سارا شگفتہ کی زندہ لاش کا مقدمہ، مردہ روحوں کی عدالت میں


بقول عذرا کے ان کے ابو تک نے یہ پیشن گوئی کردی کہ اس عورت کا انجام اچھا نہیں ہوگا یہاں تک کے رکشے ڈرائیور نے بھی عذرا کے چہرے پر شرافت اور سارا کی بے ہو دگی پڑھ لی۔ کیا یہ سب گواہیاں۔ یہ الفاظ ایک مردے کو بے کفن کرنے کے لئے لکھنا، کہنا ضروری تھے؟ ایک انسان جب اپنی ذلتوں سمیت اس دنیا کے نام نہاد شریفوں کے منہ پر تھوک کر چلا ہی گیا تو اس پر ”ذلتوں کے اسیر“ اور ”درد کا محل وقوع“ لکھنے ضروری تھے؟

عذرا عباس ہی کی نظم ہے۔

جب کہنے کے لئے کچھ نہ ہو

کہنے کے لئے کچھ نہیں ہو تا

صرف بدگوئیاں

اور بے ہو دہ گالیاں

لتھڑے ہو ئے لفظ

اور گلی میں جھگڑا کرتی ہو ئی آوازیں

پھر ہم کیا کرتے ہیں

بدگوئیاں

اور خود کو خوش کر نے کے لئے

بد فعلیاں

یا پھر گلی سے باہر

جھگڑے میں لتھڑی ہوئی

گالیاں

جو لباسوں کے لئے

خوش کن ہو تی ہیں

اور جب کہنے کے لئے کچھ نہ

یہ خطرہ بھی ٹل جاتا ہے

ہم اپنے نام کی تختی الٹ کر

گلی میں نکل جاتے ہیں

تو کیا عذرا عباس اور انور سن رائے کے پاس ان بدگوئیوں کے علاوہ لکھنے کے لئے یا ادب کو دینے کے کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ عذرا نے اپنی کتاب میں جہاں سارا کے سب ہی شعرا کے ساتھ تعلقات کا راز فاش کیا ہے وہاں انہوں نے اپنے شوہر کو بھی نہیں بخشا، بلکہ یوں لگتا ہے کہ جو مسئلہ یہ دونوں میاں بیوی گھر میں سلجھا سکتے تھے یا فیس بک کی پوسٹس پر راضی بر ضا ہو سکتے تھے اس کے لئے پو ری کتابیں لکھ ڈالیں۔

انور سن رائے کے ناول کی پہلی اشاعت 1997 میں ہوئی۔ کتاب کا انتساب عذرا عباس کے نام ہے اور اختتام پر اسی بات کا ثبوت دینے کی کوشش کی ہے کہ کہ انہوں نے سارا (ان کے ناول میں ثانیہ نام رکھا گیا ہے ) کے جسم کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بس بات روح تک ہی تھی۔

یہ دونوں ردی ناول پڑھ کر میں سوچ رہی ہوں کہ اگر انور سن رائے، عذرا عباس کی گوسپس، افواہیں اور سارا شگفتہ کی برائیاں دھیان سے سن لیتے (درد کے محل وقوع میں جگہ جگہ یہی بات بار بار کی گئی ہے کہ میں نے انور کو فلاں کی بات بتائی اور ظاہر ہے ہر بات سارا سے متعلق ہو تی تھی، مگر انہوں نے سنی ان سنی کر دی) ، اور دوسری طرف انور سن رائے، عذرا بیگم کو اپنی وفاداری کا ثبوت دینے اور اس کا شک دور کر نے میں کامیاب ہو جاتے تو ادب ان دو شاہکار ناولوں سے محروم رہتا۔

عذرا بیگم! آپ 8891 میں چھپنے والی اپنی کتاب کا انتساب اپنے شوہر کے نام ہی کرتی ہیں حالانکہ وہ اس سے پہلے ہی آپ سے بے وفائی کر چکے تھے۔ اور پھر 6102 میں آپ ان کے کچھے چھٹے کھول رہی ہیں اور ایک سالوں پہلے گڑا مردے کو قبر سے نکال کر اس کی تذلیل کر رہی ہیں۔ اور انور صاحب، وہ سب کر کرا کے 7991 میں ”ذلتوں کے اسیر“ کا انتساب آپ کے نام کرتے ہیں اور ناول میں آپ کو ایک شریف اور باکرہ دکھا کر ایک مری ہوئی عورت کو شرابی، ہیئروئن ایڈیکٹ، ہم جنس پرست، اور جسم فروش اور نجانے کیا کیا دکھاکر اپنے اور آپ کے لئے نیک نامی کما لیتے ہیں۔ اپنے تئیں۔

اور دوسری طرف سارا شگفتہ اپنا مقدمہ لڑنے کو اس دنیا میں نہیں ہے کیونکہ وہ مقابلہ کے قابل ہو تی تو اتنی جوانی میں خود کشی ہی کیوں کرتی سب سے گن گن کر بدلے نہ لیتی۔ امرتا پریتم اورسعید احمد (جو اسے بالکل زندگی کے آخر میں ملے، جس کے ساتھ وہ جینا بھی چاہتی تھی) کے علاوہ اس کی روح کی معصومیت اور گہرائی کو کوئی نہیں جان پایا۔ سارہ کی شاعری چیخ چیخ کر پڑھنے والے کے دل اور جگر کو چیرتی ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ جھوٹی عورت کی جھوٹی کہانی۔ عذرا صاحبہ کہتی ہیں کہ میں نے اسے چیخ کر روکا کہ کتنا جھوٹ لکھو گی۔

سارا نے امرتا کو ایک خط میں ٹھیک کہا تھا کہ کاغذی لوگوں سے میں اب نہیں ملتی۔ خاموش رہتی ہوں اور ساحل سمندر پر چلی جاتی ہوں۔ اور اکیلی پھرتی رہتی ہوں۔

اس کی روح کی سچائی اور تنہائی ہی ہو گی جو میں۔ اتنے سالوں بعد سات سمندر پار کینڈا میں بیٹھے سارا شگفتہ کا مقدمہ لڑ رہی ہوں۔ امرتا کو خواب آیا تھا کہ لوگ سارا کو زندہ دفنا رہے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ لوگ ہر اس زندہ کو دفنانے کی کوشش کر تے ہیں جو زندگی کو زندگی کی طرح جینا چاہتا ہے۔ عام لوگ ہوں یا شاعر، ادیب، مولوی یعنی سماج کا کوئی بھی ٹھیکدار ہو سب کے ہاتھوں میں ایسے سکے ہیں جن کی دو سائیڈز ہیں جنہیں وہ اپنی طرف اچھالیں تو ہمیشہ ہیڈ آئے گا اور دوسرے کی طرف اچھالتے ہیں تو ہمیشہ ٹیل ہی آتی ہے۔

۔ یہ مضمون میں نے 31 اکتوبر کو لکھا تھا، سارا شگفتہ کی سالگرہ والے دن۔ اس نے امرتا کو کہا تھا: ”چڑیوں کا چہچہانا ہی میرا جنم دن ہے“۔

اگر اب چڑیوں نے چہچہانا کم کر دیا یا بالکل چھوڑ دیا تو یہ نہ سمجھئے گا کہ چڑیاں اس زمین سے ختم ہو رہی ہیں بلکہ سوچئیے گا کہ چہچہانے والی چڑیوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ اس زندستان سے انہوں نے قبرستان کا رخ کیوں کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2