئی بھی آتا ہے دلفریب و دلکش نعرے تخلیق کر کے آتا ہے۔ مگر اب تک کسی نے بھی اپنے وعدے پورے نہیں کیے شاید کر ہی نہیں سکتا۔

کیونکہ ملک میں موجود مافیاز و اشرافیہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ عوام خوشحال ہوں انہیں سکون میسر آئے بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں اور انصاف کا علم بلند ہو اگر ایسا ہو گیا تو وہ اپنی قدرو قیمت کھو بیٹھیں گے ان کی تجوریوں میں ہیرا پھیری و بد عنوانی سے حاصل کی گئی دولت کی ترسیل رک جائے گی لہٰذا وہ اس کی راہ روکتے ہیں جیسا کہ اس وقت دیکھنے میں آ رہا ہے کہ عمران خان کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں تو انہیں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے مہنگائی مافیا، رشوت مافیا، عوام دشمن مافیا، کمیشن خور مافیا، سڑک مافیا اور مایوسی پھیلانے والا مافیا سرگرم عمل ہے لہٰذا وہ عوام کی خدمت کی شدید خواہش پر بھی ناکام نظر آتے ہیں۔

ان کی اس ”ناکامی“ پر وہ طبقہ جسے ہم دانشور کہتے ہیں بڑا خوش ہے اسے بد عنوانوں کو بچانے کی بڑی فکر ہے جس کے لیے وہ طرح طرح کی باتیں کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ عمران خان کو بیوقوف جاہل اور گنوار تک کہہ ڈالتا ہے۔ جبکہ اس کے ”سیاسی رہنما“ ابھی طفل مکتب ہیں۔ انہیں ٹھیک سے بات بھی سمجھانا نہیں آتا۔ سوالات کے جوابات دینا نہیں آتا دوسرے لفظوں میں وہ ابھی بلوغت کے دائرے میں داخل نہیں ہو رہے ہیں۔

بات ہو رہی تھی حکمرانوں کے نعروں و دعوؤں کی کہ وہ بلند بانگ کرتے ہیں۔ مگر پورا نہیں کر پاتے کہ ان کی راہ میں مافیاز رکاوٹیں ڈالتے ہیں مگر اس کے علاوہ ہم عالمی مالیاتی اداروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جو نعروں کی تکمیل میں سب سے بڑا روڑا ہیں وہ اپنا ایجنڈا لے کر قرضہ دیتے ہیں ان کا اپنا پروگرام ہوتا ہے جس پر وہ عمل در آمد کروانے کی پوری کوشش کرتے ہیں لہٰذا جب کوئی اقتدار میں آتا ہے تو اس کے راستے کی دیوار یہی ہوتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی سیاسی رہنما اپنے پروگرام کو سو فیصد پس پشت ڈال دے اسے دیکھنا پڑے گا کہ وہ جو کرنے جا رہا ہے اس کا عوامی خواہشات سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا وہ انہیں مجبور کرے کہ وہ اپنی شرائط میں نرمی لائیں یا پھر متبادل ذرائع اختیار کرنے کی سوچے۔

بہر کیف یہاں کی سیاست آزاد نہیں وہ دیکھے ان دیکھے فیصلوں میں محبوس ہے لہٰذا وہ کبھی بھی شاداں و فرحاں نہیں رہی اس لیے آج ہم مہنگائیوں کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ دواؤں اور غذاؤں کی قلت و کمیابی نے گویا ہماری کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مگر افسوس کوئی بھی سیاسی جماعت غریبوں کے زخموں پر مرہم رکھنے میدان عمل میں نہیں اسے فکر ہے تو فقط اپنی کہ وہ اقتدار میں کیوں نہیں۔ اب مولانا فضل الرحمن کا مسئلہ یہی ہے کہ انہیں کیوں غیر اہم قرار دیا گیا ان کا مذاق اڑایا گیا جبکہ وہ دس پندرہ نشستوں والی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں یہ بات ان کی ٹھیک ہے ان سے سیاسی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مگر ان کو یکسر نظر انداز کرنا حماقت ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں تو اپنے ارد گرد کی صورت حال کو پیش نظر رکھیں ان کی خوش کلامی اور زندہ دلی سے بعض سیاسی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا انہیں فی الفور اس پہلو پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ دھرنا آج نہیں تو کل اٹھ جائے گا مگر ایسا دوبارہ ہونا نا ممکن نہیں۔ ابھی تو ان کے خلاف ایوان کے اندر سے تبدیلی کی آوازیں آنے لگی ہیں لہٰذا وہ حالات کو خوشگوار بنانے کی طرف بڑھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).