کشمیر اور مولا جٹ کی بڑھکیں


کیا بات ہے جواہر لال، آج کچھ پریشان نظر آ رہے ہو؟

آپ ٹھیک ہیں میڈم؟

میں ٹھیک ہوں۔ اگر لارڈ ماونٹ بیٹن آزاد ہندوستان کے گورنر جنرل ہوں گے تو پریشانی کیسی۔ میں بھی یہاں تم بھی یہاں۔

لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ آ گیٔ۔

پنجاب کی تقسیم کی لکیر ٹھیک نہیں۔ مشرقی پنجاب کے کچھ علاقے پاکستان میں شامل کٔے گٔے ہیں۔ وہ ہمیں ملنے چاۂیں۔

’وہ مسلم اکثریتی علاقے ہوں گے‘

’جی ہاں لیکن جموں کہ جانے والی سڑک کھٹوعہ روڈ وہاں سے گزرتی ہے۔ اگر وہ علاقے پاکستان کو مل گٔے تو ہمارے لٔے کشمیر حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ ‘

’اس کا فیصلہ تو راجہ کرے گا۔ جیسے حیدرآباد یا جوناگڑھ اور دوسری ریاستیں کریں گی۔ ‘

’وہ ریاستیں ہندوستان کی حدود میں ہیں ہم ان سے بعد میں نمٹ لیں گے۔ لیکن کشمیر کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔ یہی بڑا خطرہ ہے۔ راجہ کو ہم دیکھ لیں گے، پہلے راستہ تو ملے۔

’لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے ماتھے کی شکنیں کچھ گہری ہو گٔیں۔

اور پھر تقسیم کی ایک لکیر مٹا کر دوسری لکیر کھینچ دی گیٔ۔ ایک خونی لکیر۔

مشرقی پنجاب کے سکھ تقسیم کی لکیر کی وجہ سے پریشان تھے خوف زدہ تھے کہ پاکستان بن گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔ یہ مُسلے ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ اک خوف کا عالم تھا۔ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ مسلمان کہتے تھے کہ ہم صدیوں سے اکٹھے رہتے آے ٔ ہیں اب بھی رہیں گے۔ لیکن ایک ڈر تھا کہ اندر ہی اندر کھاے ٔ جا رہا تھا۔

لیکن جب لکیر مٹا کر ایک دوسری لکیر کھینچ دی گٔی تو سکھوں کا خوف ایک عفریت بن کر باہر نکلا۔ کرپانیں لہرایں۔ گلے کٹے۔ لاشے گرے۔ عصمتیں لٹیں۔ کھیت کھلیان خون سے رنگین ہو گٔے۔ مسلمان عازم پاکستان ہؤے تو رستے میں لٹے۔ اقوام کی تاریخ میں شاید پہلی اور آخری بار ایسا ہوا کہ مہاجرین سے بھری ایک ریل گاڑی جب لاہور پہنچی تو اس کا صرف ڈرأیور زندہ تھا۔ لاکھوں نہرو کی آنکھوں کی لالی اور لیڈی ماونٹ بیٹن کی مسکراہٹ پرقربان ہو گٔے۔

کہتے ہیں مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق نامے پر دتخط کر دیے تھے۔ کچھ لوگ نہیں مانتے۔

کشمیر پر قبضہ مضبوط رکھنے کے لیٔے فوج بھیج دی گیٔ۔

قائد اعظم نے اپنے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی کو فوج بھیجنے کا حکم دیا۔ اس نے انکار کر دیا۔

مجاہدین نے کشمیر پر دھاوا بولا۔ کافی علاقہ وا گزار کروا لیا۔ نہرو بھاگا بھاگا اقوام متحدہ پہنچا۔ جنگ بندی ہو گئی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ متنازہ خطہ ہے۔ پاکستان کو یہ لالی پاپ دیا گیا کہ کشمیر کے عوام رفرنڈم کے ذریئے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

اب وقت تھا ایک با اثر سفارت کاری کا۔ سیکیوریٹی کونسل پر دبأو بڑھایا جاتا، اقوام عالم کو ساتھ لے کر سیکوریٹی کونسل کومجبور کیا جاتا کہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل کروأے۔ رفرنڈم ہو تاکہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ اگر انڈونیشیا سے مشرقی تیمور نکل سکتا ہے۔ اگر سوڈان سے جنوبی سوڈان نکل سکتا ہے تو کشمیر میں رفرنڈم کیوں نہی ہو سکتا لیکن یہ بات ہماری ترجیہات میں شامل نہیں تھی۔

سفارت کاری ہم کیا کرتے ہم نے تو بڑا عرصہ بغیر وزیر خارجہ کے گزار دیا۔ کبھی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ اپنے سیاسی دوستوں کو اہم ممالک میں سفیر بنا کر بھیجتے رہے تاکہ وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلا سکیں سفارت خانے کی مال پر عیاشی کر سکیں۔ اور اس ملک کے شہری بن سکیں۔

ہمارے حکمران ستر سال، جی ہاں، ستر سال تک نہرو اور سیکوریٹی کونسل کا دیا ہوا لالی پاپ چوستے رہے۔ جلسوں میں تقریریں کرتے رہے۔

ایوب خان نے اپریشن جبرالٹر کیا، ساری قوم ساتھ کھڑی ہو گئی لیکن جیتی ہوئی بازی تاشقند میں ہار دی۔

ہم کہتے ہمارے ساتھ بات کرہ کہ مسٔلے کا کوئی حل نکلے۔ جواب آتا جب تک پاکستان دہشت گردوں کو ہندوستان پر حملوں سے نہیں روکتا تب تک پاکستان سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔

ہم عرب دوستوں کے پاس گٔے تو کسی نے مودی کہ میڈل پہنایا تو کسی نے مودی کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے۔

ہور چوپو

’اؤ آئی سی‘ تو شاید اب۔ ’اوہ آئی سی‘ بن گئی ہے۔ اس کے تو اجلاس کی کوئی خبر کسی اخبار کے صفحہ اول کی سرخی بھی نہیں بنتی۔

امریکی صدر نے کہا میں ثالثی کے لیٔے تیار ہوں۔ مودی نے جواب دیا کہ ہم دونوں کا معاملہ ہے ثالث کی ضرورت نہیں۔

امرہکہ صدر نے کہا تو آپ دونو ں بات کرو، بولے پاکستان دہثت گردوں کو پناہ دیتا ہے بات نہیں ہو سکتی۔

پھر 5 اگست ہو گیا۔ ہندوستان نے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے دیا۔ کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم۔ یو این او کی قراردیں ختم۔ ثالثی کی ضرورت ختم۔ باہمی گفتگو کا امکان ختم۔ اب تو ہمارے وزیر اعظم نے بھی کہ دیا ہے جب تک کشمیر سے کرفیو نہیں ہٹتا، انسانی حقوق بحال نہیں ہوتے کؤی بات نہیں ہو سکتی۔

سب دروازے بند۔

ہندوستان نے ابھی لأن آف کنٹرول کو بین لاقوامی سرحد ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ ان کے وزیر دفاع نے ایک اعلان کیا ہے کہ اب پاکستان سے بات ہو گی تو بلتستان گلگت، شمالی علاقہ جات اور پاکستانی آزاد کشمیر کے بارے میں ہو گی۔ اب تو ہندوستان نے نیا نقشہ بھی جاری کر دیا ہے جس میں یہ سارے علاقے شامل ہیں۔

کشمیر میں کرفیو ہے۔ لوگ گھروں میں قید ہیں۔ خوراک اور دوایٔاں ناپید۔ ہزاروں نوجوان اٹھا لیٔے گٔیے۔ نہ جانے کتنے مر گیٔے ہوں گے۔

اب تو بنیادی انسانی حقوق کی آواز کے پیچھے کشمیر کا اصلی مدعا غائب ہوتا نظر آتا ہے۔

ایک مولانا نے اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا ارادہ کیا ہے۔ میڈیا پر ہر طرف مولانا کا ذکر ہے۔ (کہیں یہ بھی توجہ ہٹانے کی سازش تو نہیں )

اگرکشمیر کو ٓزاد کرانا ہو تو اس کا ایک ہی طریقہ باقی ہے۔ وہی جو اندرا گاندھی نے کیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی (بقول نظام دین ’کتی باہمنی‘ ) بنائی اس میں اپنے فوجی بھیجے، اسلحہ دیا اور حالات زیادہ بگڑے تو فوج بھیج دی۔ کہ ’ہم تو اپنے ہمسایہ ملک کے عوام کی آواز پر مشکل وقت میں ان کی مدد کے لیٔے آے ٔ ہیں‘ ۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو تقریریں بند کرو۔ مولا جٹ کی طرح بڑھکیں مارنے کا فایٔدہ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).