سینٹری پیڈ، بیت الخلاء اور اکشے کمار


یوسفی صاحب نے ایک بڑی دلچسپ بات ”آب گم“ میں لکھی ہے، وہ بتاتے ہیں کہ پہلے طبلہ بجانے والے ”طبلچی“ کہلاتے تھے، بعد میں وہ ”طبلہ نواز“ بن گئے، یہ ”طبلہ نوازی“ صرف طبلچیوں نے ہی نہیں کی ہے، یہ خبط عظمت ہر ہر شعبہ ہائے زندگی میں در آیا ہے، شاہنواز فاروقی نے اپنے ایک خوبصورت کالم میں علامہ جمیل مظہری کا بڑا شاندار شعر لکھا ہے۔

بقدر پیمانہ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا

اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا

جیسے جیسے یہ ”دور جدید“ بڑھتا جاتا ہے ہر ہر پیشے سے منسلک لوگوں کا ”پیمانہ تخیل“ بڑھتا ہی جاتا ہے اور یہ خودی و خود فریبی کا سرور ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہے، آپ کسی چوکیدار سے ہی بات کر لیجیے، یوں لگے گا کہ دنیا تو وہی چلا رہا ہے، ٹیچروں کو لگتا ہے کہ وہ قوم کی سب سے بڑی خدمت کر رہے ہیں اور بس ان کو کم از کم دعویٰ خدائی تو کر ہی دینا چاہیے، پولیس والوں کو لگتا ہے کہ وہ نہ ہوں تو لوگ ایک دوسرے کو ایک لمحے میں بوٹی بوٹی کر دیں گے۔ ہر کسی نے خود کو تقریباً خدا ہی سمجھ لیا ہے، طبلچی اب ”طبلہ نواز“ ہیں۔ بھانڈ اب ”مزاحیہ فنکار“ ہیں، ناچنے والیاں اب ”رقاصائیں“ ہیں اور نوٹنکی والے اب ”اداکار“ ہیں۔

ایک مرتبہ اپنے جامعہ کے دوست خرم سہیل کی موسیقاروں کے انٹرویوز پر مبنی کتاب ”سرمایہ“ کی تقریب رونمائی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پر فنکاروں کی تقریریں سن کر میں دنگ رہ گیا۔ تب میں پولیس کا ملازم تھا اور صرف جامعہ کی کانفرنسیں یا پولیس ٹریننگ سینٹر پاسنگ آؤٹ پریڈز جیسی تقریبات میں ہی جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ اس تقریب میں یوں خودنمائی اور خود پرستی پر مبنی گفتگو سن کر بڑی حیرت ہوئی۔ یہ طبلچیوں، ستارچیوں، گوویوں کی محفل نہ تھی بلکہ یونانی دیوتاؤں کی سبھا تھی۔ تب مجھے محسوس ہوا کہ بس اظہار کے طریقے کا فرق ہے ورنہ ادیبوں، شاعروں اور جامعہ کے استادوں میں ان سے فرق کیا ہے، ہر کوئی اپنی عظمت کے ذکر سے بالکل اسی طرح بھرا ہوا ہے جیسے کھلونے میں چابی بھری ہوتی ہے۔ اگر یہ چابی ختم ہو تو کھلونا رک جاتا ہے کیونکہ ”اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا“

مصلح قوم بن جانا بھی آج کل ہر کسی کا خبط ہے۔ لوگ خود کو کسی سماجی انقلاب کا بانی بنا دینا چاہتے ہیں۔ ایسے چھوٹے موٹے انقلابی رہنما ہر دفتر، ہر گھر میں مل جاتے ہیں جو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے یہ تبدیلی پیدا کی۔ ہر کوئی اپنا اصل کام بھول کر کسی بے حد مبالغہ آمیز تصور ذات کے ساتھ سماجی طوفان ہی برپا کر دینے کی فکر میں ہے، کم از کم اپنا ”امیج“ ہر کسی کو یہی چاہیے۔

اس مصلح قوم بننے کے خبط کا سب سے نیا شکار بالی وڈ کے معروف اداکار اکشے کمار صاحب ہیں۔ اکشے کمار کے بابت بمبئی کی فلم نگری میں ایک مثل مشہور ہے کہ ”اللہ مہربان تو گدھا پہلوان“۔ محترم میں شاہ رخ خان کی سی اداکاری کے کرشمات ہیں نہ سلمان خان جیسا Swag، مگر پھر بھی محترم ایک زمانے سے فلم نگری میں ایک اچھے مقام پر موجود ہیں۔ محترم ابتداء میں بڑی بھونڈی اور جھٹکے دار اداکاری کیا کرتے تھے۔ (شک ہو تو کھلاڑی، Franchise دیکھ لیجیے ) پھر سن 2000 ء میں آپ نے منفی کردار اور پھر مزاحیہ کرداروں سے کچھ جگہ بنائی اور ابھی تک آپ عرف عام میں انڈسٹری کے سب سے لمبے ”جوکر“ ہی کہے جا سکتے ہیں مگر سماجی انقلابی ہونے کا خبط صرف و محض عامر خان اور شبانہ اعظمی ہی کی میراث تھوڑئی ہے؟ اکشے کمار صاحب نے عرف عام میں سماجی Taboosپر بات کر کے عظیم مصلح قوم اور انقلابی بن کر بھانڈ سے انقلابی کی لمبی جست لگانے کی سعی کی ہے۔

مگر ان کا یہ سماجی انقلاب ہے کیا؟ ایسی پہلی سماجی Dose کا نام ہے ”ٹوائلٹ: ایک پریم کتھا“ بھارت میں لوگ گاؤں دیہات میں کھیتوں میں رفع حاجت کرنے جاتے ہیں۔ اس میں مرد و زن سب ہی شامل ہیں، کمار صاحب کی فلم میں وہ اس سماجی روایت سے ٹکر لیتے ہیں اور لوگوں کی مخالفت کے باوجود بیت الخلاء تعمیر کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے والد اور اہل گاؤں اس کے سخت خلاف تھے۔ تالیاں! اکشے کمار کی پہلی فتح۔ چند دن بعد اکشے کمار کو ایک نئی کھجلی اٹھتی ہے۔ اب وہ سینٹری پیڈ کے Brand Ambassador بن کر سامنے آتے ہیں۔ وہ سارے بھارت کی غریب عورتوں کو سستے سینٹری پیڈ فراہم کرنا چاہتے ہیں اور یہ انقلاب لا کر وہ امریکا میں اقوام متحدہ کے اجتماع سے خطاب فرماتے ہیں۔ تالیاں! تالیاں!

محترم اکشے کمار صاحب شاید یہ نہیں جانتے کہ فلم سب سے پہلے ایک تفریحی شے ہے، اس کے بعد وہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ اگر فلم میں ڈرامائیت نہیں تو وہ فلم کیونکر ہے؟ اور اگر صرف اور صرف واقعات اور معلومات ہی دیکھنے ہیں تو لوگ ڈاکیومینٹری کیوں نہ دیکھ لیں؟ پھر اکشے جی اب زمانہ وہ آ گیا ہے کہ کوئی Taboo اب Taboo ہے ہی کب؟ Taboo تو وہ شے ہوتی تھی کہ جس پر بات کرنے پر پابندی ہوا کرتی تھی مگر آج کا دور تو ایسا ہے کہ ہر شخص ہر چیز پر ہی بات کر رہا ہے۔ پھر Taboo کی عجیب پن کی مقناطیسی قوت اب بچی کہاں؟ 2007 ء میں صدر میں ایک اخبار والے چاچا کو دو مرتبہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ محترم عموماً بڑی بسوں میں چڑھتے اور درمیان میں کھڑے ہو کر پوری قوت سے کچھ چلّاتے، مثلاً ایک بار انہوں نے یہ فرمایا۔

”نعرہ تکبیر، نعرہ بھگوان! بس اب یہ ہی ہونے والا ہے“ (اس کے بعد محترم نے ایک فحش گالی بکی) ”جنگ لگ گئی! جنگ لگ گئی! یہ لو پڑھو تفصیل“

اسی طرح ایک مرتبہ وہ یہ کہتے ہوئے پائے گئے ”زرداری بادشاہ! کون کہہ رہا ہے کہ بات؟ کوئی سندھی کا بچہ کہہ رہا ہے؟ کوئی پنجابی کا بچہ کہہ رہا ہے؟ نہیں، مہاجر کا بچہ الطاف حسین کہہ رہا ہے۔ الطاف حسین نے زرداری کے صدارتی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے“ چاچا کے ان نعروں سے بس میں سناٹا طاری ہو جاتا۔ وہ متنازع باتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے اور یوں اپنے اخبار کی مارکیٹنگ کی کوشش کرتے مگر زمانہ اتنی تیزی سے بدل گیا کہ آج چاچا اخبار بھی کسی کو کیا متوجہ کریں گے؟

اس لئے مصلح قوم اکشے کمار صاحب کی یہ فلمیں پھس پٹاخے ہیں۔ اکشے کمار کی یکسانیت بھری اداکاری (وہی ”دھڑکن“ والا ”اچھا آدمی“ اسٹیریو ٹائپ) سستے مکالمے، اور آخر میں پھسپھسا سماجی انقلاب بڑا ہی بے رنگ اور بھونڈا معلوم ہو رہا ہے۔ ایک آدھ فلمیں اکشے جی کی مجھے بھی پسند ہیں۔ اس لئے ان کو مشورہ ہے کہ وہ بھارت کے شعیب منصور بن کر بور نہ کریں۔ یہ پھسپھسے Taboo اب کسی کو متوجہ نہیں کرتے، کیا ہی اچھا ہو گا کہ وہ دوبارہ مصلح قوم اور دیوتا سے وہی بن جائیں جو وہ ہیں، ایک مسخرہ۔ اور اگر مسخرہ ہونے میں ان کو تحقیر محسوس ہوتی ہے تو یقین جانیں کہ انہیں خود کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ خود کو بغیر کسی مبالغے کے ہی جو ہم ہیں وہی مان لینے سے سب سے بڑی تبدیلی، سب سے بڑا انقلاب برپا ہوتا ہے، پھر یہ انقلابی کرتب دکھا دکھا کر بدمزہ کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).