پارلیمان والوں کی کچھ غیر پارلیمانی باتیں


سیاست اور سیاسیات کا وہ نصاب جو دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی پڑھایا جاتا ہے اس کے مطابق سیاست میں عوام بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ سیاست اپنے ہر رنگ میں عوام کے گرد گھومتی ہے، عوام کی فلاح اور خدمت کے لیے ہر طرح کے اقدامات کرنا سیاست کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ بد قسمتی یہ رہی کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کو اتنی اہمیت حاصل نہ ہو سکی کہ ہم اپنی عملی زندگی کو کتابوں سے ہم آہنگ کر تے۔

صدیوں کی غلامی، مرعوبیت کی عادت سمیت اور درجنوں خرابیوں نے ہمارے معاشرے کی سوچ میں کچھ ایسی جگہ بنائی کہ اب ہم نے بہت سی برائیوں کو خرابیاں سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے جس کا ایک اثر ہماری سیاست پر کچھ یوں پڑا کہ جاگیرداری، غنڈا گردی، دہشت، خوف، لوٹ مار، بدمعاشی اور جھوٹ جیسی بہت سی چیزیں ہماری سیاست میں بنیادی حیثیت اختیار کر گئیں اور ہمارے معاشرے میں سیاست انہی چیزوں کے گرد گھومنے لگی۔ لوگ سیاست دان ہی اس شخص کو سمجھتے اور مانتے ہیں جس کے نام پر علاقے کے تھانوں میں سب سے زیادہ پرچے درج ہوں یا جس کے خلاف کسی کو تھانے جانے کی جرات بھی نہ ہو۔

جس نے اپنے مخالف سیدھے کرنے کے لیے ڈیرے اور تھانے میں الگ الگ بندوبست کیے ہوں اور جس کا عوام سے رابطہ صرف اس قدر ہو کہ الیکشن مہم میں وہ لوگوں کو اپنا چہرہ دیکھنے کی سہولت بہم پہنچائے۔ زمانے کی ترقی نے جہاں اور بہت سی چیزوں کو متاثر کیا وہیں پاکستان سیاست میں اب شلوار، بلکہ اتری ہوئی شلوار اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اترئی ہوئی شلوار کا موضوع ٹاک شو میں منشور جیسی اہمیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

آج ٹیکنالوجی کی آن لائن دنیا میسر ہونے کے بعد جب ہر خبر پر ہر شخص کی نظر ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں وہیں ہماری یاداشت دو دن پہلے کی خبر کو محفوظ رکھنے سے بھی قاصر نظر آتی ہے۔ بجائے پرانی باتوں کو یاداشت میں ذخیرہ کر کے کسی نئی خبر کا تجزیہ کیا جائے، ہم آن لائن سرچ کی سہولت کو اہمیت دیتے ہیں اسی وجہ سے سیاست میں مخالف کے کپڑے کب پہلی بار گفتگو کا حصہ بنے، اس بارے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، ہاں مگر ساحل سمندر پر اترے ہوئے کپڑوں کا ذکر پچھلے دو تین الیکشن سے باسی کڑاہی میں ابال جیسا ملتا ہے۔

دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر اس بارے الزامات لگاتی ہیں تو وہیں تیسری پارٹی باقی دونوں کی اخلاقیات پر طنز کرنے کے لیے اس مذکورہ واقعے کو استعمال کرتی ہے۔ ماروی صاحبہ کے بارے ایسا کہا جا سکتا ہے کہ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے پاکستانی میڈیا اور سیاست میں شلوار بلکہ اتری ہوئی شلوار کے ذکر کو متعارف کروایا۔ میڈیا اور عوام میں دیے گئے ان بیانات میں مخالفین پر الزامات لگائے گئے لیکن کسی نے ان الزامات کے تجزئے کی جرات نہ کی کیونکہ ایسی کہانیاں ٹوئیسٹ بھری ہوتی ہیں۔

خیر کچھ ہی دنوں بعد جب ماروی صاحبہ انہی مخالفین کے ساتھ جا بیٹھی تو لوگوں کے پاس اپنی انگلیاں دانتوں تلے دابنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ کچھ مذہبی راہنماؤں نے بھی اس ذکر سے ٹاک شوز لوٹنے کی کوشش کی لیکن وہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکے۔ گزشتہ الیکشن سے کچھ پہلے سیاست میں ابھرنے کی کوشش کرتی ایک خاتون کی لاش جب اسی پارٹی کے دوسرے سیاست دان کے کمرے سے ملی تو آنے والے دنوں میں ہونیو الی سیاست میں ایک نئے رخ کا اضافہ ممکن ہوا۔

شبنم صاحبہ والے اسکینڈل نے ٹیکنالوجی کی اہمیت ایک بار پھر اجاگر کر دی کہ وہ لوگ جن کے والد تب پاوں پاوں چلتے تھے آج اس اسکینڈل پر ایسے بات کرتے ہیں کہ جیسے ان کے سامنے سب کچھ رونماہوا ہو۔ اس سارے معاملے میں تازہ ترین پیش رفت حریم شاہ کی ہر گھنٹے کے بعد آنے والی وڈیوزر ہیں۔ کہیں خاتون وزات کارجہ کے کانفرنس روم اور دوسری جگہوں پر تصویریں بناتی اور بنواتی نظر آتی ہیں تو کہیں صرف گاون پہنے، اتری شلوار کے ساتھ ایک راہداری میں مٹکتی ہوئی دروازے کو ٹھوکرسے کھولتی نظر آتی ہیں۔ باخبر ترین صحافیوں کا دعوا ہے کہ وہ راہداری سیاست کی کئی راہداریوں میں سے ایک ہے جو ایم این اے ہاسٹل یا پارلیمنٹ لاجز میں کہیں موجود ہے۔ ویسے ایم این اے ہاسٹل کے ذکر پر جمشید دستی صاحب تو ضرور یاد آئے ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ سیاست کے ایوانوں میں اتری ہوئی شلواروں کا ذکر اور اہمیت کہاں تک جانے کا امکان ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا مستقبل کی سیاست اتری ہوئی شلواروں کے گرد گھومے گی یا یہ شلواریں کبھی پہنی بھی جائیں گی؟ کیا ارباب اختیار میں کوئی اس معاملے پر اپنے اختیارات بھی استعمال کرئے گا تاکہ اقتدار کی راہداریوں میں مٹکتی اور شلوار یں اتاری خواتین کا داخلہ بند ہو سکے؟ کئی خواتین کے لیے اختیار اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے ایسے بہت سے آسان راستے ہیں لیکن کیا خواتین بذات خود اختیار و اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا پسند کریں گی؟

سوال تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سب کچھ دیکھتے، جانتے، بوجھتے بھی جب لوگ پھر انہی سیاست دانوں کو اپنے ووٹوں سے بال و پر دے کراختیارات کے ایوانوں میں بھیج دیتے ہیں تو الزام کس کو دیا جائے اور ملامت کسے کیا جائے؟ سوال پوچھنے والے سوشل میڈیائی مجاہدین سے کوئی یہ بھی پوچھے کہ ہر اکاونٹ اور آئی ڈی سے ایسی باتوں اور وڈیوز کا پھیلاؤ کیا اس معاملے کو روک پائے گا؟ کوئی یہ بھئی بتائے کہ کیا ہم اس طرح کے معاملات پر بات کرتے ہوئے، معاملے کے حل کی طرف جاتے ہیں یا ہمارا مقصد صرف چسکے لینا ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایسے معاملات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں؟

سوال تو بہت سے ہیں لیکن سیاست اور اقتدار کے ایوانوں میں کیا صرف سیاست دان ہی بدنام ہیں یا عوام اپنی خاموشی سے انہیں قوت فراہم کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے آنے والا کل ایسے لوگوں کے ہاتھ دے کر واقعی مطمئن ہیں، اگر ہاں تو اس کی ہمیں کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی، کیا کسی کو اس کا ادراک بھی ہے؟ کیا پارلیمنٹ کی عزت کا خیال رکھنا صرف سیاست دانوں اور حکومتی لوگوں کا کام ہے یا عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے؟ سوال تو بہت سے ہیں، ملک میں سیاسی گہما گہمی ایک بار پھر عروج پر ہے اور اس عروج میں اکثر الزامات سے مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ سبھی نہ سہی، کچھ سوالوں کے جواب ہی سوچ لیں اس سے پہلے کہ وقت پارلیمنٹ کی عزت پر اٹھائے گئے سوالات کے جواب خود دینے کا بندوبست کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).