ائی ایم ایف سے قرضہ لے کے کیا پاکستان ترقی کر سکے گا؟


عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) ایک عالمی تنظیم ہے، دنیا بھر کے 189 ممالک اس کا حصہ ہیں۔ آئی ایم ایف مختلف ممالک کی اندرونی معیشتوں اور ان کی مالیاتی کارکردگی بالخصوص زر مبادلہ اور بیرونی قرضہ جات پر نظر رکھتا ہے اور ان کی معاشی ترقی اور مالی خسارے سے نبٹنے کے لیے قرضے اور تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے۔

آئی ایم ایف غریب ممالک کو ان شرائط پر قرض دیتا ہے۔

سودکی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ اس سے غربت بڑھ جاتی ہے

ٹیکس بڑھایا جائے اور حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے۔ اس سے عوامی سہولیات میں کمی آتی ہے اور بے روزگاری بڑھتی ہے۔

زیادہ سے زیادہ قومی اداروں کی نجکاری کی جائے۔ اس سے ملکی اثاثے غیر ملکیوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔

بین الاقوامی سرمائے کی ملک میں آمد و رفت پر سے تمام پابندیاں ہٹا لی جائیں۔ اس سے اسٹاک مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے

بین الاقوامی بینکوں اور کارپوریشنوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے۔ اس سے ملکی صنعتیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد ان غریب ممالک کو بس اتنی رقم مزید قرض دی جاتی ہے کہ وہ اپنے موجودہ بین الاقوامی قرضوں کا سود ادا کر سکی۔ پاکستان کو اب تک آئی ایم ایف سے 12 مرتبہ ایس بی اے جبکہ پانچ دفعہ ای ایف ایف کے تحت قرض ملا جبکہ تین دفعہ ’ایکسٹینڈڈ کریڈٹ فیسیلیٹی‘ (ای سی ایف) اور ایک دفعہ ’سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ فیسیلیٹی کمٹمنٹ‘ کے تحت قرض حاصل کیا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کی طرف سے لیا گیا آخری قرضہ بھی ای ایف ایف کے تحت لیا گیا تھا۔ سٹرکچرل ایڈجسمنٹ پروگرامز ’یعنی ایس اے پی وہ ہوتے ہیں جن میں قرض دینے والا ادارہ شدید معاشی مشکلات کے شکار قرض حاصل کرنے والے ممالک کو مخصوص شرائط کے تحت نیا قرض دیتا ہے۔ ای ایف ایف وسط مدتی پروگرام ہے جس کا مقصد صرف ادائیگیوں میں توازن نہیں بلکہ اس کی خاص توجہ ملک کی معاشی ڈھانچے میں اصلاحات پر بھی ہوتا ہے۔ یہ منصوبہ تین سال کا ہوتا ہے لیکن اسے ایک برس تک کی توسیع مل سکتی ہے جبکہ رقم کی واپسی چار سے دس سال کے عرصے میں کی جاتی ہے۔

پاکستان گذشتہ 69 برسوں میں قرضے کے حصول کے لیے 21 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے. عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کو تین برس کے دوران چھ ارب ڈالر کا قرض دینے کی منظوری دے دی ہے۔ اب تک پاکستان 25 ہزار ارب روپے کا قرضہ لے چکا تھاہمارے قومی اثاثے پہلے ہی ان اداروں کے پاس گروی ہیں۔

قرضوں کے عوض ہمارے اہم قومی ادارے جناح ائرپورٹ کراچی، فیصل آباد پنڈی بھٹیاں موٹر وے، اسلام آباد پشاور موٹروے، اسلام آباد لاہور موٹر وے، پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن اور ریڈیو پاکستان عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھے ہوئے ہیں۔ جن کا مقصد ملک کو عدم استحکام سے دو چار کرنا ہے اور اب مغرب کی نظریں ہمارے ایٹمی اثاثوں پر ہیں۔

اب اگر ”اندرونی“ یعنی مقامی قرضوں کی بات کریں تو اس سے مراد مقامی بینکوں سے لیا جانے والا قرضہ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا مقامی قرض، بیرون قرض سے زیادہ ہے۔ مشرف دور سے پہلے تک یہ قرضہ 3 ہزار ارب روپے تھے جو آج بڑھ کر 20 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں بہرکیف زراعت، انرجی، برآمدات، تجارتی خسارہ وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران پانچ سالوں میں 48 ارب ڈالر کی ادائیگی کے باوجود بیرونی قرضوں میں کم از کم 34.6 بلین ڈالر کا خالص اضافہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت پرانے قرض کی فراہمی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی مالی اعانت اور زرمبادلہ کے ذخائر کی تعمیر کے لئے پانچ سالوں میں  83 بلین ڈالر قرض لے گی آئی ایم ایف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے 39 ماہ کے پروگرام کی مدت (جولائی 2019 سے ستمبر 2022 ) کے دوران پاکستان 37.4 بلین ڈالر ادا کرے گا۔ وفاقی وزیر برائے محصولات حماد اظہر نے گذشتہ ہفتے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت گذشتہ مالی سال 2018۔ 19 ء میں 9.5 بلین ڈالر کا بیرونی قرض واپس کر چکی ہے۔

ان قرضوں کی شرائط یہ ہیں

خسارے والے اداروں کی نجکاری

۔ ڈالر کی قیمت گھٹانا اور حکومت کا اس کے کنٹرول پر کوئی حق نہ ہونا،

گیس بجلی مہنگی کرنا، ٹیکس نیٹ بڑھانا اور مزید ٹیکس لگانا چین سے لیے قرضوں کا سود اس رقم سے ادا نہیں ہو گا، تجارتی خسارہ کم کرنا ہو گا

پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور حکومت کے منافقانہ دعووں کے بر عکس خزانہ خالی ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر کا حجم 17 ارب 58 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مرکزی بینک کے پاس موجود ذخائرکاحجم دس ارب سرسٹھ کروڑ ڈالرہوگیا ہے

آ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).