بچے اور ہوم ورک


ہوم ورک کے تصور سے ہی اکثر ایک بیزاری اور بوجھ محسوس ہوتا ہے۔

زمانہ طالب علمی میں بھی اور آ ج بھی جب کہ مجھے خود بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے قریباً 25 سال ہونے کو آئے ہیں اس سے اختلاف ہی رہا کیوں کہ جو نام نہاد ہوم ورک دیا جاتا ہے چاہے وہ روزانہ کی بنیاد پر ہو ویک اینڈ پر یا سردی گرمی کی سالانہ چھٹی پر۔ ہمیشہ میرے لیے اس سوچ کا باعث رہا کہ یہ ایک بوجھ سے کم نہیں ہوتا جو بچوں، والدین اور ٹیوٹر پر ڈالا جاتا ہے۔

اس سوچ کی وجہ اس ہوم ورک کی۔ نوعیت ہے۔ اکثر یہ ہوم ورک رایٹنگ، ٹیکسٹ کاپی کے کام کو دوبارہ ہوم ورک کاپی میں کرنا وغیرہ۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو صرف چھپائی اور کچھ نہیں ہوتا ہے۔

مجھے ان ٹیچرز سے بھی بہت ہمدردی ہے جن پر یہ اضافی بوجھ ڈالا ہوا ہے ایک ٹیچر کو کلاس میں پڑھانے کے علاؤہ یہ فکر زیادہ دامن گیر ہوتی ہے کہ ابھی ڈائری میں ہوم ورک بھی لکھنا یا لکھوانا۔ وہ کس طرح پڑھائی کا وہ معیار برقرار رکھ پائے گی۔ دوسری طرف وہ بچے چاہے وہ بڑی کلاس کے ہوں یا چھوٹی کچھ سیکھنے یا اسکول میں کرایے گئے کام کو دہرانے یا یاد کرنے کی بجائے اس فکر میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ابھی ہوم ورک کرنا ہے۔

اس سب کا قصوروار سب سے پہلے موجودہ اور عمومی تعلیمی نظام ہے جہاں کچھ سکھانے کے بجائے بچوں کو رٹو طوطا بنایا جارہا ہے نمبروں کی دوڑ میں ایک ریس لگی ہوئی ہے۔

دوسری طرف وہ والدین بھی ہیں جن کی تسلی ہی نہیں ہوتی اگر بچے کو ہوم ورک نہ ملے۔ ان کے خیال میں چھٹی کے دن بھی بچہ کو اتنا کام ملے کہ وہ ٹیوشن یا گھر میں مصروف رہے اور وہ ڈسٹرب نہ ہوں۔

اس ہوم ورک کی وجہ سے ہی ٹیوشن کا رجحان لازم ہوچکا ہے آ ج ایک پڑھی لکھی ماں کے پاس بھی اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اپنے بچے کو دیا گیا تمام ہوم ورک کراسکے لہٰذا کم و بیش ہر بچے کا ٹیوشن جانا ضروری ہوچکا ہے۔

ایک استاد اور ایک ماں ہونے کی حیثیت سے میری یہ خواہش اور تجویز ہے کہ ہوم ورک دیں ضرور دیں لیکن وہ جسے بچہ بوجھ نہ محسوس کرے، وہ گھر جاکر دیکھے کہ آ ج اس نے کلاس میں کیا پڑھا، ایک چھوٹے بچے کو یہ شوق ہو کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ وہ سب کچھ شئیر کرے جو آ ج اسکول میں ٹیچر نے بتایا اور سکھایا۔

وہ صرف ایک چھاپنے والی مشین نہ بن جائے۔

ایسا ہوم ورک ہو جو نہ والدین کے لئے اضافی بوجھ ہو۔ اور نہ ہی اس استاد کے لیے جس کو پڑھانے کے علاوہ چیکنگ بھی کرنی ہے۔

کیا آ پ میری رائے سے اتفاق کرتے ہیں

صائمہ خان، کراچی
Latest posts by صائمہ خان، کراچی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).