‘دوسرے صفحے’ کے لوگوں کا وارث کون؟


سوالات اٹھ رہے تھے۔ کوئی تو ہو جو آگے بڑھ کر محض بات ہی کرلے۔ گھٹن اور تاریکی اتنی کہ کوئی رستہ نہ دکھ رہا تھا۔ ہوا بھی ایک ہی سمت میں چل رہی تھی۔ احتساب کے دل آویز نعروں سے مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کو ‘محظوظ’ کیا جا رہا تھا۔ صاحب اقتدار اور مقتدر ایک صفحے کا ڈھول پیٹ رہے تھے۔ دوسرے صفحے پر کھڑی قوم مایوسی کے عالم میں سوال کررہی تھی، ؟کیا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟ کوئی ان کی آواز بھی سنے گا؟

ایسے میں مولانا فضل الرحمان اپنے سینے کا ابال لیے اسلام آباد کی طرف نکل پڑے۔ متحدہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے شرکت کی دعوت پر خوب لیت لعل اور حیلے بہانے کئے۔ حکومت نے ان گنت اشارے دیے کہ مولانا نہیں آئیں گے۔ مگر مولانا اسلام آباد پہنچ گئے اور دونوں احتساب زدہ سیاسی جماعتوں – مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی – کو کھینچ کر اسلام آباد لے آئے۔ دوسرے صفحے کا طبقہ ایک عرصے سے منتظر تھا کہ کوئی تو تندوتیز چلتی ہوا کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات کرے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے حمایتی، ہمدرد اور حکومتی پالیسیوں کے شکار عوام ہر حال میں ان بڑی جماعتوں کی بھرپور نمائندگی کے خواہاں تھے۔

آزادی مارچ اور دھرنے سے مولانا چاہتے کیا تھے؟ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے دھرنے سے عمران خان استعفیٰ دینے والے نہیں۔ مگر وہ سیاست کے بعض معاملات میں بڑھتی ہوئی مداخلت پر روک لگانا چاہتے ہیں۔ حکومت اور مقتدر ادارے ان کے اس اقدام سے پریشان ضرور ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جمیعت علماء اسلام کے آزادی مارچ نے بہت سے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ جارحانہ نظر آنے والے صاحب اقتدار ایک قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ یعنی مولانا نے اس گھٹن کی بند بوری میں پہلا چھید ڈال دیا ہے جس کے بعد کسی حد تک سیاسی فضا میں دھندلاہٹ کم ہونا شروع ہو گئی۔ تاجروں کے ساتھ بھی ممکنہ تصادم ٹل گیا۔

ویسے تو یو- ٹرن کی ایک لمبی فہرست ہے جو تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد لیے ہیں۔ مگر بعض معاملات میں حکومت اور مقتدروں نے مفاہمت اور مشاورت کو اپنی عزت بے عزتی کا معاملے بنا لیا اور یہ ٹھان لیا کہ آخری حد تک جائیں گے۔ اگرچہ جہاندیدہ اور معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد نے ہر یو- ٹرن والے معاملے پر پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ایسے نہیں چلے گا۔ مگر ضد آڑے گئی۔

پچھلے کچھ عرصے سے عوام کو کھلم کھلا ایک پیغام دیا جا رہا ہے کہ ملکی کے وسیع تر مفاد میں پہلی مرتبہ ادارے کسی حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یعنی ہر شہری پر فرض ہے کہ وہ درست یا غلط تمام پالیسیوں پر اتفاق کرے۔ چاہے حکومت جتنے بھی یو- ٹرن لے انہیں درست قرار دیا جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی جمہوری حکومت کو ایسا کندھا فراہم نہیں کیا گیا جتنا تحریک انصاف کو۔ مگر اس وسیع تر حمایت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے عمران خان کی حکومت نے عوام کو سہانے جعلی خواب دکھائے جو سب چکنا چور ہو گئے۔

ڈیم سے لیکر 200 ارب ڈالر کی برآمدگی، ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے سے لیکر بیرون ملک اثاثوں کی ملک واپسی، آف شور معدنیاتی خزانے، بیرون ملک پاکستانیوں سے اربوں ڈالرز کے چندے کے امیدیں، پلک جھپٹتے ہی ملکی ٹیکسٹائل برآمدات دگنی، پچھلی حکومتوں کے دوران کی گئی منی لانڈرنگ سے اربوں ڈالرز کی ریکوری، کئی سو ارب کی کرپشن روک کر ملکی خزانے میں دولت کے انبار، ایماندار وزیراعظم ہونے کے ناطے کھربوں کی ٹیکس وصولی، بھارت سمیت ہمسایوں سے تعلقات بہتر کرنے کی بے صبری دکھانے کے عوض کشمیر ہڑپ اور فاٹف کا شکنجہ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

یعنی ہر بڑے ہدف میں ناکام۔ 200 ارب ڈالر کہیں نہیں ہیں۔ لوٹِ ہوئی دولت واپس لانا مشکل ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں نہیں دے سکتے بلکہ 400 سرکاری محکمہ بند کررہے ہیں۔ بیرون ملک بھیجا گیا پیسہ غیر قانونی نہیں اور نہ ہی اس سے خریدی گئی جائیداد۔ ڈیم کے نام اربوں کی مہم کے باوجود چندہ محض اونٹ کے منہ میں زیرہ، ٹیکسٹائل برآمدات وہیں کی وہیں۔ کرپشن کم ہونے کی بجائے ریٹ دگنا ہو گیا۔ ٹیکس وصولیاں کے اہداف کم کرنا پڑ گئے۔ کاروبار بڑھنے کی بجائے ٹھپ ہو گئے۔

بڑے دعوے اور پھر ان پر بضد ہونا کہ حکومت یہ سب کرکے دکھائے گی۔ لامحدود اختیارات دے کر کمیٹیاں در کمیٹیاں بنائی گئیں۔ بیرون ملک دورے کرکے معاہدے کئے گئے مگر سب بےسود۔ اب کہتے ہیں بیرون ملک سے دولت لانا ناممکن ہے۔ وقت اور پیسے کا ضیاع۔ ایسا خوف پیدا کیا گیا کہ باہر سے پیسہ ریکور کرنے کی بجائے بڑی تعداد میں لوگوں نے ملک سے مزید پیسہ باہر بھیج دیا۔

اور اب تو عوام کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے حامی بھی مایوس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ حکومت کی مایوس کن کارکردگی کے بعد کسی ایسے ایک شخص کی تلاش ہے جو کہے وہ پارٹی بدل کر ‘ایک پیج’ کی پارٹی میں شامل ہو گیا ہے۔ ایسے حالات میں بار بار یہ دہرانا اور تاثر دینا کہ طاقت کے مراکز ہرحال میں تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں ٹھیک نہیں۔ اس بات کا اندازہ دیر ہونے سے پہلے بخوبی کرلینا چاہئے کہ بڑھتی ہوئی خلیج کے نتائج کسی طور پر مثبت نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا غیر جانبدار رہتے ہوئے پوری قوم کو ‘ایک پیج’ پر لانا ہے ناکہ کسی ایک جماعت کو۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنا کردار ادا کردیا ہے اب دوسروں کی باری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).