دھرنا تو کب کا اٹھ گیا


مولانا صاحب کا دھرنا شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا جا رہا ہے لیکن دھرنے کا محض لمبا ہونا عوامی سطح پر کامیابی کی ضمانت نہیں گو کہ چند سکہ بند صحافی مولانا کا سیاست میں متعلق ہونا، شکست خوردگی کی ہزیمت سے نکلنا اور حصہ بقدر جثہ حاصل کرنا ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر قیامتی صاحب تو کہہ رہے تھے کہ مولانا اسلام آباد نہ بھی پہنچے تو استعفا دینا پڑے گا حالانکہ مولانا کے دھرنے کی سیاسی اہمیت میراثی کی رضائی جیسی ہے جسے اوڑھے بیٹھا تھا کہ گلی میں شور مچا ’چور چور چور ”اور میراثی کی بیوی نے کہا“ تو بھی کبھی کوئی کام کر لیا کر اور کچھ نہیں تو چور ہی پکڑ لے ”میراثی بے چارہ بادل نخواستہ باہر گیا اور ایک شخص کو بھاگتے دیکھا، اسی سے پوچھ بیٹھا کہ چور کہاں ہے وہ شخص میراثی کی رضائی چھین کر بھاگ گیا اور میراثی منہ لٹکا کر واہس آ گیا۔

” کی گل سی“ میراثی کی بیوی گویا ہوئی، ”کج نہیں بس میری رضائی دی گل سی“ میراثی نے جواب دیا۔ مولانا یقیناً سیاسی تدبر اور فہم رکھتے ہیں لیکن مولانا اجھے تماشا گر نہیں ہیں۔ تماشا ایک ایسا ڈرامہ ہوتا ہے جس میں مسلسل نئے کردار اور صورتحال پیش کی جاتی ہے اور کہیں بھی تماشے پر یقینی پن کم نہیں ہوناچاہیے۔ ہر لمحہ نہ سہی ہر دن ایک نیا نظریاتی بھونچال سامنے انا چاہیے تھا، نئے کردار سامنے انے چاہییں تھے۔

اپنے لبرل ہمدردوں کو کنٹینر پر بلانا چاہیے تھا۔ اس تماشا کو عوام سے جوڑنا چاہیے تھا محض کارکنوں کے ساتھ نہیں۔ عوام کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ چاہے مولانا کے ساتھ نہیں لیکن مولانا جو کہہ رہے ہیں وہ ان کے دل کی اواز ہے جبکہ مولانا فرماتے ہیں کہ مذاکرت تو حکومت کو مصروف رکھنے کے لئے ہیں۔ چوبیس گھنٹے میں تین تین بار مولانا اتاولے ہوئے چوہدری صاحبان سے مل رہے ہیں یعنی چور نالوں پنڈ (گٹھڑی) کاہلی (جلدی میں) ۔

تماشا رنگ بازی مانگتا ہے کہ کل جشن ہو گا، خوشخبری ملے گی، آگے بڑھیں گے، فلاں نے یہ کہہ دیا، فلاں کو اپنی حد میں رہنا ہو گا، ہم یہ کریں گے وہ کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ مولانا جو بات سمجھ نہیں سکے وہ یہ ہے کہ سیدھا پن اور بوریت کسی بھی تماشے کے لیے زہر قاتل ہے۔ جیسے مولانا کے ساتھی ٹی وی اسکرینوں کو گرماتے رہے ہیں ویسے مجمع نہیں گرما سکے۔ مجمع والوں کا تاثر ہی مفلوک الحال اور ذہنی دیوالیہ پن کے شکار لوگوں جیسا ہے جو سوائے لوٹوں اورکمبلوں کے کچھ سنبھال نہیں سکتے۔

ہو سکتاہے اگے چل کر مولانا تماشے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے سڑکیں وغیرہ بلاک کریں لیکن یہ سب بہت توجہ طلب نہیں ہو گا اور جو خراج مولانا حاصل کریں گے وہ عوامی مقبولیت سے عاری ہو گا۔ کشمیر کا غلغلہ پیچھے چلا گیا اور نواز شریف باہر جا رہا ہے۔ دراصل مولانا کا ایک مسئلہ سیاسی طور پر ”لبرل“ رہنا بھی ہے کیونکہ پوسٹ ایف اے ٹی ایف تناظر انتہا پسند بیانیوں سے دور ہے۔ نالے منگنا نالے ٹنڈ لکونی والا معاملہ اب نہیں چلے گا۔

روس اور چین سرمایہ لا رہے ہیں۔ ماشا اللہ سعودی بھی ناچتے ناچتے تلاوت کرتے نظر ا رہے ہیں تو ہمیں کیا کیڑے پڑے ہیں کہ قبروں میں الٹے لٹک کر چلے کاٹتے رہیں۔ آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی۔ تو جناب ہماری نحیف سی سیاسی بصیرت کے مطابق دھرنا تو پچھلے ہفتے ہی اٹھ گیا تھا جب مولانا مذاکرات کے چکر میں پڑے تھے۔ بدقسمتی سے نبرد عشق میں مولانا کے پاوں ہی پہلے زخمی ہوئے ہیں۔ اب نہ بھاگا جائے ہے اور نہ ہی ٹھہرا جائے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).