افلاک کی روشنیاں اور اقتدار کی شوخیاں


آپ لاہور کو شہر کہتے ہیں۔ ارے نہیں، جنہوں نے لاہور کو دیکھا اور برتا ہے، وہ اسے کنج گلزار سمجھتے ہیں، کوچہ دلدار جانتے ہیں۔ آرزوئے دل فگاراں اور چشم نگار کا سنگم پکارتے ہیں۔ اس شہر کے بیچوں بیچ مال روڈ کی لکیر کھنچی ہے، آب رواں کی سی سہل گام ٹھنڈک لئے، مانوس عمارتوں، اجنبی چہروں اور دلوں کے محرم پیچ و خم کا ایک سبک خرام منظر، کہنے کو محض ایک شاہراہ، سچ پوچھو تو دامن یوسف کی تصویر ہے، ہمارے تاریخ پر دست ستم کیش نے جہاں ہاتھ ڈالا، مال روڈ پر کہیں نہ کہیں اپنا نشان چھوڑ گیا ہے۔ ٹاﺅن ہال کی طرف سے چلئے تو بائیں ہاتھ وہ باغ پڑتا ہے جہاں کبھی لالہ لاجپت رائے کا مجسمہ ایستادہ تھا۔ یادداشت اور فراموشی کی اس دو رویہ روش پر چلتے جائیں تو آخر آخر میاں میر کے مزار تک جا پہنچتے ہیں جہاں سے چھاؤنی شروع ہوتی ہے۔ بس انہیں دو نشانات کو ہمارے 72 سالہ سفر کا کیف و کم جانیے۔

اس ہفتے اسی مال روڈ کے ایک حصے میں فیض فیسٹول کے عنوان سے حرف انکار کا میلہ سجا۔ دور دور سے آئے چھتنار پیڑوں کے سائے تلے زندہ خوابوں میں دمکتے جوان چہروں کی اٹھلاتی کیاری۔ سڑک کے دوسری جانب لارنس باغ کی روشوں پر خزاں اتر رہی تھی۔ ہم سادہ ہی ایسے تھے…. بہار اور خزاں کے گرہ گیر پیچ و خم میں عمر گزار لی اور سمجھ ہی نہیں پائے کہ فیض کی کچھ صورتیں امتحان سے گزر کر دوام کو جا لیتی ہیں، فیض کے کچھ امکان معیادی ہوتے ہیں، چند روز دھوم اڑائی اور پھر، جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی۔ فیض عام اور جستجوئے ناکام کی خبریں ان دنوں ہوا میں آوارہ پتوں کی مانند بے طرح اڑ رہی ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ وقت کی رفتار بدل چکی۔ تبدیلی کے پروانے رقم ہو چکے۔ عقوبت کی تفصیل پردے میں ہے۔ کچھ روز میں معلوم ہو جائے گا کہ آج کی فہرست میں رقم کیا ہے۔ لیجئے تشبیب تمام ہوئی، اب گریز کا مقام آیا۔

نواز شریف کی آزمائش ختم ہوئی۔ یہ سطریں آپ کی نظر سے گزریں گی تو ممکنہ طور پر میاں صاحب کی ایئر ایمبولنس برطانیہ کے ساحلوں کی طرف محو پرواز ہو گی۔ آصف علی زرداری کے امتحان میں لحن ہجر کے کچھ درس ابھی باقی ہیں، مولانا فضل الرحمن کا دھرنا اپنے کہے اور ان کہے اہداف پا چکا، کچھ دعائیہ اشعار باقی ہیں، قادر الکلامی کی رو میں قافیہ پیمائی کئے جا رہے ہیں۔ کرپشن مرقومہ کی فرد جرم رنجک چاٹ گئی۔ کرپشن حقیقی کا ذکر ہی مثل مقدمہ سے غائب ہے۔ کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ…. دیکھنے والی آنکھ کے لئے ایک تصویر ہی کافی تھی، وقت رخصت وہ چپ رہے عابد…. اور کسی نے ماندگی کے وقفے کو اتفاقیہ رخصت قرار دینا مناسب سمجھا۔ رنگ گل و بوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں….

یہ تو رہا طبقات عالیہ کا احوال، ہمیں تو اپنی خاک پاک پر افتادہ مخلوق کے کف دست پر لکھی تحریر سے غرض ہے۔ اس منطقے سے آنے والی خبریں بدستور مخدوش ہیں۔ صحافی کو بدشگونی کا چاؤ نہیں، ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں۔ کرپشن (حقیقی) کو محفوظ راستہ دینے کے اس ہنگامے میں دس برس پر محیط حزنیہ تمثیل کے چند اشارے دیکھیے۔ محترم اعجاز شاہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں انتخاب 2008ءکا منظور شدہ نتیجہ پہلے سے معلوم تھا۔ محترم پرویز الہٰی بتاتے ہیں کہ 2010 میں ان کے آشیانے پر کس کی چشم ناز سے بجلیاں گرتی تھیں۔ 2011 کے میمو گیٹ اسکینڈل کا معاملہ آصف علی زرداری نے 4 اپریل 2014 کو لاڑکانہ میں صحافیوں کی موجودگی میں خود بیان کیا جس کی کبھی تردید نہیں ہوئی۔ 2014 میں بٹنے والی چپاتی کی تفصیل ہم نے جاوید ہاشمی کی زبانی سنی۔ پانامہ کے نام پر اڑائی گئی گرد کی حقیقت یہ رہی کہ مقدمے کے فیصلے کا عدالت سے کی گئی استدعا سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ ڈان لیکس کے تخلیق کار دیس چھوڑ گئے اور اس چاند ماری کے مجروح بدستور عدل کی دہلیز پر صورت سوال کھڑے ہیں۔

جولائی 2018 میں چھیڑے گئے راگ کے سروں نے بندش میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ اس پر طنبورہ من چہ می سراید کی شکایت بے جا ہے، یہ تو وزیرے چنیں، شہر یارے چناں کا قصہ تھا۔ ہماری معیشت کا ڈبہ گول ہو گیا، دیس کی ساکھ بگڑی، غنیم نے ہماری داخلی کمزوری بھانپ کر قضیہ کشمیر کی فصیل ہی اڑا دی، ہم بلبلا کے رہ گئے۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ راہوار تھک گئے ہیں، اس واقعے میں کہانی بدل رہی ہے۔ سچ مگر یہ ہے کہ منجدھار بھی وہی ہے اور پتوار بھی آزمودہ ہیں۔ محض صف بندی کی ترتیب نو کا سامان ہے۔ اور یہ تخمینہ کون لگائے گا کہ بارہ برس کے بن باس کا معاشی خسارہ کیا رہا؟ اقدار کی محل سرا میں ٹوٹ پھوٹ کا زر تاوان کیا ہو گا؟

یہ کون سی دانش ہے کہ شام ہو تو لیاقت علی کے لہو میں ڈوبی ہوئی، صبح ہو تو ہم ذوالفقار علی بھٹو کا تابوت اٹھائے نکلیں، ایک دریا کے پار اتریں تو بے نظیر بھٹو کا جسد خاکی گھاٹ پر رکھا ہو، ایک طوفان کی گرد بیٹھے تو 40 برس کی سرمایہ کاری بستر علالت پر پائی جائے، ہمارا مقسوم کیا یہی ہے کہ ہمارے افلاک کی روشنیوں کو اقتدار کی شوخیاں خوار کریں۔ یہ خوش فہمی ہو گی کہ کھیل ختم ہو چکا۔ ابھی کشتیاں گھاٹ پر باندھنے کا مقام نہیں آیا۔ ابھی کمر کھولنے کا پڑاؤ نہیں آیا، رواں ہفتہ فیض صاحب کے نام سے منسوب رہا، فیض صاحب نے ہماری تقویم لکھ رکھی ہے:

یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہ گزر میں گزراں

نہ ہوا کہ مر مٹیں ہم، نہ ہوا کہ جی اٹھیں ہم

لو سنی گئی ہماری، یوں پھرے ہیں دن کہ پھر سے

وہی گوشہ قفس ہے، وہی فصل گل کا ماتم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).