عمران خان حکومت بچانے کے لئے کیا کریں؟


چوہدری پرویز الہیٰ کے اس بیان کے بعد کہ مسلم لیگ(ق) بدستور حکومت کا حصہ رہے گی، بظاہر عمران خان کی فوری سیاسی پریشانی دور ہوجانی چاہئے۔ اس طرح یہ خبریں دم توڑ سکتی ہیں کہ حکومتی اتحاد میں دراڑیں پڑ رہی ہیں اور اس کی متعدد حلیف جماعتیں کسی ’متبادل‘ کی تلاش میں اڑان بھرنے پر آمادہ ہیں۔

تاہم گزشتہ چند ہفتوں کے درمیان آزادی مارچ اور نواز شریف کے علاج کے حوالے سے جو صورت حال سامنے آئی ہے وہ یہ تقاضہ کرتی ہے کہ وزیر اعظم اپنے سیاسی آپشنز پر سنجیدگی سے نظر ثانی کریں اور ایک ایسی حکمت عملی بنائیں کہ چوہدری شجاعت حسین جیسے معتمد اور سنجیدہ سیاسی لیڈر کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ’وزیر اعظم اناڑی مشیروں میں گھرے ہوئے ہیں جو ان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں‘۔ اناڑی مشیروں کی نشاندہی آسان لیکن ان سے جان چھڑانا مشکل ہوتا ہے ۔ عمران خان جیسے کسی بھی خود پسند لیڈر کو ایسے مشیروں کو پہچاننے میں شدید مشکل درپیش ہوسکتی ہے جو ہمہ وقت خوشامد کرنے اور خود کو شاہ سے بڑھ کر اس کا وفادار ثابت کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہوں۔ البتہ عمران خان کو اپنی حکومت کو لاحق خطروں سے نمٹنے کے لئے دو سادہ کام کرنے کی ضرورت ہو گی:

الف) وزیر اعظم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ صرف دعوؤں اور نعروں کے ذریعے بہت دن تک اپنی پارٹی کو برسر اقتدار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اب انہیں اقتدار سنبھالے پندرہ ماہ ہو چکے ہیں۔ اس وقت ملک کو جن سیاسی، معاشی، انتظامی اور خارجہ مسائل کا سامنا ہے، ان کی ذمہ داری تحریک انصاف ہی کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اور اس کا حل بھی اسے ہی تلاش کرنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں یہ جاننا بھی ضروری ہوگا کہ صرف یہ اعلان کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے کہ معیشت درست راستے پر گامزن ہوگئی ہے، ٹیکس نیٹ بڑھا دیا گیا ہے، ملکی خارجہ پالیسی کی دھوم پورے جہان میں ہے یا یہ کہ عالمی لیڈر عمران خان کے سحر میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ تبدیلی اور بہتری کے نتائج عام لوگوں کو دکھائی دینے چاہئیں۔ ملک کے عوام کو لنگر خانے کی قطار میں لگانے کی بجائے روزگار فراہم کرنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ منظر نامہ پر ابھرنا چاہئے۔

ب) عمران خان کو ایک پیج اور این آر او کی سیاست سے بالا ہوکر کام کرنا ہوگا۔ جب وہ اصرار کے ساتھ ایک پیج کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے‘ تو دراصل وہ اس نکتہ چینی کی بالواسطہ تائید کرتے ہیں کہ اس ملک کی فوج اپنی مرضی کے لیڈر ملک پر مسلط کرکے ملکی پالیسیوں کو اپنی منشا کے مطابق چلانا چاہتی ہے۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے اگر ان کے بعض دوستوں نے کچھ محنت کی بھی ہو تو بھی اقتدار سنبھالنے کے بعد ان دوستوں کی اعانت سے زیادہ حکومت کی لیاقت اہم ہوتی ہے۔ کسی حکومت کے استحکام کے لئے اس کی کارکردگی ہی بنیاد بنتی ہے، یہ اعلان معاون نہیں ہوتا کہ کون کون اس حکومت کی پشت پر کھڑا ہے۔

اسی طرح نواز شریف کے معاملے میں این آر او کے نعرے نے عمران خان کو متعدد قلابازیاں کھانے یا یو ٹرن لینے پر مجبور کیا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں دیے گئے این آر او کو اس وقت ملک کی سپریم کورٹ کالعدم قرار دے چکی تھی۔ اس حکم کی روشنی میں یہ باور کرنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر کسی فوجی حکمران کے این آر او کو قبول نہیں کیا گیا تو عمران خان کی ایسی کوئی بھی کوشش بھی سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔ این آر او اب ایک سیاسی نعرے سے زیادہ کسی ضدی بچے کا اصرار بن چکا ہے۔ اسے اگر کسی کام سے منع کیا جائے تو وہ ہٹ دھرمی کی وجہ سے بار بار اسی بات کو دہرا کر اپنے درست اور پرعزم ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن درحقیقت وہ اپنی پسپائی کو تسلیم کر رہا ہوتا ہے۔ عمران خان بھی اگر این آر او دینے سے انکار کرتے رہیں گے اور دنیا کے کام معمول کے مطابق ہوتے رہیں گے تو اس سے کسی دوسرے کو تو فرق نہیں پڑے گا لیکن حکومت کی کارکرگی، فوکس اور شہرت متاثر ہوگی۔ حکومت اور وزیر اعظم کی ساری توجہ اس وقت ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے پر صرف ہونی چاہئے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ بابر اعوان بھی وزیر اعظم کے ان ’اناڑی مشیروں‘ میں شامل ہیں یا نہیں جن کا حوالہ چوہدری شجاعت حسین نے گزشتہ روز کے بیان میں دیا ہے تاہم عمران خان سے ملاقات کے بعد انہوں نے جو پیغام قوم کو پہنچایا ہے وہ یہی ہے کہ عمران خان کہتے ہیں کہ سب ادارے ایک پیج پر ہیں، این آر نہیں دوں گا اور احتساب کے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ نہ جانے عمران خان کو یہ اصرار بابر اعوان کے ذریعے ہی کیوں کرنا پڑا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو مذاق بنانے کی بجائے، وزیر اعظم اور ان کے ساتھی سنجیدگی سے قومی معاملات پر اپنی صلاحیتیں صرف کریں۔ ایک ہی بات کو بار بار دہرانے سے اس کی شدت میں تو اضافہ نہیں ہوتا لیکن یہ شبہ ضرور پیدا ہونے لگتا ہے کہ کہیں دال میں کچھ کالا نہ ہو۔

سازشی تھیوریوں سے آلودہ پاکستانی سیاست میں اس قسم کا شبہ کسی بھی حکومت کی صحت کے لئے اچھی اطلاع نہیں ہوتی۔ حکومت کی ساکھ بنائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ عمران خان اب وزیر اعظم کے منصب سے وابستہ وقار اور ذمہ داری کو سمجھیں اور خود کو صرف تحریک انصاف کا چئیرمین سمجھتے ہوئے ہمہ وقت اپنے ووٹر کو متاثر کرنے کے لئے بیان بازی سے گریز کریں ۔کیوں کہ وزیر اعظم کے طور پر وہ صرف تحریک انصاف کے کارکنوں کو جواب دہ نہیں ہیں بلکہ ملک کے 22 کروڑ عوام کو درپیش مشکلات اور پریشانیوں کو دور کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ اس ذمہ داری کو اسی وقت سمجھ سکیں گے جب وہ پارٹی کیڈر سے بلند ہو کر معاملات کو دیکھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی طرف مائل ہوں گے۔ آج ہی حویلیاں میں ہزارہ موٹر وے فیز 2 کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے خود کو ’دھرنا ایکسپرٹ‘ قرار دیا اور کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے تو دھرنا کے نام پر ’سرکس‘ کا اہتمام کیا تھا۔

وزیر اعظم کو باور کرنا چاہئے کہ دیگر مشکلات کے علاوہ مولانا فضل الرحمان کے احتجاج نے ان کی حکومت کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اب ملک کے تمام اہم لیڈر اگلے سال تک حکومت کی تبدیلی کی بات کررہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اگلے سال مڈ ٹرم انتخابات کو ملکی مسائل کا واحد حل قرار دیا ہے۔ عمران خان کے طرز حکومت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ جمہوری نظام میں آمرانہ طریقوں اور بنیادی آزادیوں کو پامال کرنے کا طریقہ تحریک انصاف کی حکومت کے دامن پر سیاہ داغ بن چکا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم اگر اپوزیشن کی ایک چھوٹی پارٹی کے ساتھ ’دھرنا میچ‘ کھیلنے اور جیتنے کی بات کرے گا تو اسے ملک کی بدقسمتی کے علاوہ یہ سمجھنا غلط نہیں ہو گا کہ انہیں اپنے منصب کی نزاکت اور ملک کو درپیش مشکلات کا اندازہ ہی نہیں ہے۔

ملک کو اس وقت معیشت، سفارت اور اسٹرٹیجک باریکیوں کو سمجھنے والے رہنما کی ضرورت ہے۔ 126 دن تک دھرنا دینے کا ماہر اگر ان صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کرسکتا تو وہ خود اپنے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔ یوں بھی دھرنے کو طول دینے کی جومہارت اسٹبلشمنٹ کے ایجنڈے کی تکمیل کا حصہ رہی ہو، جمہوریت میں اسے قابل قدر صلاحیت شمار نہیں کیا جا سکتا۔

چوہدری پرویز الہیٰ نے مولانا فضل الرحمان کی طرف سے حکومتی اتحاد میں دراڑ پڑنے کی خبر کی تردید اور مسلم لیگ (ق) کی طرف سے حکومت کی بدستور حمایت کا اعلان کرکے دراصل عمران خان کو سیاسی کھیل کو سمجھنے اور اسے دانشمندی سے کھیلنے کا ایک نیا موقع دیا ہے۔ عمران خان کو اب جان لینا چاہئے کہ سیاست کرکٹ کے میدان میں فاسٹ بولنگ کی مانند نہیں ہے جس میں بولر کا جوش اور ضد بعض اوقات اسے وکٹ دلوا دیتا ہے لیکن کوئی ماہر بیٹس مین لگاتار چھکوں سے اس کی تواضع بھی کرسکتا ہے۔ پر جوش بولر کرکٹ کے میدان میں پٹ جائے تو اس کا کپتان پیٹھ تھپکتے ہوئے اسے اگلے اوور کا انتظار کرنے کا حوصلہ دلواتا ہے۔ سیاست میں دوسرا اوور لینے کے لئے پہلے اوور میں ہی کچھ کر کے دکھانا پڑتا ہے۔

 تحریک انصاف اگر اپنے دور حکومت میں کچھ کرکے نہیں دکھائے گی تو دوسرا موقع ملنا تو دور اس کے تسلسل پر ہی سوال اٹھائے جاتے رہیں گے۔ خود اپنے بچاؤ میں مصروف رہنے والی کوئی بھی حکومت کچھ بھی کرنے کی اہل نہیں رہتی۔ عمران خان اور تحریک انصاف جتنی جلد یہ بات سمجھ لیں، اتنا ہی ان کے لئے بہتر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali