محبت کی نفسیات: ڈاکٹر خالد سہیل کی توسیع میں


ڈاکٹر خالد سہیل کا ایک اور بہت اچھا مضمون۔ انہوں نے بہت سی باتوں کو تھوڑے سے الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ”محبت کا تعلق جنس اور شادی سے ہے۔ جنس ایک جبلی اور جسمانی رشتہ ہے۔ محبت ایک نفسیاتی و جذباتی اور شادی ایک سماجی و ثقافتی۔ “

ان کی لکھی ہوئی بہت سی دوسری باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے جنسی ضرورت، محبت اور شادی وہ اہم باتیں ہیں جو کہ اور زیادہ توجہ مانگتی ہیں۔

بھوک اور پیاس کی طرح جنسی خواہش کو پورا کرنا بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ ایک جسمانی تقاضا ہے۔ یہ انسان کی جبلت ہے۔ محبت ایک طاقتور کشش اور جذباتی تعلق کا نام ہے۔ جنسی خواہش محبت کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔ انسانی علوم کے ماہر محبت کو تین درجات (ادوار) میں تقسیم کرتے ہیں۔ شہوت، کشش اورمستقل تعلق۔ یہ تینوں درجات ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے بھی ہیں اور ایک وقت میں اکٹھے بھی پائے جاتے ہیں۔ (overlapping) ۔ ایک درجہ (دور) کہاں پر ختم ہوا اور دوسرا کہاں سے شروع ہوتا ہے واضح طور پریہ بھی نہیں بتایا جا سکتا۔

پہلا دور۔ ’شہوت یا ہوس‘ صرف جنسی خواہش کا نام ہے۔ یہ کسی سے بھی پوری کی جاسکتی ہے مثلاً پسندیدہ فرد، خاوند بیوی، طوائف، مشت زنی یا کسی بھی ایسے فرد یا چیز سے جو چاہے دل کواچھی نہ بھی لگے۔ آج کل اس کو پورا کرنے کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں۔ آنے والے دور میں جدید ذرائع اتنے عام ہو جائیں گے کہ 2050 تک انسان کے روبوٹ کے ساتھ جنسی تعلقات، انسان سے انسان کے ساتھ تعلقات سے بڑھ جائیں گے۔

دوسرا دور۔ ’کشش۔ ‘ جنسی خواہش پوری کرنے کے لئے بار بار ایک ہی فرد کی خواہش کرنا، محبت کی طرف دوسراقدم ہے۔ اس کی طرف کھنچے جانا، اس کا خوبصورت لگنا، اس کو دیکھ کر یا اس کے بارے میں سوچنے سے شہوت کے جذبات کا بھڑکنا، اس دوسرے درجہ ’کشش‘ کا حصہ ہیں۔ بار بار ایک ہی پارٹنر کی طرف رغبت کی ایک وجہ آسان حصول اور وقت و توانائی کی بچت بھی ہے۔

تیسرا دور۔ ’مستقل تعلق‘ مثلاً شادی۔ محبت کے اس درجہ میں ایک ہی گھر میں رہائش رکھنا، بچے پیدا کرنا، تحفظ فراہم کرنا، ذمہ داریاں نبھانا، مکمل اعتماد کرنا اور ایک دوسرے کے رازوں کا امین ہونا وغیرہ شامل ہے۔

ان تینوں درجات میں انسانی جسم میں ہارمون بھی مختلف پیدا ہوتے ہیں۔

شہوت یا ہوس میں ٹیسٹوسٹیرون اور ایسٹروجنTestostern & Estrogen زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں جو کہ جذبات کو بڑھکاتے ہیں۔ یہ ہارمون جسم کو طاقتور بنا تے ہیں اور خون کی گردش کو بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ انسان اور زیادہ خوبصورت لگتا ہے۔

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

تیرے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

کشش کے دور میں جسم میں ڈوپامین، نوراپینیفرین اور سیروٹونن dopamine، norepinephrine، and serotonin پیدا ہوتے ہیں جو کہ دماغ میں ’لطف کے مرکز‘ کو چھیڑتے ہیں اور خوشی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ ہارمون دل کی دھڑکن کو تیز کرتے ہیں، بھوک اور نیندکم ہو جاتی ہے اور انسان زبردست قسم کا جوش محسوس کرتا ہے۔

یہ دونوں درجے عارضی ہیں۔ شہوت کے جذبات عام طور پر کچھ ہفتوں سے لے کر دوچار ماہ تک حاوی ہوتے ہیں۔ اس کے بعدکشش کا دور کچھ مہینوں سے دو تین سال تک چلتا ہے۔

پھر دور شروع ہوتا ہے لمبے ساتھ کا، جو سال ہا سال اور عمر بھر جاری رہتاہے۔ اس دوران آکسیٹوسن اور ویزو پریسن ہارمون ooxytocin and vasopressin جسم میں زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اس دور میں انسان مستقل ساتھ نبھاتا ہے اور بچے پیدا کرتا ہے۔ اس دور میں جنسی خواہش کہیں دور اوربہت پیچھے چلی جاتی ہے۔ اس دوران جو بھی تعلق بنتا ہے اسے مختلف ادوار اور معاشروں میں مختلف نام دیے گئے ہیں، جن میں سے سب سے مقبول نام شادی کا ہے۔

ان تینوں ادوار میں تسلسل ضروری ہے۔ اگر رابطہ ٹوٹ جائے یا ا س میں وقفہ آجائے تو پہلے اور دوسرے دور کی مدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ محبت یا تعلق جو ان ادوار سے گزر کر استوار ہوا ہو اس کا ٹوٹنا تقریباًناممکن ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں شادی عام طور پر ایک نظر دیکھے بغیر ہی ہو جاتی ہے۔ اگر قسمت اچھی ہو تو نباہ ہو جاتا ہے اور کچھ سالوں کے بعد محبت بھی پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ ورنہ معاشرتی دباؤاور مجبوریاں ایک تعلق برقرار رکھتی ہیں جسے شادی تو نہیں شاید کوئی اور ہی نام دیا جا سکتا ہو۔ خالد سہیل صاحب نے ایک اور فقرہ بہت جاندار لکھا ہے، ”ہم آج بھی ایک منافق معاشرہ میں زندہ ہیں۔ “ ان شادیوں میں جنسی آسودگی کے حصول میں بھی منافقت موجود ہوتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے ایسی شادی میں ساتھی سے جنسی حظ اٹھانا رنڈی بازی اور خود لذتی سے بھی کم تر درجہ کا کام ہے۔

کچھ لوگ ایسے تعلقات کو نبھاتے رہتے ہیں اور اکثر راہ فرار حاصل کرتے ہیں۔ اب معاشرہ آزاد ہو رہا ہے۔ ان حالات میں انسان شادی کے بندھن کے باہرجنسی تعلقات قائم کرتاہے۔ اب معاشرتی اور معاشی مجبوریاں انسان کو بیڑیاں پہنانے میں ناکام ہو رہی ہیں اس وجہ سے ہمارے ہاں طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

محبت کی شادیوں میں بھی ناکامی کی شرح خاندانی طور پر طے شدہ شادیوں سے کچھ کم نہیں ہے۔ خاندانی شادیوں میں معاشرتی دباؤ منافقت کو جاری رکھنے پر کچھ حد تک مجبور کرتا ہے لیکن محبت کی شادی میں یہ بھی نہیں ہوتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جسے فلموں میں، کہا نیوں میں اور ہمارے معاشرہ میں محبت کہا جاتا ہے، پہلے دو ادوار پر مبنی ہوتی ہے۔ بلکہ اکثر محبت پہلے دور سے بھی پہلے شروع ہو جاتی ہے جسے پہلی نظر کی محبت کہتے ہیں۔ ا بھی ہوس یا کشش کا دور ہوتا ہے، محبت تمام ادوار کی کسوٹی پر جانچی نہیں گئی ہوتی اور شادی ہو جاتی ہے۔ جب پہلا دور گزر جاتا ہے تو بعض مرتبہ کشش بڑھنے کی بجائے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ قصور محبت کا نہیں، جلد بازی کا ہے۔ ادوار پورے نہیں ہوے ہوتے، بنیاد مضبوط نہیں ہوتی اور مستقل تعلق (شادی) کی عمارت کھڑی کر لی جاتی ہے، جو گر بھی سکتی ہے۔

اصل محبت یہ تینوں ادوار پورے ہونے کا نام ہے۔ وہ تمام محبتیں جو جنس و جسمانی تعلقات، نفسیاتی وجذباتی اطمینان، اورسماجی و ثقافتی تعلقات (شادی یا اس جیسے کسی بھی مستقل تعلق) کے رستوں پر چلتے ہوئے پروان چڑھتی ہیں، کامیاب رہتی ہیں۔ ایسی محبت کو کسی معاشرتی یا قانونی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی وہ محبت ہے جو تمام قسم کی منافقتوں سے پاک ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).