ہم اور سکھ دھرم


مافوق الفطرت قوت کی اطاعت ہو، عزت اور عبادت کے لیے با اختیار تسلیم کرنے کا عمل ہو یا پھر اس قسم کی مختار قوت کو تسلیم کرنے والوں کا احساس یا روحانی رویہ ہماری زندگی اور طرز زیست کا مظہر ہوتا ہے۔ متبرک رسوم و رواج یا اعمال کا سر انجام دینا ’خدائے واحد و مطلق یا زیادہ دیوتاؤں پر ایمان لانے اور ان کی عبادت کا ایک مخصوص نظام مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔ سکھ مذہب ایک غیر سامی، آریائی مگر غیر ویدک مذہب ہے۔ سکھ دھرم کی بنیاد بابا گرو نانک نے پندرہویں صدی کے آخر میں رکھی۔ اس کا مسکن پاکستان اور شمال مغربی بھارت کا وہ خطہ ہے جسے پنجاب کہا جاتا ہے‘ گرو نانک نے ایک کھتری (جنگجو ذات) خاندان میں آنکھ کھولی لیکن وہ اسلام اور مسلمانوں سے بہت متاثر تھے۔

سکھ اور مسلمانوں میں بہت سے عقائد مماثلت رکھتے ہیں ’کہا جاتا ہے کہ سکھ مذہب مختلف مذاہب و افکار کے امتزاج سے تیار ہوا ہے جس میں اسلامی تعلیمات کا رنگ گہرا ہے۔ کبھی نقطہ نظر یہ سامنے آیا کہ سکھ مت ابتدا میں ایک روحانی و اخلاقی مذہب تھا جوبرصغیر کے صوفی ازم سے مشابہت رکھتا تھا جسے بعد کے حالات نے سیاسی و فوجی تنظیم و تحریک میں تبدیل کر دیا۔ سکھ مت نے اسلام سے کیا لیا ہے یا کن باتوں میں وہ اسلام سے قریب یا متاثر ہے۔ کسی مذہب کی اولین بنیاد خدا کے بارے میں اس کا تصور ہوتاہے۔

(گرنتھ کا انگلش ترجمہ: جلد اول/ دیپاچہ: سکھ مت کی فلاسفی: صفحہ نمبر 52 ) اسلام کی سرسری واقفیت رکھنے والا بھی کہہ اٹھے گا کہ یہ تو تقریباً وہی تصور ہے جو خدا کے بارے میں اسلام پیش کرتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گرونانک اور ان سے قبل اور ان کے بعد قریبی دور تک ہندوستان میں صرف اسلام کا اثر پڑا اور اس سے متاثر ہونے والوں میں ہندوستان کے بڑے بڑے مصلحین، شنکر آچاریہ، کبیر اور گرو نانک بھی شامل ہیں۔

اس وقت تک ہندوستان میں عیسائیت کا کوئی خاص اثر نہ تھا اور نہ یہودی ہندوستان آئے تھے اور نہ یہودیت ہندوستان پر ذرا بھی اثر انداز ہوئی تھی۔ اور نہ ان کا مذہب تبلیغی ہے جو وہ تبلیغ کرتے۔ توحید کا تصور اگر یہاں پروان چڑھا تو صرف اسلام کے زیر اثر۔ خدا کے حوالے سے کسی بھی سکھ کے تصورات کو بہتر انداز میں مْل منتر میں بیان کیا جاتا ہے۔ ”مْل منتر“ سکھوں کے بنیادی عقائد کے مجموعے کو کہا جاتاہے۔ اسے گرو گرنتھ صاحب کے شروع میں یوں بیان کیا گیا ”اِک اَونکار سَتّ نام، کرتا پرکھ، نِر بَھو، نِر وَیر۔

اکال، مورت اجونی، سے بھنگ، گْر پرساد ”۔ خدائے واحد ہی سچ ہے، وہ خالق ہے، اسے کسی کا ڈر نہیں، اس کی کسی سے دشمنی نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کی کوئی صورت نہیں، وہ زندگی اور موت کے چکر سے آزاد ہے، اس کا حصول ہی اصل نعمت ہے۔ سکھ مذہب اپنے ماننے والوں کو وحدانیت کی سختی سے تلقین کرتا ہے۔ وحدانیت کا مطلب ہے ایک ہی رب ہے۔ جو ایک غیر واضح اور مبہم صورت میں موجود ہے۔ سکھ مت میں خدا کے لیے“ واہے گرو ”یعنی“ ایک سچا خدا ”کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ چونکہ سکھ مت وحدانیت کی سختی سے تلقین کرتا ہے اس لیے اس میں اوتار وید پر اعتقاد بالکل نہیں ہے جسے تجسیم اور حلول کا عقیدہ کہا جا سکتا ہے۔ سکھ مت میں خدا مجسم ہو دوسری شکلوں میں نہیں ڈھلتا اور یوں اس مذہب میں اوتار کا تصور بالکل نہیں ملتا۔ سکھ مت بت پرستی کی بھی شدید مخالفت کرتا ہے۔

کرتارپور میں گردوارا صاحب مذہبی لحاظ وے وہی حیثیت رکھتا ہے جو ہم مسلمانوں کے نزدیک مکہ مکرمہ و مدینہ کی ہے۔ کرتارپورکی تعمیر پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہادر کے دور حکومت 1921 تا 1929 کے درمیان ہوئی۔ گردوارا صاحب سکھ مذہب کے بانی گورو نانک دیوجی مہاراج کی یاد میں بنایا گیا۔ سکھ مذہب کے روحانی پیشواگورو نانک کی پیدائش 1499 عیسوی کو ننکانہ صاحب میں ہوئی اور ان کے والد کا نام ”مہتا کلیان داس“ اور ماں کا نام ”ماتا ترپتا“ تھا۔

گورو نانک 1521 کو اس گاؤں میں تشریف لائے ’کرتار پور کے نام سے گاؤں کو آباد کیا، 1539 ء تک آپ نے یہاں قیام کیا اورقیام کے دوران کھیتی باڑی بھی کرتے رہے‘ روایات کے مطابق بابا گورو نانک کو سکھ مذہب کے لوگ اپنا گرو اور مسلمان اپنا روحانی بزرگ (پیر) مانتے تھے، کوئی دو رائے نہیں جن کی زندگی انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔

کرتار پور کی بات کریں تو وہاں پانچ چھوٹے چھوٹے گردوارے موجود ہیں ’جن کے نام ”پال لیلا صاحب“ جو بابا گرونانک کی جائے پیدائش سے منسوب ہے ”گردوارہ پٹی صاحب“ وہ جگہ جہاں آپ نے تعلیم حاصل کی ”گردوارہ مال جی صاحب“ اس مقام پرآپ مال مویشی چرایا کرتے تھے‘ ”گردوارہ کیارہ صاحب“ اس مقام کی اپنی تاریخی حیثت ہے آپ یہاں مال مویشی چراتے تھے یہاں ہری بھری کھیتی میں بھینسیں گھس گئیں اور کھیتی اجڑ گئی تھی ’مگر بابا کے کمال سے دوبارہ فصل ہری بھری ہوگئی۔

اسی مناسبت سے اس مقام کا نام گردوارہ کیارہ صاحب رکھا گیا۔ پانچویں گردوارے کا نام ”تنبو صاحب“ ہے ’جس کے بارے میں مشہورروایات ہیں کہ بابا جی کو والد نے رقم دی تاکہ وہ کاروبار میں سرمایہ کاری کر سکیں‘ بابا درویش صفت انسان تھے ’انہوں نے لنگر میں ساری رقم صرف کر دی‘ اور باپ کے ڈر سے اس مقام پر آکر چھپ گئے۔ اگر کہا جائے پاکستان سکھ دھرم کا دوسرا گھر ہے تو غلط نہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).