دھرنا اور مفاہمتی حلوہ


مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کو دس دن ہونے کو ہیں اور دھرنے کے شرکاء سرد موسم کے باوجود اسلام آباد کے ایچ نائن گراؤنڈ میں موجود ہیں۔ حکومت نے مولانا کے آزادی مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرنے کا مشکل ترین کام خود ہی انہیں اسلام آباد تک آنے کی اجازت دے کر آسان کر دیا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کاساتھ نہ دینے کی اتنی پریشانی نہیں جتنا انہیں دھرنے میں شامل شرکاء کا اسلام آباد کے سرد موسم میں ہمت ہارنے کا ڈر تھا۔

اسلام آباد میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی بارشیں شروع ہو چکی ہیں۔ دھرنے میں شرکاء نے شدید بارش اور ناقابل برداشت سردی کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اپنے قائد کے موقف کے ساتھ کھڑے رہنے کا دلیرانہ ثبوت دیا۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنے کارکنان کا حوصلہ مذید بڑھاتے ہوئے کہا کہ کارکنوں نے استقامت سے رات اور دن بھر ٹھنڈے موسم کو برداشت کیا، یہ اللہ کی طرف سے امتحان، دنیا اور حکمرانوں کے لئے پیغام تھا کہ یہ اجتماع تماش بینوں یاعیاشی کے لئے نہیں، یہ اجتماع مؤقف کے ساتھ کھڑے افراد کا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 12 ربیع الاول کو آزادی مارچ کو سیرت طیبہ کانفرنس میں تبدیل کریں گے۔ سیرت طیبہ کانفرنس کے اعلان سے ایک بات تو طے ہوگئی کہ مولانا صاحب جلدی جلدی اسلام آباد سے واپس جانے والے نہیں۔

ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمن اپنے پلان بی کے مطابق دھرنے کے شرکاء کو 12 ربیع الاول ڈی چوک میں منانے کا حکم دے دیں۔ تیاریاں مکمل ہیں ان گنت شرکاء کے لئے شامیانے، دریاں، کمبل اور دوسری ضروری اشیا ان تک پہنچا دی گئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پلان بی کے علاوہ ایک اور بات بڑی شدت سے مشاہدے میں آئی ہے کہ مولانا کے کارکنان اور شرکاء مولانا طاہر القادری اور عمران خان کے کارکنان سے کافی مختلف ہیں وہ انتہائی سخت جان اور اپنے قائد کے اشارے پر کٹ مرنے والے ہیں۔

پی ٹی آئی کے دھرنے کا ”میلہ“ تو شام کے بعد پھیلنے والی سیاہی کے ساتھ ساتھ روشن ہوتا تھا مگر مولانا کے دھرنے میں شرکاء رات دن پنڈال میں رہ کر موسم کی نرمی اور سختی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ بقول مولانا کے آزادی مارچ اب ایک تحریک میں بدل گیا ہے۔ لگتا ہے حکومت نے بھی اس کی حساسیت بھانپتے ہوئے اپنے وزراء کو زبان دھیان سے استعمال کرنے کا حکم دے دیا ہے، کیونکہ حالات جس طرف جا رہے ہیں اس میں شدت آئی درجہ حرارت بڑھا تو احتجاج کے نتیجے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لئے عمران خان نے مولانا سے مذاکرات کے لئے چوہدری برادران کو تمام تر اختیارات دیے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے جب چوہدری شجاعت کے گھر ملاقات کے دوران کہا کہ میں یہاں حلوہ کھانے آیا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ حلوہ شوگر فری ہوگا۔ ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے مشرف دور میں 2007 کے لال مسجد آپریشن سے پہلے بھی چوہدری شجاعت حسین لال مسجد کے خطیب مفتی عبدالرشید کے لئے مذاکراتی مفاہمتی حلوہ لے کر گئے تھے لیکن اس حلوے میں شوگر ڈالنے کے بجائے آمر مشرف نے بارود کا تڑکا لگا کر مولانا عبدالرشید سمیت لال مسجد کے سینکڑوں طالب علموں کوموت کی نیند سلا دیا۔

چوہدری برادران مولانا کو اپنا مفاہمتی حلوہ کھلانے کی سر توڑ کوشش کر تے ہوئے 48 گھنٹوں میں چار ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین کو اپنے مخصوص مفاہمتی وسیاسی حلوے میں اداروں کواپنی مرضی کی ”شوگر“ ڈالنے سے روکنا چاہیے، کیونکہ سیاسی مفاہمتی حلوے کی دیگ پکانا اداروں کا کام نہیں ہے۔ اداروں کے مفاہمتی و سیاسی حلوے کی دیگ جل کر نقصان پیدا کر تی ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ جہاں حکومت وقت کے لئے آزمائش ہے وہیں مولانا اوران کی تمام حمایتی جماعتوں کے قائدین کی سیاسی بصیرت، تحمل اور برداشت کا بہت بڑا امتحان بھی ہے۔ ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کامصالحتی انداز اور میاں نواز شریف اور مریم نواز کا جارحانہ انداز مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں شرکت کرنے اور نہ کرنے کے فیصلے پربھی ٹکراتا ہے۔ اسی طرح پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ ہم دھرنے میں شامل نہیں ہوں گے لیکن اگر حالات ایسے بنا دیے گئے تو مولانا کے دھرنے میں شامل ہو سکتے ہیں۔

دو بڑی پارٹیوں کے دھرنے میں شرکت پر مخمصے کی وجہ سے حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ مولانا کے حمایتی ان کو دغا دے گئے، مگر جمعیت علماء اسلام ف کے رہنما ایک ہی بات کرتے ہیں کہ ان کے جو بھی فیصلے ہیں وہ رہبر کمیٹی میں شامل اپوزیشن کی نو جماعتیں ہی کریں گی۔ کیونکہ دھرنے میں ان کے اپنے کارکنان اتنی زیادہ تعداد میں شریک ہیں کہ اب انہیں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے کارکنان کی عددی اکثریت کی نہیں بلکہ ان کی پارٹی قیادت کے اخلاقی حمایت کی ضرورت ہے، جو انہیں رہبر کمیٹی میں بھرپور صورت میں نظر آتی ہے۔ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی میں تمام جماعتوں نے متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے تین تجاویز پر غور کیا ہے اور یہ بھی اعلان کیا ہے کہ کہ دو دن بعد آزادی مارچ نیا رخ اختیار کرے گاجبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک وزیراعظم کے استعفے اور جلدی الیکشن پر ہے۔

مولانا کی جماعت کے سینئر رہنما نے جن تین آپشنز کا ذکر کیا ہے ان میں ایک آپشن تو یہ ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ سے مستعفی ہو جائیں جس کے بعدنئے انتخابات کرائے جائیں، دوسرا آپشن یہ ہے کہ احتجاج ملک بھر میں پھیلا دیا جائے اور لاک ڈاؤن کر دیا جائے، شاہراہیں بند ہوں گی، کاروبار ٹھپ ہو گا تو حکمران مجبور ہو جائیں گے، یا ہفتے میں دو تین دن لاک ڈاؤن کیا جائے اور تین دن حالات معمول پر رکھے جائیں جبکہ تیسری (میرے خیال میں پہلی ) آپشن ڈی چوک کی طرف جانے کی ہے۔

عوام احتساب کے عمل میں کرپٹ سیاستدانوں کو کیف کردار تک پہنچانے کے عمل سے پہلے ہی نا اہلوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے ”گھبرانا نہیں“ کا نعرہ سن سن کر گھبراہٹ ہو رہی ہے کہ اور کتنا برداشت کریں اور کب گھبرانا شروع کریں۔ لوٹ مار، مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام کسی بھی سیاست دان پر اعتماد کرنے کے حق میں نہیں۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد عوامی مسائل اور اپوزیشن کو یکسر نظر انداز کردیاہے اور خود عقل کل سمجھ کر عوام کی نمائندہ اسمبلیوں کو تقریبا تالے لگا کر من پسند فیصلے صادر فرما رہے ہیں۔

آج اگر جمعیت علمائے اسلام کے لوگ باہر نکلے ہیں اور اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتیں ان کی اخلاقی حمایت کر رہی ہیں تو اس احتجاج کی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت عوامی مسائل کی نشاندہی کے بعد انہیں حل کرنے میں نا اہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نالائقیوں اورناکامیوں کی ذمہ داری اپوزیشن کے کندھوں پر ڈال کر مذید نا اہلی کا ثبوت دے رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).