کسی ریاست میں طاقت کا سرچشمہ کون ہوتا ہے؟


ڈاکٹر خالد سہیل۔ نادرہ مہر نواز

ڈاکٹر صاحب۔ سلامت رہیں۔

آپ کی کتاب کا اگلا باب مذہب اور سیاست پر ہے۔ اس پر زیادہ بحث نہیں کروں گی۔ آپ نے بہت تفصیل سے پاکستان کی سیاست میں مذہب کی ملاوٹ پر لکھا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب اور سیاست دونوں انتہائی حساس موضوع ہیں۔ ان پر بحث اسی وقت ہو سکتی ہے جب دونوں فریق ایک ہی نکتہ نگاہ رکھتے ہوں۔ ذرا بھی اختلاف ہو تو لوگ لڑنے مرنے پراتر آتے ہیں۔ اور اگر ان دونوں کو ملا دیا جائے تو فریقین میں کسی بڑی جنگ کا خطرہ ہے۔

مذہب اور سیاست کی ایک ہی عمر ہے اور دونوں شروع ہی سے انسانی زندگیوں کا حصہ رہے ہیں۔ اور شروع ہی سے یہ لوگوں کے استحصال کرتے رہے ہیں۔ یہ سوال ذہنوں میں آتا ہے کہ مذہب لوگوں کو جوڑنے کا باعث ہے یا لوگوں کو توڑنے کا۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کا یہی دعوی ہے کہ ان کا مذہب محبت اور امن کا درس دیتا ہے۔ انسانوں سے محبت اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔ عسایئت میں ایک گال پر تھپڑ کھا کر بھی دوسرا گال آگے کرنے کا کہا جاتا ہے۔

اسلام کا پہلا سبق امن اور سلامتی کا ہے۔ ہندو ازم اور بدھ ازم کا تو بہت سنتے تھے کہ ان کی بنیاد آشتی اور شانتی پر ہے لیکن یہاں بھی بدترین تشدد اور نفرت دکھائی دی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی جنگیں مذہب ہی کے نام پر لڑی گئی ہیں۔ اور اتنی ہی جنگیں سیاست کی بنیاد پر ہویں۔ مسلئہ یہ ہے کہ نہ تو یہ دونوں ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں بالکل ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکتا ہے۔ دونوں کا ہدف طاقت ہے۔ دونوں لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ مخالفوں کے لئے ذہنوں میں نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ کبھی یہ ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں اور کبھی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتے ہیں۔

اب سے چند سالوں پہلے تک دنیا میں رواداری تھی۔ لوگ اختلاف کے باوجود مل جل کر رہتے تھے۔ لیکن اب حال ہی میں رویوں میں شدت اور برداشت میں کمی نظر آنے لگی۔

سوال۔

آپ انسانی نفسیات اور رویوں پر بہت علم رکھتے ہیں تو ان رویوں میں شدت کی بنیاد اور وجہ کیا ہے؟

آپ کے خیال میں کیا یہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کا رحجان ایک وقتی بگولہ ہے یا یہ آندھی میں تبدیل ہو کر دنیا کو گرد و غبار میں ڈبو سکتا ہے؟

اس سے بچنے کے لئے فوری طور پر کیا کیا جاسکتا ہے؟

زیادہ دور رس نتائج کے لئے کیا پلاننگ کی جانی چاہیے؟

پچھلے خط کے جواب میں آخر میں اپ نے پوچھا تھا کہ میں اپنے خطوں کو یاس نامے کیوں لکھتی ہوں۔ صحیح وجہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ بس اتنا ہے کہ میں جب کسی کشمکش میں ہوتی ہوں اور حل نہیں دھونڈ پاتی تو مجھے اداسی گھیر لیتی ہے۔

بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے

صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے

مخلص۔ نادرہ

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

۔ ۔ ۔

محترمہ مہر نواز صاحبہ! آپ بہت ظالم ہیں۔ بہت مشکل مشکل سوال پوچھتی ہیں۔ میں تو ادب اور انسانی نفسیات کا ادنیٰ سا طالب علم کوئی سیاست کا پروفیسر یا محقق نہیں ہوں کہ آپ کے پیچیدہ سوالوں کے تسلی بخش جواب دے سکوں۔

اس دنیا میں ایک وہ زمانہ تھا جب ملکوں اور ریاستوں پر بادشاہ حکومت کرتے تھے۔ جب کسی ملک کا بادشاہ مر جاتا تو اس کا شہزادہ بادشاہ بن جاتا اور کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا کیونکہ وہ حکومت کو وراثت کا حصہ سمجھتے تھے۔

اس دنیا میں ایک وہ دور تھا جب لوگ خداؤں پر یقین رکھتے تھے اور وہ خدا اس دنیا میں پیغمبر اور اوتار بھیجتے تھے جو انسانوں کے لیے الہامی کتابیں لاتے تھے اور ان کتابوں پر عمل کرنے کا درس دیتے تھے۔

اس دنیا میں ایک وہ دور تھا جب مذہبی رہنما بادشاہ کی مدح سرائی کرتے تھے اور انہیں عالیجاہ جہاں پناہ اور ظلِ سبحانی کہہ کر پکارتے تھے۔

لیکن پھر عوام و خواص میں سیاسی شعور پیدا ہوا۔

غریبوں نے بادشاہوں کو اور دانشوروں نے خداؤں کو للکارا اور فلسفیوں اور سیاسی رہنماؤں نے جمہوریت اور سیکولرزم کے تصورات پیش کیے۔

انہوں نے کہا کہ کرہِ ارض پر حکومت خداؤں بادشاہوں اور آمروں کی نہیں عوام کی ہوگی جو اپنی مرضی سے اپنے حاکم چنیں گے اور اگر وہ حاکم عوام کی خدمت نہیں کریں گے تو عوام انہیں ہٹا کر نئے حکمران چن لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مذہب انسانوں کا ذاتی مسئلہ ہے۔ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

ڈیر نادرہ!

پچھلی چند صدیوں میں جمہوریت اور سیکولرزم کے نظریات ساری دنیا میں مقبول ہو رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے چند دہائیاں پیشتر انسان کے بنیادی حقوق کا اعلان کیا ہے اور حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ان حقوق کو اپنے آئین اور روایت کا حصہ بنائیں۔

آپ نے شدت پسندی اور دہشت پسندی کے بارے میں میری رائے پوچھی ہے۔

دنیا کے وہ ممالک جہاں بادشاہوں فوجی جرنیلوں آمروں سرمایہ داروں اور مذہبی رہنماؤں کی حکومت ہے وہاں شدت پسندی اور دہشت پسندی زیادہ ہیں۔

دنیا کے وہ ممالک جہاں عوام کی حکومت ہے سب شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں وہاں امن اور آشتی اور سکون زیادہ ملتا ہے۔ کینیڈا۔ ناروے۔ ڈنمارک۔ سویڈن۔ نیوزی لینڈ ان کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔

جب میں امن کے نوبل انعام یافتہ رہنماؤں کی تقاریر پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ مختلف ممالک کے مختلف رہنماؤں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔

بنگلہ دیش کے لیڈر محمد یونس نے کہا کہ غربت امن کے لیے خطرہ ہے۔

ایران کی شیریں عبادی نہ کہا کہ جب تک عورتوں اور بچوں کو انسانی حقوق نہیں ملیں گے دیر پا امن قائم نہیں ہو سکتا۔

شمالی امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ اور جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا نے کہا جب تک اقلیتوں کو حقوق نہیں مل جاتے اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا۔

انسانی شعور کا ارتقا ایک سست رو عمل ہے۔

ایٹم بم بنانے کے بعد انسانیت ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔

ایک راستہ غصہ نفرت تلخی دشمنی اور جنگ کی طرف جاتا ہے جس پر چل کر انسانیت خانہ جنگی اور ایٹمی ہتھیاروں سے اجتماعی خود کشی کر سکتی ہے۔

دوسرا راستہ امن اور آشتی کی طرف جاتا ہے جہاں ایسی ریاستیں بنیں گی جہاں غریبوں عورتوں اور اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ مذہب ایک ذاتی عمل ہوگا اور انسان مل کر ایک پرامن معاشرہ قائم کریں گے۔

دنیا کے بہت سے ممالک نے اپنے تلخ تجربوں اور بہت سی قربانیوں سے

SEPARATION OF CHURCH AND STATE

کا سبق سیکھا ہے۔

مذہب اور سیاست دور دور رہیں تو دونوں خوش رہتے ہیں۔ ان کو ملا دیں تو ان میں جنگ شروع ہو جاتی ہے اور اس جنگ میں بہت سے معصوم بچے جوان اور بوڑھے قربان ہو جاتے ہیں۔

مخلص۔ خالد سہیل

17 نومبر 2019

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail