آئین مجبور ہے یا ریاستی ادارے؟


آئین میں حاکمیت کے اختیار کے تعین اور اداروں کے درمیان اختیارت کی واضح تقسیم کے باوجود ملک میں حاکمیت کی کشمکش، کھینچاتانی، دھونس، ہٹ دھرمی، غلط بیانی، انکار، اقرار، انتشار کا سلسلہ ختم ہونے کو ہی نہیں آتا۔ حاکمیت میں حاکم واضح طور پر سامنے ہوتا ہے لیکن پاکستان میں حاکمیت انجوائے کرنے والے خود کو پس پردہ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جوابدہی کا سامناکرنے کوتیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنی بنائی گئی پالیسیوں کی ناکامیوں، اپنے اقدامات کی ناکامیوں، خفیہ ایجنڈوں کی ذمہ داری بھی لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ جبکہ دفاع، خارجہ، اقتصادی سمیت تمام ت ملکی پالیسیاں بنانا آئین کی رو سے بھی فوج کا کام نہیں ہے۔

ملک میں حاکمیت کا توازن کرنے کا مطالبہ جنرل ایوب کے الیکشن کے موقع کے بعد اب پہلی بات کھل کر مولانافضل الرحمان کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے ملکی سیاسی تاریخ میں جرات کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے فوج کا نام لے کر ملک میں آئین کی حقیقی بالادستی کا مطالبہ کرتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام سنہری الفاظ میں تحریر کرا لیا ہے۔ فوج کے ترجمان ڈی جی ’آئی ایس پی آر‘ میجر جنرل آصف غفورنے میڈیا میں شائع ایک ایک انٹرویو میں اس بات سے انکار کیا ہے کہ فوج سیاست، الیکشن میں دخل اندازی کرتی ہے۔ یعنی فوج انکاری کہ ان کا حکومت، سیاست میں کوئی عمل دخل ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ

پتہ پتہ بوٹابوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

ڈان لیکس کیا تھا؟ اس کی تفصیلات اخبارات، میڈیا میں بھی شائع ہوئیں لیکن ان باتوں کی تردید کے بجائے فوج کا زور اس بات پہ رہا کہ اجلاس کی باتیں باہر کیوں نکلیں۔ ”ریجیکٹڈ“ کی ٹوئٹ اور ٹوئٹ کا واپس لینا کیا تھا؟ یقینا اب اسے سیاست اور حکومت میں مداخلت تو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ کیا اس وقت فوج نے حکومت کو عاجز نہیں کر دیا تھا؟ کیا ایسا کرنا آئین سے سراسر انحراف نہیں؟ پارلیمانی لیڈرز کی کانفرنس کا حوالہ کہ جس میں آرمی چیف کی الیکشن سے متعلق تجویز کی بات کی گئی ہے، کیا الیکشن کے موقع پر ووٹ سے دشمن کو شکست دینے کے عزم کا اظہار میڈیا میں شائع نہیں ہوا تھا؟

یہ کہنا کہ ”فوج غیرجانبدار ادارہ ہے، ہم آئین اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھتے ہیں“، کیا فوج کا کام حکومت کے احکامات پر عمل کرنا ہے یا اپنے کردار کا از خود تعین کرنا ہے؟ دھرنے عرصے سے ضرور ہو رہے ہیں لیکن ان تما دھرنوں میں فوج کا کردار چھپانے کی کوشش اور انکار کے باوجود روز روشن کی طرح نمایاں ہے۔ یہاں توغلطی تسلیم کرنے کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ نیشنل سیکورٹی بھی حکومت کی صوابدید ہوتی ہے، اس کا تعین کرنا، پالیسی بنانا فوج کا کام نہیں ہوتا، فوج اس معاملے میں بھی حکومت کی ماتحت ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہے نہیں۔

کشمیر پر سمجھوتہ نہ کرنے کے دعوے پر کیسے یقین کریں کہ سابق آمر حکومتوں کی طرح موجودہ اقتدار کے دور میں بھی کشمیر کاز پر پسپائی کے اقدامات نمایاں ہیں۔ ملک میں غدار غدار کا کھیل تو ابھی بھی جاری ہے، اس حوالے سے بہت سی مثالیں ہیں جو اس حوالے سے بیان بھی ہو رہی ہیں۔ اب کوئی انہیں تسلیم ہی نہ کرے تو۔ ملک میں آئینی طور پر تقسیم کار ہو تو گئی ہے لیکن اس پر عملدرآمد ایک ایسا مسئلہ بنی ہوئی ہے جس سے ملک کی بنیادیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).