ملکی حالات بہتری کی جانب بڑھیں گے!


سیاست عوام کی خدمت کا نام ہے مگر ہم ایسے ترقی پذیر ممالک میں اس کا مفہوم مختلف ہے۔ یہاں سیاست موقع پرستی، مفاد پرستی اور ہوشیاری کا نام ہے یعنی سیاست اِدھر محض مالی مفادات کے لیے اور اقتدار کا جھولا جھولنے کے لیے کی جاتی ہے عوام کی فلاح و بہبود سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا لہٰذا ہوا یہ ہے کہ اس میں پچھلے بیس برس سے ایسی ایسی تبدیلیاں آئی ہیں کہ جس سے عام آدمی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ اگر سیاست میں خیالات و نظریات غیر اہم ہوتے ہیں اور نظریاتی مخالفین محض وقتی ہوتے ہیں تو پھر عوام کس لیے آپس میں دست و گریبان ہوتے ہیں انہیں بھی عارضی فائدے اور اپنی ذات کے لیے سہولتیں حاصل کرنے کی غرض سے چڑھتے سورج کی جانب رخ کر لینا چاہیے؟

اس سوچ سے لوگوں کی غالب اکثریت قومی مفاد سے لاتعلق ملکی بقا و سلامتی سے بے خبر دکھائی دیتی ہے کیا یہ چیز بہ حیثیت مجموعی ہمارے لیے سود مند اور مناسب ہے اس کا جواب نفی میں ہو گا مگر حیرت ہے کہ ارباب اختیار کی توجہ اس اہم ترین پہلو پر مرکوز نہیں ہو رہی وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صبح و شام حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر اس میں نقصان عوام جو خط غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں کا ہو رہا ہے وہ ہر طرح سے پس رہے ہیں گرانی ہو یا بے روزگاری، ملاوٹ ہویا معیار کی کمی سے سخت متاثر ہیں مگر مجال ہے اس حوالے سے کسی کے کان پر جون رینگ رہی ہو بس اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے سب کو۔

ایک طرف جناب مولانا فضل الرحمن ہیں جنہیں یہ غم و غصہ ہے کہ وہ انتخابات میں ناکام رہے اور ایوان میں نہیں پہنچے لہٰذا انہوں نے دھرنا دے رکھا ہے پہلے ڈی چوک تک جانا تھا اب اس کا ارادہ ترک کر دیا ہے شاید وہ کوئی نئی حکمت عملی اپنانے والے ہیں کیونکہ وہ بضد ہیں کہ عمران خان سے استعفیٰ لینا ہے انہیں اقتدار سے الگ کرنا ہے وہ اس کی یہ وجہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کی جب انہیں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ انتخابات تو نگران حکومت نے کرائے دھاندلی کیسے ہو گئی انہیں ان کے ایک امیدوار جو اچکزئی کے مقابل تھے کامیاب ہوئے پر ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ انتخابات شفاف ہوئے کوئی دھاندلی نہیں ہوئی تو وہ اسے بھی نظر انداز کر دیتے ہیں پھر انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ حضرت آپ نے تو صدارت کا انتخاب بھی لڑا تھا مگر کامیاب نہیں ہو سکے اس وقت دھاندلی کہاں تھی فرض کیا وہ کامیاب ہو جاتے تو کیا پھر بھی دھاندلی کا رونا روتے نہیں وہ کبھی بھی احتجاج نہ کرتے دھرنا نہ دیتے۔

یہ سیاست ہے ہمارے ملک کی اور ستم یہ کہ عوام کو کہتے ہیں کہ وہ اُن کے سیاسی رہنما ہیں اس پر انہیں سوچنا چاہیے کہ عوام اب باشعور ہیں انہیں ایسے سیاستدان نہیں چاہیں جو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں انہیں صرف اپنے مفادات سے غرض ہے جس کے لیے وہ نظریات، عوامی احساسات اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈالناپڑے تو ڈال دیتے ہیں۔ اب جب عوام نے کہنا شروع کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن وصرف ایوان زیریں میں داخل نہ ہونے پر احتجاج کناں ہیں تو انہوں نے عوامی مسائل کا ذکر بھی کرنا شروع کر دیا ہے کہتے ہیں مہنگائی بہت کر دی گئی ہے بیروز گاری کے خاتمے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا جا رہا لوگوں پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ پچھلے ادوار میں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے جان بوجھ کر آنے والی حکومت کو الجھانے و پھنسانے کے لیے مسائل کو جنم دیا گیا۔

قرضوں کو آنکھیں بند کر کے لیا گیا جو آج اتارنا پڑ رہے ہیں تو مہنگائی کی آندھیاں چل نکلی ہیں مگر حکومت نے اس کا توڑ نکالا ہے کہ یوٹیلٹی سٹوروں کو چھے ارب روپے دیے گئے ہیں اُدھر آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پنتالیس کروڑ ڈالر کی جو قسط دی جا رہی ہے اس سے واضح طور سے مہنگائی میں کم آئے گی۔ بجلی کی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں تو اب سبسڈی بھی دی جا رہی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد آہستہ آہستہ ہی معاملات ٹھیک ہوں گے۔ جاوید خیالوی کے مطابق آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرنے کی بنا پر فی الوقت ہمیں جو مشکلات کا سامنا ہے آنے والے دنوں میں ان کا خاتمہ ہوتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ اب آئی ایم ایف بھی چاہتا ہے کہ عوام میں مہنگائی کی وجہ سے جو نفرت اُس کے خلاف پائی جاتی ہے اس میں کمی آئے بلکہ ختم ہو جائے کیونکہ اگر یہ حکومت غیر مستحکم ہوتی ہے تو اس کے مفادات پر زر پڑتی ہے اور اس کے قرضوں کی واپسی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے لہٰذا وہ سخت شرائط سے اجتناب برتنے جا رہا ہے۔ حکومت کو بھی یہ ہوش آ گیا ہے کہ وہ اندھا دھند ٹیکسوں کو نہ لگاتی چلی جائے اس سے ملک میں افراتفری پھیل گئی ہے اور عوام کی اکثریت اس سے نجات حاصل کرنے کی دعائیں مانگنے لگی ہیں۔

بہرحال حکومت کو معیشت کو پٹڑی پر لانے کے لیے سخت فیصلے کرنا ہی تھے مگر وہ اتنے سخت نہ کرتی کہ لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں۔ چلئے اب اگر وہ چھوٹے موٹے ریلیف دینے کی طرف اپنی کمزوری کی بنا پر بڑھ رہی ہے تو اب توانا ہو جائے گی۔ لہٰذا اُسے دھرنے والوں سے بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا کیونکہ وہ روزبروزنفاہت کی جانب بڑھیں گے اُس کی وجہ بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے مسائل حل ہونے جا رہے ہیں مسلم لیگ (ن) کا تو مسئلہ ہو بھی چکا ہے کہ میاں نواز شریف علاج کی غرض سے لندن جانے والے ہیں باقی دوسرے بھی چلے جائیں گے آصف علی زرداری بھی رہا ہو جائیں گے کیونکہ یہ میلہ ان لوگوں کی رہائیوں کے لیے بھی لگا ہے؟

قارئین کرام! آپ جان چکے ہوں گے کہ عوام کے لیے یہاں سیاست نہیں کی جاتی اس کا مطمع نظر صرف اور صرف ”سیاستدانوں“ کا اقتدار میں آنا اور آ کر پیسا کمانا ہوتا ہے جو مالی سکینڈل سامنے آئے ہیں اور آ رہے ہیں اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سیاست بدعنوانی کے لیے کی جاتی ہے یہاں میں یہ بتا دوں کہ بدعنوان سیاست ہی نہیں آمریت بھی ہے بلکہ وہ زیادہ ہے کیونکہ اسے ”سیاستدانوں“ کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں وہ مراعات دینے میں بہت دریا دل ہوتی ہے مگر ”سیاستدانوں“ کی بات اس لیے شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں اور انہیں یقین دہانیاں کرا کے آتے ہیں کہ وہ ان کے تمام دکھوں کا مداوا کریں گے مگر نہیں کرتے آمروں کا گلہ تو بنتا ہی نہیں ان کو عوام سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔

حرف آخر یہ کہ ملک اس کے باوجود کہ سیاست کاروباری ہو گئی ہے آگے بڑھے گا کیونکہ اُسے اب ایک ایسا حکمران ملا ہے جو بدعنوانی اور ذاتی خواہشات سے دور بھاگتا ہے لہٰذا آنے والے مہینوں میں امید کے چراغ جل اٹھیں گے بس تھوڑا سا صبر کرنے کی ضرورت ہے شاید اُس کے سیاسی مخالفین نے چشم تصور سے وہ متوقع منظردیکھ لیا ہے اور وہ تلملا اٹھے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).