چیف جسٹس صاحب! جھوٹی گواہی کی طرح جھوٹے می ٹو پر بھی فیصلہ


چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے جھوٹی گواہی کے خلاف تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 72 برسوں کے دوران عدالتی مقدمات میں جھوٹی گواہی کے باعث نہ جانے کتنے لوگ متاثر ہوئے اور کتنے خاندان برباد ہوئے لیکن جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب سے قبل اس طرف کسی نے توجہ ہی نہیں دی یا جھوٹی گواہی کو ختم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام نہ کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے کچھ دنوں قبل ایک تقریب میں پاکستان میں جھوٹی گواہی پر بات کرتے ہوئے حوالہ دیا کہ ”1925 ء میں لاہور ہائی کورٹ میں بخشیش سنگھ کیس کی سماعت کے دوران ایک برطانوی جج نے ریمارکس دیے تھے کہ دنیا کے ہرحصے میں مرتے ہوئے فرد کے بیان کے ساتھ سچائی جڑی ہوتی ہے لیکن صرف برصغیر میں بسترِ مرگ پر بھی لوگ اپنے مخالفین پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں تاکہ ان کی موت کے بعد بھی ان کے مخالفین کی اذیتیں جاری رہیں“۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے اسی موضوع پر مزید بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق چیف جسٹس اور ”نظریہ ضرورت“ کے موجد جسٹس منیر ملک کے جھوٹی گواہی کے بارے میں 1951 ء کے فیصلے کی مخالفت کی جس میں جسٹس منیر ملک کے خیال میں ملزم کو مجرم بنانے کے لیے جھوٹے بیان کو تسلیم کرنا ضروری تھا۔ مذکورہ تقریب میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے ایک لاطینی ضرب المثل کا حوالہ دیا اور کہا کہ ”اگر گواہ ایک بات میں جھوٹ بولتا ہے تو اس کی ساری گواہی کو مسترد کردینا چاہیے“۔

چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب کا جھوٹی گواہی کے خاتمے کے حوالے سے تحریر کردہ فیصلہ پاکستان کی مستقبل کی عدالتی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ اِن دنوں ہماری سوسائٹی میں جھوٹی گواہی کی طرح کا ایک اور سنگین معاملہ بھی سامنے آرہا ہے جو ”جنسی ہراسانی کے الزام“ اور ”می ٹو موومنٹ“ میں پایا جاتا ہے۔ اِس جنسی ہراسانی اور می ٹو کے جھوٹے الزام کے تحت فرد اور خاندان کے شدید متاثر ہونے کی خبریں سوسائٹی کو الارم کررہی ہیں۔

اس میں پہلی مثال میشا شفیع اور علی ظفر کی ہے۔ میشا شفیع کے پاس علی ظفر کے خلاف جنسی ہراسانی کے می ٹو کیس کو ثابت کرنے کے لیے بظاہر کوئی ناقابل تردید مواد اور گواہ موجود نہیں ہے۔ اب تک کی تمام تر خبریں علی ظفر کی بے گناہی ثابت کرتی ہیں۔ اگر مقدمے میں علی ظفر کو باعزت بری کردیا گیا تو میشا شفیع کے الزام لگانے کے بعد علی ظفر کو جو معاشرتی اور ذہنی ٹارچر ہوا ہے اُس کا ازالہ کیسے ہوگا؟ جنسی ہراسانی کے تحت جھوٹا الزام لگانے کی ایک اور خوفناک مثال ایم اے او کالج لاہور کے انگریزی کے لیکچرار افضل محمود کی ہے۔

اُن پر انہی کی ایک خاتون شاگرد نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا جو انکوائری کے بعد جھوٹا ثابت ہوگیا۔ بی بی سی کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی کالج کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عالیہ رحمان نے بتایا کہ ”افضل محمود پر لگنے والا الزام دوران تفتیش جھوٹا ثابت ہوا تھا“۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ”ان تک ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالب علم کی درخواست پہنچی تھی جس میں لکھا تھا کہ سرافضل لڑکیوں کو گھور کر دیکھتے ہیں۔

جب یہ کیس میرے پاس آیا تو میں نے اس لڑکی سے بات کی۔ اس نے مجھے کہا کہ ”اصل میں سر ہمارے نمبر کاٹتے ہیں اور ہماری کلاس میں حاضری کم تھی اس لیے سرنے ہمارے نمبر کاٹ لیے“۔ میں نے ان سے کہا کہ ”اس بات کو سائیڈ پر کریں اور ان کے کریکٹر کی بات کریں اور یہ بتائیں کہ افضل نے ان کے ساتھ کبھی کوئی غیراخلاقی بات یا حرکت کی؟ “ اس پر الزام لگانے والی طالبہ نے جواب دیا کہ ”نہیں مجھے تو نہیں کہا لیکن میری کلاس کی لڑکیاں کہتی ہیں کہ وہ ہمیں گھورتے ہیں“۔

ڈاکٹر عالیہ رحمان کے مطابق انہوں نے انکوائری مکمل کرنے کے بعد انکوائری رپورٹ میں یہ لکھ دیا کہ افضل کے اوپر غلط الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ معصوم ہیں۔ میں نے اپنی انکوائری رپورٹ میں یہ لکھا تھا کہ افضل بے قصور ہیں اور اس لڑکی کو وارننگ جاری کی جائے اور اس سے سختی سے ڈیل کیا جائے ”۔ اس جھوٹے الزام کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ لیکچرار افضل محمود کو بے گناہ ثابت ہونے کے باوجود معاشرتی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

یہاں تک کہ ان کی والدہ ان سے ناراض ہوگئیں اور ان کی اہلیہ انہیں بدکردار سمجھ کر انہیں چھوڑ کر چلی گئیں۔ لیکچرار افضل محمود نے اپنے اوپر لگنے والے جنسی ہراسانی کے جھوٹے الزام سے نجات خودکشی کے ذریعے حاصل کی۔ مندرجہ بالا دونوں مثالوں سے پتا چلتا ہے کہ جنسی ہراسانی یا می ٹو کے جھوٹے الزام کے باعث افراد اور خاندان شدید متاثر ہوسکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو جنسی ہراسانی یا می ٹو کا جھوٹا الزام بھی جھوٹی گواہی کی مانند ہی ہے۔

اس لیے اس کا سدباب ضروری ہے۔ اس حوالے سے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ 1 ) جنسی ہراسانی یا می ٹو کے الزام کی درخواست دینے کے لیے باقاعدہ عدالتی فورم مختص ہونا چاہیے۔ اس حساس معاملے کو صرف ڈیپارٹمنٹل ہراساں کمیٹی پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ 2 ) اس حوالے سے الزام لگانے والے کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنا الزام سوشل میڈیا یا دوسرے میڈیا پر پھیلانے کی بجائے صرف متعلقہ عدالتی فورم تک پہنچائے۔ 3 ) اس فورم میں می ٹو کی ایف آئی آر باقاعدہ رجسٹرڈ کرائی جائے۔

4 ) اس حوالے سے الزام لگانے والے فرد کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے الزامات عدالتی فورم کے سامنے خود ثابت کرے نہ کہ ملزم اپنی بے گناہی کے لیے مختلف فورمز پر درخواستیں دیتا پھرے۔ 5 ) جنسی ہراسانی یا می ٹو کی درخواست وصول ہونے کے بعد اسے سب جوڈیسی تصور کرتے ہوئے اس پر میڈیا یا دیگر غیرمتعلقہ فورم پر قیاس آرائیوں سے ممانعت کی جائے۔ 6 ) الزام لگانے والے فرد کے اپنے حق کے مواد اور گواہان کو دیگر فوجداری مقدمات کے مواد اور گواہان کی شرائط کی طرح کا پابند کیا جائے۔

7 ) سب سے اہم یہ کہ جھوٹا الزام لگانے والے کے لیے جرمانے اور قید کی سزا کا تعین کیا جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب سے بہت مؤدبانہ درخواست ہے کہ جھوٹی گواہی کی طرح اس معاملے پر بھی توجہ فرمائی جائے تو معاشرے میں فروغ پانے والی مستقبل کی اس سنگین برائی کی بھی روک تھام کسی حد تک ہوسکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).