سیکولر ازم اور مذہبی جنونیت


کون نہیں جانتا کہ پاکستان کلمہ کی بنیاد پر بنایا گیا ایک ملک ہے بلاشبہ مذہبی عقائد، تعلیمات اور عبادات کی آزادانہ ادائیگی کے لئے حاصل کیا گیا خطہ کا ایک خاص مذہبی پس منظر رکھتا ہے۔ اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو پڑھنے والوں کو شدید حیرانی ہوگی کہ لارڈ ماونٹ بیٹن نے 15 اگست 1947 کو انتقال اقتدار کا اعلان کیا تھا مگر ہندو جوتشیوں نے جب زائچے تیار کیے تو پتہ چلا کہ یہ تو بہت ہی منحوس گھڑی ہوگی لہذاعذاب میں مبتلا ہونے سے بہتر ہے کہ مزید ایک دن برطانوی غلامی میں گزارا جائے چنانچہ ہندوستانی سیاست دانوں کی تجویز پر انتقال اقتدار 14 اور 15 اگست کی درمیانی رات کو بارہ بج کر ایک منٹ پر کردیا گیا۔

14 اگست کی رات کی تقریب سے پہلے ہندو پنڈتوں اور مذہبی پیشواوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کو اقتدار کے سنگھاسن پربراجمان ہونے کے لئے مذہبی طورپر تیارکیا اور سیکولر ہندوستان کے پہلے حکمران پر دریائے تنجور کا مقدس پانی چھڑکا گیا پانچ پاوں والا بت اس کے جسم پر رکھا گیا بھگوان کی مقدس چادر پتابرم کو نہرو پر لپیٹ کر اس کی پیشانی پر مقدس راکھ مل دی گئی۔ اس کے بعد جاکر ہندوستان سے یونین جیک اتار کر ترنگا لہرایا گیا جبکہ پاکستان میں معاملہ بالکل برعکس تھا لارڈ ماونٹ بیٹن 13 اگست کی دوپہر کو دہلی سے کراچی پہنچا اسی شام قائد نے اس کے اعزاز میں عشائیہ دیا اور اگلے روز 14 اگست کو لارڈ ماونٹ بیٹن نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کیا اور 15 اگست کو قائد اعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

سات دھائیوں بعد کچھ نہیں بدلا آج 9 نومبر 2019 کو جب پاکستان اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار بن کے دنیا کے سامنے آیا ہے اسی دن ہی سیکولر انڈیا کی سپریم کورٹ نے مذہبی جنونیت کو ہوا دی ہے ایک ایسا متنازعہ فیصلہ دیا ہے جس سے ملک کی ایک بہت بڑی اقلیت عدم تحفظ کا شکار ہوگئی ہے۔ بابری مسجد کا فیصلہ سیکولر انڈیا کے ماتھے کا وہ بدنما داغ ہے جس کو وہ شدید خواہش کے باوجود بھی ختم نہیں کرسکیں گے۔ مظلوم کوئی ایک شخص ہو یا پھر کوئی قوم ہو اس کی آخری امید ملک کی عدالتیں ہوتی ہیں بھارتی سپریم کورٹ نے ہندوجنونیت کے زیر اثر جو فیصلہ دیا ہے وہ کسی طورپر انصاف نہیں کہلایا جاسکتا اور بدنصیبی یہ کہ انڈیا دعویٰ پھر بھی قائم ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے۔

یہ المیہ نہیں تو اورکیا ہے کہ 100 کروڑ سے زائد آبادی کے ملک کی عدالتیں بھی کمزور اور جذبات کے زیر اثر فیصلے کرکے اپنے امیج کو بری طرح مسخ کررہی ہیں ایک بابری مسجد نے سیکولر انڈیا کی مذہبی جنونیت کو بے نقاب کردیا ہے جبکہ مذہب کے نام پر حاصل کیے ملک پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو آج بھی احترام اور آزادی حاصل ہے۔ اس سب کے بعد ایک سوال پھر بھی ذہن مین آتا ہے کہ 9 نومبر کو سیاسی فائدے میں کون رہا؟ میرا تو خیال ہے کہ مودی رہا جس نے ایک طرف کرتار پور کوریڈور کو کھولنے کی اجازت دے کر نا صرف سکھوں کے دل جیت لیے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہندووں کو بھی رام کرلیا۔ آپ بھی ایک منٹ کے لیے اس پر ضرور سوچیئے ہوسکتا ہے کہ آپ بھی مجھ سے اتفاق کرجائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).