نوآبادیاتی عہد میں فوج کا معاشی ڈھانچہ


نومبر 1918 ء میں پہلی عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا اور معاشی منڈیوں پر قبضے کی اس جنگ کو 101 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ اس عالمی جنگ کا فوجی نکتہ نظر سے ہندوستان پر کیا اثر ہوا، یہ پاکستان کے موجودہ سیاسی ڈھانچے کو سمجھنے میں معاون ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے 1803 ء میں دہلی کے گرد و نواح میں فوجی قبضہ کرنے تک دیسی افراد کو فوج میں بھرتی کرنے کے لیے کوئی طے شدہ اُصول وضع نہیں تھے، ہر افسر اپنے علاقوں میں ضرورت کے مطابق مقامی جوانوں کو بھرتی کر لیا کرتا تھا۔ جیسے جیسے ان بھرتیوں میں توسیع ہوتی گئی تو فوج میں قواعد و ضوابط بھی بننے لگے، یوں رجمنٹوں کی بنیاد پڑی اور انھی رجمنٹوں کی بنیاد پر فوج میں بھرتیاں ہونے لگی۔ فوجیوں کے ساتھ طویل مدت کے لیے ملازمت کے معاہدے ہونے لگے اور ملازمت کی شرائط طے ہونا شروع ہوئیں۔ ان سب خصوصیات کی بنیاد پر مخصوص فوجی نسل یعنی مارشل ریس کا تصور آیا، یعنی باپ برطانوی فوج میں ہے تو بیٹے نے بھی یہی پیشہ اختیار کر لیا۔

یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں ضلع جہلم سے لے کر ضلع ہزارہ تک ایسے ہزاروں خاندان ہیں جو تین چار نسلوں سے یہی پیشہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ابتداء میں جب بمبئی، مدراس اور بنگال کی فوجیں الگ الگ بنیادوں پر تخلیق ہونے لگیں تو ان کے یہاں بھرتی کے اُصول دوسروں کی نسبت مختلف تھے۔ مثلاً بنگال سے متعلق جو فوج تھی اس میں اعلیٰ ذات کے ہندووں کو ترجیح دی جاتی تھی لیکن مدراس اور بمبئی کی فوجوں میں تمام ذات کے لوگ بھرتی کیے جاتے تھے۔

جنگ آزادی کے بعد سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ سب سے اہم تبدیلیاں فوج کی ساخت میں رونما ہوئیں۔ اب ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجی قبضے کے بعد ملکہ برطانیہ کی براہ راست حکومت قائم ہو چکی تھی اور ہندوستان پر بذریعہ برطانوی پارلیمنٹ حکومت کرنے کا آغاز ہوا۔ چنانچہ حکومت برطانیہ نے ہندوستانی فوج کی تنظیم کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا، یہ کمیشن اپنے سربراہ کے نام کی وجہ سے پیل کمیشن کے نام سے موسوم ہوا۔

میجر جنرل آئی پیل اس کمیشن کے چیئرمین تھے وہ اس زمانے میں حکومت برطانیہ کے وزیر جنگ تھے۔ کمیشن نے سفارش کی کہ فوج میں تمام ذاتوں، قوموں اور مذہب کے ماننے والوں کو ملے جلے تناسب کے ساتھ بھرتی کیا جائے اور بھرتی کے وقت جوان کی فوجی صلاحیتوں پر غور کرنا چاہیے۔ ہندوستانی فوج مختلف اقوام اور فرقوں پر مشتمل ہو اور ہر رجمنٹ میں مختلف قومیتیں اور ذاتیں ہونا چاہیں، حکومت برطانیہ کی جانب سے یہ سفارشات نافذ کر دی گئیں۔

آگے چل کر ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف لارڈ رابرٹ نے مختلف نسلوں اور ذاتوں کی فوجی اور غیر فوجی تخصیص کا نظریہ پیش کیا۔ رابرٹ نے اپنے نظریے میں کہا کہ بعض لوگ، قومیں اور نسلیں بہتر لڑاکا اور جنگ جو ثابت ہوتی ہیں، یہ افراد فوج میں بھرتی کے لیے آئیڈیل ہوتے ہیں۔ جنرل رابرٹ کے علاوہ دو اور تصورات بھی رائج ہوئے۔ ایک نظریہ تو مخصوص آب و ہوا میں پروان چڑھنے والی نسلوں سے متعلق ہے اور دوسرا آریائی فتوحات کا تاریخی نظریہ ہے۔ نوآبادیاتی فوج سے متعلق تراشے گئے نظریات دو ضرورتوں کی بنیاد پر تھے کہ خود غلام آبادی میں تفاوت اور فریق و تفریق کے بیج بوئے جائیں، کچھ کو برتر بنایا جائے کچھ کو کم تر اور دونوں میں ایک دوسرے کے خلاف غیر شعوری طور پر سرد اور گرم جنگ کی فضا پیدا کی جائے۔

پہلی عالمی جنگ کے آغاز میں جب برطانوی ایمپائر کو معلوم ہوا کہ فرانسیسی افواج کی تعداد برطانوی افواج سے کہیں زیادہ ہے تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ نے اپنی ہندوستانی نوآبادی کی طرف دیکھا، چنانچہ ہندوستانی فوج میں بھرتی کو تیز کیا گیا، ہندوستانی فوج کے کئی دستے منظم کر کے مغربی یورپ بھیجے گئے، ہندوستانی فوجی دستے مصر، خلیج فارس، فلسطین، ہانگ گانگ، سنگا پور بھی متعین کیے گئے۔ اب ان بھرتیوں میں مارشل ریس کے تصور کو پیش نظر رکھا گیا گویا بعض نسلیں مثلاً پٹھان، سکھ، راجپوت، مرہٹے، ڈوگرا، جاٹ، گورکھا شروع ہی سے بڑی نمایاں فوجی روایات کی حامل تھیں۔

ہندوستانی فوج میں نسلی طبقات کا وجود اس کا ایک نمایاں معاشرتی پہلو تھا اور برطانیہ نے اس نسلی طبقات کے باہمی فرق کو ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر نمایاں رکھا۔ ہندوستان کی نوآبادیاتی فوج میں نسلی برتری اور نسلی کم تری کا بھی خاصا خیال رکھا بلکہ ان نسلی تضادات کا خیال خود ہندوستانی افسر بہت زیادہ رکھتے تھے جو پنجاب کے جاگیردار معاشرے سے آئے ہوتے تھے۔ جب برطانوی فوجی افسروں کو کنگز کمیشن عطا کیا گیا تو ان کے ساتھ صرف انڈین میڈیکل سروس کے کچھ ہندوستانی افسروں یا بعض اعزازی ہندوستانی افسروں کو یہ کمیشن دیا گیا۔ ہندوستانی افسروں کو عموماً وائسرائے کمیشن دیا جاتا جنھیں وی۔ سی۔ او۔ ایس کہا جاتا تھا (پاکستان بننے کے بعد ان افسروں کو جے۔ سی او کہا جانے لگا) ۔

ان ہندوستانی افسروں کا سب سے اونچا عہدہ صوبیدار میجر ہوتا تھا اور ان افسروں سے نچلے طبقے کے فوجیوں کو نان کمیشنڈ افسرز کہا جاتا تھا۔ برطانوی فوجیوں کو عموماً ہندوستانیوں فوجیوں سے علیحدہ رکھا جاتا تھا اسی طرح تمام فوج کو سول آبادی سے علیحدہ رکھنے کے لیے ان کی الگ آبادیاں یعنی کنٹونمنٹس بنائی گئی تھیں۔

جنگ کے دوران جب جرمنوں کے ہاتھوں پٹائی شدت اختیار کر گئی اور اس شدت کے سامنے زار کی فوجیں پسپا ہونا شروع ہوگئیں تو فوجی بھرتی کے لیے ہندوستان پر دباؤ بڑھنے لگا اور اس کا نمایاں اظہار پنجاب میں ہوا۔ اب تک پنجاب کے زمین دار اور روسا فوجی بھرتی میں خاصی مدد دے چکے تھے لیکن اب مزید فوجی بھرتی کا مطلب زرعی معیشت کا دیوالیہ تھا کیونکہ اب بھی کئی دیہات ایسے تھے جن میں کاشت کاری کے لیے مرد میسر نہ رہے تھے چنانچہ رنگروٹ بھرتی کے لیے پنجاب میں انگریزوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اس کے باوجود لوگوں کو پکڑ دھکڑ کر زبردستی فوج میں بھرتی کر لیا جاتا تھا۔ چنانچہ پہلی عالمی جنگ شروع ہونے کے وقت ہندوستانی فوج کی تعداد ایک لاکھ 52 ہزار 496 تھی اس میں تقریباً ایک لاکھ پنجابی تھے لیکن جنگ کے دوران ہندوستانی فوج کی تعداد پندرہ لاکھ تک پہنچ گئی اور ان میں پنجابیوں کی تعداد چار لاکھ تک تھی۔

پنجاب میں اپریل 1917 ء میں فوج میں علاقائی بھرتی کا نظام جاری ہوا جس میں ہر علاقے کا بھرتی کا کوٹہ مقرر کر دیا گیا، جنگ کے دوران 74 نئی ذاتوں سے بھرتی لی گئی ان میں ایسی ذات کے لوگ بھی شامل تھے جنھیں فوج میں لینا بند کر دیا تھا، ان میں سے 22 ذاتوں کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔ فوجی بھرتی کی اس تحریک میں مقامی لیڈروں اور سرکاری افسران نے معاونت کی اور زیادہ بھرتی کرانے والے افسران کو انعام اور زمینیں الاٹ کی جاتی تھیں۔

فوج کی ماہیت یعنی سروس میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں جنھیں اصلاحات کا نام دیا گیا۔ جنگ کے دوران جو بھرتی کے طریقہ کار میں تبدیلیاں ہوئیں یہ پہلی عالمی جنگ کے بعد بھی جاری رہیں اور پھر فوج کا ایک مستقل جزو بن گئیں۔ ان تبدیلیوں کے تین ذرائع تھے۔ اول: جنگ کے وقت کی ضرورت کے تحت فوج کو ڈھالنا، دوم: بہتر تنخواہوں اور سہولیات کے تحت فوج میں بھرتی کی کوشش، سوم: فوجی حالات کو تکنیکی ترقی کے ساتھ ملانے کی کوشش۔

ایک سپاہی کے نکتہ نظر سے تنخواہ ایک بنیادی چیز تھی جنگ کے دوران ایک سپاہی کی بنیادی تنخواہ 11 روپے ماہانہ تھی، یورپ میں لڑنے والے فوجیوں کو 25 فیصد بونس دیا جاتا تھا، تنخواہوں میں اضافہ کے ساتھ فوج میں مفت راشن تقسیم کرنے کا بھی آغاز کیا گیا اور فوجیوں کو کپڑے بھی مفت دیے جانے لگے، چھاؤنیوں میں فوجیوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے سکولز کھولنے کے لیے فنڈز مختص کیے گئے۔

عالمی جنگ کے دوران ہندوستانیوں فوجیوں کی بہادری اور دلیری پر انعامات اور تمغہ جات سے نوازا گیا۔ پہلا ہندوستانی سپاہی جس نے وکٹوریہ کراس حاصل کیا وہ ضلع جہلم کا جمعدار خداداد خان تھا۔ اس کے علاوہ ملٹری کراس (22 فوجیوں کو) ، آرڈر آف برٹش انڈیا ( 125 ) ، انڈین آرڈر آف میرٹ ( 374 ) ، انڈین ڈسٹنگویشڈ سروس میڈل ( 1137 ) ، انڈین میریٹوریس سروس میڈلز ( 513 ) بھی دیے گئے۔

ان انعامات و اعزازات کے ساتھ منسلک معاشی فوائد بھی جنگ کے دوران بڑھا دیے گئے۔ زیادہ اونچے انعامات و اعزازات کے ساتھ خصوصی پنشنیں اور زرعی زمینوں کی بھی الاٹمنٹ کی جانے لگی۔ زمین کی الاٹمنٹوں کے فیصلے کے طفیل ایک اندازے کے مطابق جنگ کے اختتام پر 4 لاکھ 20 ہزار ایکڑ اراضی وائسرائے کمیشنڈ اور دیگر افسران میں تقسیم کی گئی جن کی تعداد 5906 تھی۔ وائسرائے کمیشن کے خاص خاص 200 فوجی افسروں کو خصوصی جاگیریں بھی تقسیم کی گئیں اور ساتھ ہی ان جاگیروں پر مالیہ بھی معاف کر دیا گیا اور مالیہ کی یہ معافی تین نسلوں تک جاری رہی۔

کُل ہندوستانی فوج کے لیے 14000 خصوصی پنشنیں تھیں یہ جنگی پنشن تھی جو بالعموم 10 روپے ماہانہ ہوتی تھی اور یہ فوجی کے مرنے کے بعد اس کی اگلی نسل کو بھی ملتی رہتی تھی یہی نہیں بلکہ وائسرائے کمیشن میں تعینات افسروں کو پنجاب کی حکومت نے ایک لاکھ 80 ہزار ایکڑ نہری زمین انعام یافتہ فوجیوں میں تقسیم کرنے کے لیے مختص کی۔ ایک افسر کو 50 ایکڑ اراضی دی گئی اور دوسرے فوجیوں کو 25 ایکڑ نہری زمین الاٹ کی گئی۔ اس کے علاوہ نوآبادیاتی فوج کی مزید حوصلہ افزائی کے لیے کئی اور اقدامات بھی کیے۔

مثلاً ہندوستانی فوج کے سات فوجی نمائندوں کو وائسرائے کونسل میں شامل کر لیا گیا ان میں سے تین فوجی نمائندون کا تعلق پنجاب سے تھا جن کے نام درج ذیل ہیں : ریٹائرڈ صوبیدار میجر عجب خان، سردار بہادر آئی او ایم، ضلع راولپنڈی کا ایک پٹھان فوجی (نام نامعلوم) ۔ پہلی عالمی جنگ میں برطانوی ایمپائر کو ہندوستان کی دولت سے 14 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈز ادا کیے گئے یہ جنگی تاوان تھا جو ہندوستان نے برطانوی استعمار کو دیا۔

یہ سمجھنا کہ نوآبادیاتی عہد میں برطانوی سامراج نے فقط مذہبی بنیادوں پر ہی تقسیم کرو اور حکومت کی پالیسی اختیار کی، غلط ہے۔ جب اقوام کو غلام بنایا جاتا ہے تو ان میں خاص قسم کی خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیں لیکن سب سے اہم خرابی جو دور غلامی میں جنم لیتی ہے وہ حاکموں پر بے پناہ انحصار کا جذبہ ہوتا ہے، غیر ملکی حاکموں اور دیسی لوگوں میں تعلیم، ترقی، تہذیب میں جتنا زیادہ فرق ہوگا اُتنا ہی مقامی لوگوں کا غیر ملکی حکمرانوں پر انحصار بھی بڑھتا جائے گا اور غیر شعوری طور پر ان بیرونی حاکموں کو ایک قسم کی ماورائی طاقت سمجھا جانے لگے گا۔

اسی لیے جب مقامی لوگ ان بیرونی حاکموں کے تخلیق کردہ نظام حکومت کا کل پرزہ بننے لگتے ہیں تو ابتدائی ایام میں وہ صرف ان کے شگر گزار ہی نہیں ہوتے بلکہ کمال وفاداری اور اطاعت کا اظہار کرتے ہیں۔ نوآبادیاتی عہد کا یہ فوجی ڈھانچہ ہندوستان کی سیاست پر طاقت کی بنیاد پر گرفت رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).