کپتان کا سیاسی دوسرا: نواز شریف عدالت کے حکم پر بیرون ملک جائیں گے


شاید اسے سیاست کا ’دوسرا‘ کہا جائے گا کہ اپیل بھی شہباز شریف نے دائر کی، حلفی بیان بھی نواز شریف اور شہباز شریف نے دیا لیکن کامیاب عمران خان کی حکومت ہوئی۔ لاہور ہائی کورٹ نے آج سارا دن شہباز شریف اور حکومت کے وکلا کے ساتھ’ سر کھپانے ‘ کے بعد بالآخر حکم دیا ہے کہ نواز شریف کو کسی شرط کے بغیر ملک سے باہر جانے کی اجازت ہے اور حکومت ان کا نام ای سی ایل سے فوری طور پر نکال دے۔
گزشتہ ہفتہ کے دوران وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ سمیت متعدد حکومتی زعما یہ بیان دیتے رہے کہ سرکاری طبی بورڈ کی سفارش اور نواز شریف کی سنگین بیماری کی وجہ سے انہیں علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ تاہم ویک اینڈ پر ہونے والی سرکاری ملاقاتوں میں وزیر اعظم عمران خان کو یقین دلادیا گیا کہ اگر نواز شریف یوں ملک سے چلے گئے تو اسے ’این آر او ‘ سمجھا جائے گا جو تحریک انصاف کی سیاست کا جنازہ نکلنے کے مترادف ہوگا۔ اس ’رائے ‘ کے سامنے آتے ہی عمران خان اور ان کی کابینہ کو نواز شریف کی بیماری اور انسانی ہمدردی کے دعوے بھول گئے اور وہ کوئی ایسا کاندھا تلاش کرنے میں مصروف ہوگئے جس پر رکھ کر نواز شریف کی ملک سے روانگی کو حکومت کی شاندار کامیابی کہا جاسکے۔ شہباز شریف کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ دراصل عمران خان کا ’سیاسی دوسرا‘ ہے۔
حکومت اس سے پہلے وزارت قانون کے ذریعے احتساب بیورو کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرچکی تھی کہ نواز شریف چونکہ اس کا ’ملزم ‘ ہے اس لئے نیب ہی یہ تسلیم کرے کہ نواز شریف کا علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا لہذا انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی جائے۔ ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کام کرنے والے نیب نے جب ذمہ داری کا یہ بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا تو ’این آر او‘ کے بوجھ سے بچنے کے لئے کابینہ کو وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کرنا پڑی جس میں نواز شریف کو مکمل ’انصاف ‘ دینے کی غرض سے ان کے ذاتی معالج اور مسلم لیگ (ن) کے ایک نمائیندے کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے دن رات کی عرق ریزی کے بعد نواز شریف کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ وہ زر ضمانت جمع کروانے کی بجائے سات ارب روپے سے زائد کے مالی بانڈ فراہم کرکے علاج کے لئے چلے جائیں۔
مسلم لیگ(ن) اور نواز شریف کا مقدمہ سادہ تھا۔ عدالتوں سے نواز شریف کو ضمانت مل چکی تھی اور ان ضمانتوں کی شرائط کے مطابق ضمانتی مچلکے بھی جمع کروائے جاچکے تھے ۔ اب حکومت عدالتوں کے فیصلوں کے بعد اپنی عدالت لگا کر بیٹھ گئی تھی۔ اور یہ مؤقف اختیار کررہی تھی کہ حکومت دراصل عدالتی احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ جب نواز شریف واپس نہیں آئیں گے تو عدالتیں عمران خان یا کسی دوسرے حکومتی اہلکار سے یہ نہ پوچھنے لگیں کہ اب وہ واپس کیوں نہیں آتے۔ تب حکومت بتا سکے گی کہ اس نے تو عدالتوں کے عائد کردہ جرمانے کے مالی بانڈ بھی لے رکھے ہیں ، اس سے زیادہ وہ کیا کرسکتی تھی۔ عدالتوں کو مطمئن کرنے کے علاوہ اس معاملہ سے حاصل ہونے والا سیاسی فائدہ الگ تھا۔
تحریک انصاف کا مقدمہ بھی دراصل بہت سادہ اور قابل فہم ہے۔ وہ نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنا چاہتی ہے تاکہ جیل میں ہونے والی لاپرواہی اور عمران خان کی خصوصی ہدایات کے تحت تمام ملزموں کے ساتھ مساوی سلوک کی پالیسی کی وجہ سے سابق وزیر اعظم کو جو اچانک اور سنگین بیماری لاحق ہوئی تھی، اگر وہ ہلاکت خیز ثابت ہوجاتی یا ان کی علالت زیادہ پیچیدہ ہوجاتی تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی۔ یوں بھی پاکستان میں موجود نواز شریف جو خواہ بیمار ہی ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کے فیصلے ان کے چشم ابرو کے محتاج ہیں ۔ الزامات اور مقدمات کے طوفان کے باوجود ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ان کی پاکستان میں موجودگی ایک ایسی حکومت کی صحت کے لئے مناسب نہیں ہے جو وعدے اور دعوے تو کرسکتی ہے لیکن ان پر عمل درآمد کا کوئی امکان اس کے قبضہ قدرت میں دکھائی نہیں دیتا۔ نہ اسے یہ خبر ہے کہ معیشت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے اور نہ وہ یہ بتا سکتی ہے کہ بھارت کو دھمکیاں دینے اور مودی کو کوسنے کے باوجود دنیا میں کوئی پاکستان کی بات سننے کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتا۔
حد تو یہ ہے کہ ملک کی کوئی بھی اپوزیشن پارٹی تحریک انصاف کی انتھک محنت، عمران خان کے دھڑا دھڑ غیرملکی دوروں اور مدینہ ریاست کے انتہائی پاکستان دوست اعلان کے باوجود نچلا بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اب تو ان کے اپنے حلیف حکومتی پالیسی پر انگلیاں اٹھانے لگے ہیں۔ ایسے میں بیماری سے لاچار مقبول سیاسی لیڈر سوہان روح بنا ہؤا تھا۔ اسی لئے کابینہ کے سیانے تو بین السطور یہی مشورہ دیتے رہے کہ کسی طرح بھی ہو نواز شریف سے جان چھڑائی جائے اور انہیں ملک سے باہر بھیجنے کا اہتمام کیا جائے۔ دوسری طرف نواز شریف ڈاکٹروں کی پریشانی اور اصرار کے باوجود کہ ان کی بیماری کی تشخیص پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ انہیں فوری طور سے بیرون ملک جا کر علاج کروانے کا مشورہ دیا جارہا تھا۔ نواز شریف کا بدستور اصرار تھا کہ موت تو کہیں بھی آسکتی ہے تو وہ اپنا ملک چھوڑ کر اور عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کئے بغیر ملک سے باہر کیوں جائیں۔
نواز شریف کو راضی کرنے کے لئے شہباز شریف کی سرکردگی میں ’مشن امپاسیبل‘ کا آغاز ہؤا اور بالآخر والدہ اور بیٹی کے مسلسل اصرار اور تاکید پر نواز شریف سفر کے لئے راضی ہوئے۔ جب ڈاکٹر اسٹیرائیڈز دے کر نواز شریف کے پلیٹلیٹس کو اس سطح پر لانے کی کوشش کررہے تھے کہ وہ ائیر ایمبولنس کے ذریعے سفر کرسکیں تو حکومت کا اپنا بلڈ پریشر اس فکر میں بلند ہونے لگا کہ یہ بات باہر نکل گئی تو عمران خان کے اس دعویٰ کا کیا ہو گا کہ اپوزیشن ان سے تین حرف سننا چاہتی ہے اور وہ انہیں ادا نہیں کریں گے۔
عمران خان نے شروع میں اس معاملہ کو سادہ سمجھ لیا تھا اور ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اس کا ٹکا سا جواب بھی دیا تھا کہ ایک بیمار شخص کو انسانی ہمدردی اور ڈاکٹروں کے مشورہ پر علاج کروانے کی اجازت دی جارہی ہے تو اس میں این آار او کہاں سے آگیا۔ این آر او کا نعرہ حکومت کے سر پر کسی بھوت کی طرح سوار ہوگیا ۔ اسی لئے پہلے اصولی فیصلہ کرنے کے بعد اس سے فرار کے راستے تلاش کئے جانے لگے۔ وزیر قانون فروغ نسیم کو کوئی ایسا راستہ نکالنے کا کام سونپا گیا جس میں سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی نواز شریف ملک سے باہر بھی چلے جائیں اور حکومت پر اس کا الزام بھی نہ آئے تاکہ ناخلف اینکرز اور منہ زور مبصر ین اسے این آر او کا نام دے کر عمران خان کو عاجز نہ کریں۔ فروغ نسیم اس سے پہلے پرویز مشرف کے وکیل کے طور پر انہیں ملک سے ’فرار‘ کروانے کےلئے اپنی قانونی قابلیت صرف کرچکے تھے۔ اس لئے بجا طور سے یہ سمجھ لیا گیا کہ جو کسی کا نام ای سی ایل سے نکلوا سکتا ہے ، وہی نواز شریف کے معاملہ میں کوئی جادو گری دکھا سکتا ہے۔
فروغ نسیم کے زہن رسا نے بالآخر یہ ترکیب نکالی کہ نواز شریف یا ان کے ہمدرد بھائی جو عدالتوں اور اداروں میں بھائی کا مقدمہ لڑتے دکھائی دیتے ہیں، 7 ارب روپے کے مساوی ضمانت نامے داخل کریں اورنواز شریف چار ہفتے کے لئے بغرض علاج ملک سے چلے جائیں۔ یہ رقم ان جرمانوں کے مساوی ہے جو نیب کی دو عدالتوں نے دو مختلف مقدمات میں نواز شریف پر عائد کئے تھے اور جن کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں زیر سماعت ہیں۔ نواز شریف کو ضمانت دیتے ہوئے یہ صورت حال لاہور ہائی کورٹ کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بھی پیش نظر تھی لیکن انہیں اس خطیر رقم کی وصولی کا خیال نہیں آیا۔ البتہ قانون کے رکھوالے اور عدالتوں کے بہی خواہ وزیر قانون کو فکر تھی کہ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی سے پہلے قبل عدالتی احکامات عمل کروا لیا جائے۔ بعد میں ان معاملہ کو نواز شریف کی طرف سے جرم قبول کرنے کا مقدمہ بنا کر اپنے حامیوں اور تحریک انصاف کے دیوانوں کو فروخت کرنا آسان ہوتا۔
ستم ظریفی یہ کہ نواز شریف نے ان شرائط کو توہین آمیز قرار دیتے ہوئے حکومت کی ’فراخدلانہ‘ پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ مسلم لیگ (ن) نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ شہباز شریف کی درخواست پر آج لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو کسی شرط کے بغیر بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق شہباز شریف نے تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کا بوجھ ہلکا کردیا۔ اب عدالت جانے اور نواز شریف۔ ایک ’خطرناک ‘ سیاسی حریف سے جان بھی چھوٹ جائے گی اور عمران خان کو این آر او دینے کا الزام بھی نہیں سہنا پڑے گا۔
نواز شریف کا معاملہ بہت لحاظ سے دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ لیکن اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ عمران خان اور حکومت تمام تر اختیار کے باوجود نواز شریف کو ملک سے جانے کی اجازت دینے کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ ایک مریض قیدی کا نام ای سی ایل سے نکالنے یا نہ نکالنے کے سادہ فیصلہ کو اس قدر پیچیدہ بنایا گیا کہ یوں لگنے لگا تھا کہ ملک و قوم کو اس سے بڑا کوئی دوسرا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ سوچنا چاہئے کہ جو حکومت اس قدر سادہ معاملہ میں قوت فیصلہ کی سکت نہ رکھتی ہو ، وہ ملک کو درپیش دیگر تہ دار اور مشکل معاملات کو کیسے طے کرسکتی ہے۔ عمران خان اپنے نورتنوں کے ساتھ مل کر اس سوال کا جواب تلاش کرسکیں تو شاید وہ مسائل سے نمٹنے کی ہمت جٹا پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali