قومی سیاست پر چھائے بدقسمتی کے اندھیرے


روئے زمین پر ہم سے زیادہ بد قسمت لوگ شاید ہی کہیں پائے جاتے ہوں۔ اک سیہ بخت مقدر لیے یہ قوم ستر برسوں بعد بھی ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں چاروں اطراف بے سمت ہیں۔ ریاست کے حکمران اس وقت وہ افراد ہیں کہ جن کے نعرے اور دعوے سن سن کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ مسلمانوں کے قرون اولیٰ کے دور کے پاکیزہ نفوس بس دوبارہ جلوہ گر ہونے کو ہیں۔ ریاست مدینہ بنانے کے اصولوں کو اپنی حکومت میں اپنانے کے بلند بانگ دعوؤں نے تحریک انصاف کے حامیوں کو کچھ اس طرح اپنے سحر میں مبتلا کیا ہوا تھا کہ ان سے اس سلسلے میں کوئی بحث ہی نہیں کی جا سکتی تھی۔

آ پ کا اس دعوے کو جھٹلانا گویا کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ ایک تبصرے کے جواب میں آپ کی ذات اور آپ کے اگلے پچھلوں پر طنز و دشنام کے اتنے وار ہوتے کہ آپ اس کے بارے میں مزید تبصرہ آرائی سے توبہ تائب ہی کر لیتے۔ چلیں کارکنان اور حمایتی جذباتی ہوا کرتے ہیں اور اپنی قیادت کے بارے میں کوئی بھی منفی جملہ سننا ان کے جذبات کو بھڑکا دیتا ہے لیکن قیادت نے بھی کچھ ایسی اعلیٰ مثال قائم نہ کی کہ جس سے جمہوری روایات میں ایک مثبت تبدیلی آتی۔

تحریک انصاف کے عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ زمینی حقائق سے نابلد ہو کر خوشنما اور دلفریب وعدوں کی جن توقعات کو اس نے پروان چڑھایا ان پر پورا اترنا کسی کوہ گراں کو اپنی جگہ سے ہلانے سے کم نہیں تھا۔ ایک سال سے زائد عرصے کے بعد ملک کے حالات کسی طور پر بھی حوصلہ افزا قرار نہیں دیے جا سکتے۔ حکومتی ترجمانوں کی جانب سے خوشنما حالات کی منظر کشی تو سمجھ آتی ہے کہ ان کی ذمہ داری فقط اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ وہ حکومتی کارکردگی کو کچھ اس طرح بہترین قرار دیں کہ کوے کو بھی سفید قرار دے ڈالیں لیکن ملک کے معروضی حالات مخالف رخ میں گامزن ہیں۔

معیشت کی جو دگر گوں حالت بنی ہوئی ہے اس کا براہ راست نشانہ اس ملک کے عوام بن رہے ہیں اور اس محاذ پر ایک خفیف سی کامیابی کے علاوہ ناکامی کی ایک طویل سرنگ ہے جس میں ابھی تک معیشت گم ہے۔ سیاست کے شعبے میں تحمل، تدبر اور معاملہ فہمی کے خصائص حکمران جماعت کے ہتھیار ہوتے ہیں لیکن یہاں تو ان ہتھیاروں کی بجائے لگتا ہے کہ حکومتی جماعت اشتعال، بے تدبیری اور نا سمجھی کے ہتھیاروں سے لیس ہے کہ ابھی تک سیاسی امور کی ہینڈ لنگ میں وہ ناکامی کا شکار نظر آتی یے۔

ایک ایسی حزب اختلاف جو اپنے کردہ و ناکردہ جرائم، نا اہلیت اور غیر مقبولیت کی وجہ سے نحیف و نزار ہو چکی تھی اس میں حکومتی بیانات زندگی کی جان ڈال دیتے ہیں۔ حزب اختلاف کی کمزوریوں پر شعلہ بیانیوں سے نہیں حکومت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام میں مقبول ہوتی ہے لیکن یہاں اس کے قطعی برعکس ہو رہا ہے کہ ہر وزیر اور مشیر بے سروپا بیان بازی کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی دوڑ میں شامل ہے۔ دارالحکومت جے یو آئی ایف کے لانگ مارچ اور پڑاؤ کو ہی لے لیں۔

حکومتی ترجمانوں نے مولانا صاحب کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے سے زیادہ انہیں بر انگیختہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ مولانا صاحب سے یاد آیا کہ وہ اسلام آباد میں خیمہ زن ہو کر اعلیٰ جمہوری مقاصد کے حصول کی بزعم خود جنگ لڑ رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتیں نواز لیگ اور پی پی پی تو کب سے ان کے دھرنے سے کنارہ کش ہو چکی ہیں تاہم مولانا ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ مولانا جس حکومت کے خلاف جمے ہوئے ہیں اسے اگر اقتدار سے رخصت کر بھی دیا جائے تو کیا اس کا نعم البدل مولانا ہو سکتے ہیں ا س کا تصور ہی ہلکان کر دیتا ہے۔

مولانا صاحب بلاشبہ ایک ذہین و فطین اور زیرک سیاستدان ہیں اور شریکِ اقتدار ہو کر چند وزارتوں کے مزے تو لوٹ سکتے ہیں لیکن وہ اس ملک میں ایک بڑے سیاسی شراکت دار کبھی نہیں رہے اور نا ہی ان کی طرز سیاست اور ان کا حلقہ اثر ان کی جماعت کو ایک حقیقی قومی سیاسی جماعت کا روپ دے پائے گی۔ مولانا ایک خاص طبقے کے نمائندے ہیں جو مذہب کے ایک خاص فرقے کی تعلیمات کے زیر اثر ہے۔ آج تک ان کی سیاست کا محور و مرکز یہی طبقہ رہا اور اسی میں ان کا اثر و نفوذ رہا۔

تمام تر انتخابات میں مولانا کو اسی طبقے نے اپنے ووٹوں سے نوازا جو پارلیمان میں درجن بھر نشستوں کی صورت میں ان کی جھولی میں گرے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا کبھی بھی موجودہ حکمرانوں کو نعم البدل نہیں ہو سکتے اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا مذہب کے نام پر سیاست کرنا ٹھہرا جس میں بھی وہ ایک خاص مکتبہ فرقہ کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کا یقینی طور پر نعم البدل نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ہو سکتی ہیں لیکن یہ دونوں جماعتیں اب ایک ایسی صورتحال کا شکار ہیں کہ ان کا پاؤں پر کھڑا ہونا ایک محنت طلب کام ہے۔

پی پی اپنی ماضی کے کارناموں اور آج کی سندھ حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر دیہی سندھ کی جماعت سے زیادہ کا درجہ نہیں رکھتی۔ اپنے روشن خیال اور لبرل نظریات کے باوجود اسے پورے ملک میں قبولیت عام ملنا فی الحال مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ نوجوان بلاول بھٹو کے زور بیان کے باوجود پی پی کو دوبارہ ایک ہمہ گیر وفاقی جماعت بنانے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ نواز لیگ اپنی حقیقی قیادت کی بیماری کی وجہ سے ایک عضو معطل بنی ہوئی ہے۔

شہباز شریف آئینی طور پر سربراہ ہونے کے باوجود پارٹی میں ایک اجنبی ہیں۔ نواز شریف ہی نواز لیگ جماعت کے حقیقی قائد ہیں اور ان کے بعد مریم نواز کے سر پر اس قیادت کا تاج سجنے والا ہے لیکن وہ اپنے والد کی بیماری کی بناء پر تاحال متحرک ہونے سے قاصر ہیں۔ نواز لیگ اور پی پی کے ماضی کے ادوار بھی ان کی راہ میں ایک بہت رکاوٹ ہیں کیونکہ ان ادوار میں کون سا ترقی و خوشحالی کے زمزمے اس ملک کے طول وعرض کو سیراب کر رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).