شاہراہ ریشم


سیاحت انسانی سرشت کا خاصہ ہے۔ ابتداء سے ہی انسان مختلف ضروریات کے پیش نظر سفر کرنے کا عادی رہا ہے اور سامان معیشت وتجارت، نظریات اور مختلف شعبوں میں ہنر مندی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتارہا ہے۔ انسانی اسفار کی بنیادی اغراض میں سے ایک اہم غرض تجارت ہے۔ تجارت انسان کے اولین پیشوں میں سے ایک ہے۔ انسان نے جیسے جیسے تہذیب و تمد ن میں ترقی کی، ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اشیاء کی لین دین شروع کی۔ ابتدا ء میں یہ تجارت انفرادی اور غیر منظم تھی۔ پھرتہذیبوں اور حکومتوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ تجارت کا یہ سلسلہ منظم اور وسیع ہوتا گیا۔

قدیم زمانہ سے ایشیا اور یورپ کے درمیان متعدد تجارتی اور مواصلاتی راستے موجود تھے جن کی مدد سے مشرق و مغرب کے لوگوں کا آپس میں رابطہ تھا۔ ان راستوں کی بدولت متعدد اشیاء مثلاً ریشم کی مصنوعات، مصالہ جات، اناج، ہتھیار، دھاتوں اور اوزار وغیرہ کا تبادلہ ہوتارہتا تھا۔ زمینی اور سمندری راستے دونوں میں اس نیٹ ورک کا حصہ تھے۔ ان رابطوں، سڑکوں، راستوں، سمندری گزر گاہوں کے ایک مشہور سلسلہ کو آج سلک روٹ یا شاہراہ ریشم کے نام سے جانا جاتا ہے جو دوسری صدی قبل مسیح سے اٹھارویں صدی عیسوی تک دنیا کی اہم ترین تجارتی شاہراہ تھی۔

Silk Road کی اصطلاح زیادہ پرانی نہیں ہے۔ زمانہ قدیم سے موجود ان تجارتی راستوں کا کوئی خاص نام نہیں تھا۔ 1877 میں جرمن ماہر ارضیات بیرن فرڈینینڈ وان ریکٹففن (Ferdinand von Richthofen) نے ان راستوں کو سلک روڈ (Silk Road) یا شاہرائے ریشم کا نام دیا۔

سلک روٹ یا شاہرائے ریشم ایک وسیع نیٹ ورک کا نام تھا، جس کا پھیلاؤ ٔچین سے شروع ہوتا ہوا ہندوستان، وسط ایشیاء، مشرق وسطیٰ، مشرقی یورپ کواپنی لپیٹ میں لیتا ہوا افریقہ کے مشرقی ساحلوں تک پہنچتا تھا۔ ان راستوں کا اولین مقصد تجارت تھا۔ چین سے یورپ تک اس تجارتی راستہ کی لمبائی تقریباً 6500 کلو میٹر تھی۔ چین میں اس کا آغازایک Changanنامی شہر سے ہوتا تھا۔ پھر یہ شاہراہ وسط ایشیا، ایران، ترکی سے گزرتی ہوئی یورپ تک پہنچتی تھی۔

شاہرائے ریشم پر 33 مشہور شہر آتے تھے۔ جن میں Dunhuang (چین) ، میرو (ترکمانستان) ، بخارا، سمرقند (ازبکستان) ، بلخ (افغانستان) ، ٹیکسلہ (پاکستان) ، رئے، نیشاپور، ہمدان (ایران) ، دمشق (شام) ، بغداد، موصل (عراق) ، قسطنطنیہ، ازمیر (ترکی) اسکندریہ (مصر) وغیرہ شامل ہیں۔ قرون اولی ٰ اس شاہراہ پر ایرانی زبان بکثرت استعمال ہوتی تھی۔ دور اسلام میں اِس کی جگہ فارسی زبان نے لے لی۔ دیوار چین کی تعمیر کا اہم مقصدبھی اس تجارتی راستہ کی حفاظت کرنا تھا۔

چین سے شروع ہونے والے اس راستے کو مشرق میں پہلے سے موجود ایک تجارتی راہ داری نے بہت مدد فراہم کی۔ ہخامنشی عہد سلطنت کے میں ایرانیوں نے ایران سے یورپ کی سرحد تک ایک تجارتی شاہراہ بنائی تھی جسے شاہی سڑک کہتے تھے۔ سلک روٹ کے اس تجارتی شاہراہ سے ملنے سے چینی مصنوعات آسانی سے روم تک پہنچنا شروع ہو گئیں۔

سلک روٹ کے ذریعہ ریشم کی منظم تجارت کا بانی چینی جنرل جانگ کیان (Zhang Qian) کو قرار دیا جاتا ہے۔ جنرل جانگ نے بادشاہ کے حکم پر وسط ایشیائی ریاستوں کے سفر کیے۔ واپسی پراس نے بادشاہ کو ان ممالک سے ریشم کی تجارت کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس پر بادشاہ نے 119 قبل مسیح میں ایک تجارتی وفد روانہ کیا جس سے ریشم کی باقاعدہ تجارت شروع ہوئی۔ رومی مورخ Florus نے بادشاہ Agustus ( 27 ق۔ م تا 14 عیسوی) کے زمانہ میں رومی دربار میں چینیوں کی آمد کا ذکر کیا ہے۔

ریشم کی تجارت ان تجارتی شاہراؤں کا اولین محرک تھی اسی لئے اس کو شاہرائے ریشم کہا گیا۔ ریشم کا کپڑا سب سے پہلے چین میں تقریباً 2700 ق۔ م میں تیار ہوا تھا۔ ریشم کی تیاری کے عمل کو ایک طویل عرصہ تک خفیہ رکھا جاتا رہاتاکہ اس کی تیاری اورتجارت پر چینیوں کی اجارہ داری قائم رہے۔ پہلی صدی قبل مسیح میں ریشم کو مشرقی یورپ میں متعارف کروایا گیا۔ جہاں اس کو بہت شہرت ملی۔ ریشمی مصنوعات کو امارت اور عیش عشرت کی نشانی سمجھا جانے لگا۔

روم میں اس کی شہرت اور استعمال نے تاجروں کو یورپ سے مشرق کے درمیان ریشم کی تجارت کے لئے تجارتی راستے بنانے کے لئے ابھارا۔ بالآخر چھٹی صدی عیسوی میں یہ ہنر ہندوستان، فارس سے ہوتا ہوا مغرب تک پہنچ گیا۔ چنانچہ مشہور مورخ Procopiusلکھتا ہے :تقریباً 550 عیسوی میں بازنطینی بادشاہ Justinian نے دو راہب کو مشرق بھیجا تاکہ وہ ریشم کی تیاری کا طریقہ معلوم کر کے آئیں۔ چنانچہ یہ راہب خفیہ طور پر ریشم کے کیڑوں کے انڈے بانس کے تنے میں چھپا کر بازنطینی حکومت میں لائے۔ اس طرح رومی حکومت میں ریشم کی تیاری شروع ہوئی۔

ریشم کے علاوہ ان تجارتی راستوں سے کپڑے، مصالحے، اناج، سبزیوں اور پھل، جانوروں کی کھالوں، ہتھیار، اوزاروں، لکڑی کی مصنوعات، دھاتی مصنوعات وغیرہ کی تجارت بھی ہوتی تھی۔ اس وسیع نیٹ ورک سے مختلف مذاہب، علوم، زبانوں، خیالات و نظریات، ثقافتوں اور تہذیبوں میں رابطہ ہواجس نے یورپ اور ایشیا کی تاریخ اور تہذیب پر گہرا اثر ڈالا۔ بہت سے شہر ثقافت، تجارت اور علم کے مراکز میں تبدیل ہو گئے۔ سائنس، آرٹس اور ادب کے ساتھ ساتھ دستکاری اور ٹیکنالوجی (کاغذ بنانے کا طریق، بارود بنانے کا طریق) بھی مختلف معاشروں اور ممالک میں پھیلی۔ یہ راستے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے رہے۔ ملکی حالات، جغرافیائی تبدیلیوں، مختلف ممالک میں دوستی اور دشمنی کے مطابق تاجر اپنے راستے بدلتے رہتے اوراپنے سفر جاری رکھتے۔ تاجر اپنے کاروبار میں کامیابی کے لئے دوسرے علاقوں کی زبانیں سیکھتے، مختلف علاقوں میں شادیاں کرتے تھے۔

قرون اولیٰ اور قرون وسطی میں تاجر زیادہ تر گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ راستے میں آنے والے شہروں میں سرائے اور مہمان خانے مسافروں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہوتے تھے۔ عام طور پر ہر تیس سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر سرائے وغیرہ موجود ہوتے تھے جن میں آرام و راحت کا مناسب انتظام ہوتا تھا۔ انہیں شہروں میں مقامی مارکیٹوں میں تاجر خرید و فروخت کرتے اور مقامی رسوم ورواج، زبان اور ثقافت کے بارہ میں علم حاصل کرتے۔ تجارتی قافلے اپنی حفاظت کا مناسب سامان ساتھ رکھا کرتے تھے۔

زمینی راستوں کے ساتھ سمندری راستے بھی تاجروں کے زیر استعما ل تھے۔ پہلی صدی قبل مسیح میں مشرقی چینی اور ایشیائی تاجروں نے سمندر ی راستوں کو بھی منظم تجارت کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ سمندری راستوں کی مدد سے تاجر جنوب مشرقی چین سے جنوب مشرقی ایشیاءکے ممالک مثلاً انڈونیشیا اور ملائیشیا تک جاتے، پھر تجارتی جہاز بحر ہند سے ہوتے ہوئے جنوبی ہندوستان اور بنگال کی بندرگاہوں تک پہنچتے تھے۔ دوسری طرف مشرقی افریقہ عدن اورفارس کے ساحل سے تجارتی جہاز ہندوستان تک آتے جاتے تھے۔

سمندری راستے مصالہ جات کی تجارت کے لئے بہت زیادہ فائدہ مند تھے۔ اسی وجہ سے ان کو Spice Roadبھی کہا جاتا تھا، جو انڈونیشیا اور ہندوستان سے دار چینی، کالی مرچ، ادرک، لونگ اور جائفل وغیرہ لے کر دنیا بھر کی منڈیوں کو سپلائی کرتے ہیں۔ سمندری تجارتی راہداریوں سے navigation، ستارہ بینی، جہاز رانی کی صنعت میں نمایاں ترقی ہوئی۔ سمندری راستوں پر موجود ساحلی شہر بڑی بڑی منڈیوں پر مشتمل تجارتی مراکز ہوتے تھے۔

پندرہویں صدی کے آخر میں، پرتگالی سیاح واسکو ڈے گاما نے کیپ آف گڈ ہوپ (South Africa) سے ہوتے ہوئے مشرق کا رخ کیا۔ اس طرح پہلی بار یورپی ملاحوں کو ان جنوب مشرقی ایشیائی سمندری راستوں سے جوڑ دیا۔ اس طرح یورپی تاجر او ر ملاح بھی ایشیائی تجارت سے جڑ گئے۔ آنے والی صدیوں میں انگریز، پرتگالی، ڈچ، فرانسیسی اقوام نے ان سمندری تجارتی راستوں پر راج کرتے ہوئے بہت دولت کمائی۔

سلک روٹ کا ایک اہم فائدہ مذاہب اور مذہبی افکار کی ترویج تھا۔ ان تجارتی راستوں کی بدولت کئی مذاہب پھیلے جن میں بد ہ ازم، عیسائیت، زرتشت ازم، مانی ازم اور اسلام شامل ہیں۔ مذہبی علماء اور راہب ا ن راستوں پر سفر کرتے، اپنے اپنے نظریات کا پر چار کرتے جا تے تھے۔ تاجروں نے بھی حتی المقدور اپنے مسلکوں کی ترویج میں حصہ ڈالا۔ متعدد چینی بدھ عالم تحصیل علم کے لئے ہندوستان پہنچے۔ سلک روٹ کے ذریعہ کئی عیسائی فرقے بھی پھیلے جن میں نسطور ی فرقہ قابل ذکر ہے۔ اسلام کی اشاعت میں بھی ان تجارتی راستوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ مسلمان تاجروں، صوفیاء، ادبّاء، فلاسفروں، سیاحوں نے کثرت سے سفر کیے۔ ان کے ذریعہ بھی اسلام کی ترویج ہوئی اور سلک روٹ پر موجود شہر اسلام کے علمی اور ثقافتی مرکز میں تبدیل ہو ئے۔

اکیسویں صدی میں چین نے ایک مرتبہ پھر ان تجارتی راہداریوں اور راستوں کو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ چین بہت سی سڑکوں، ریلوے ٹریکس، بندرگاہوں اور سمندری راستوں پر کام کر رہا ہے جو دراصل سلک روٹ کا احیائے نو ہے۔ سی پیک (CPEC) ان تجارتی راستوں کا ایک اہم منصوبہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).