معدوم ہوتی لسانی، ثقافتی اورمذہبی میراث


\"aliپاکستان میں اقلیتوں کا تعین سیاسی طور پر کیا گیا ہے جس میں اقلیتوں کو صرف غیر مسلموں تک ہی محدود کیا گیا ہے۔ اقلیتوں کی ایسی محدود تعریف سے لسانی، نسلی، ثقافتی اور مسلمانوں کے مختلف ذیلی عقائد سے تعلق رکھنے والے گروہوں کو کسی قسم کا قانونی اور آئینی تحفظ حاصل نہ ہو سکا جس کے نتیجے میں ان میں سے کئی ایک معدوم ہو چکے ہیں اور کئی معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد ستر سے بھی زیادہ ہے جن میں چند ایک کو چھوڑ کر باقی زبانیں بولنے والوں کی تعداد روز بروز گھٹتی جارہی ہے جو ان زبانوں کی زوال پزیری کی نشاندہی کرتی ہے۔ ویسے توہر پڑاؤ یا پندہ میل کے بعد لوگوں کی بولی میں فرق آ جاتا ہے لیکن آمدورفت اور میل ملاپ میں جغرافیائی دشواریوں کی وجہ سے پہاڑوں اور صحراؤں میں بولی جانے والی زبانیںاور ثقافت دونوں ہی ہر پڑاؤ پر یکسر بدل جاتے ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان کے شمال کے پہاڑوں کی وادیاں اور جنوب کے صحرا ئی میدان لسانی، ثقافتی اور نسلی گروہوں کے سب سے بڑے مسکن سمجھے جاتے ہیں۔

کسی بھی ملک میں بلا تفریق مذہب ،ذات اور نسل یکساں سلوک ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ لیکن بعض گروہ اپنی کسی بھی مخصوص لسانی، ثقافتی اور نسلی شناخت کی وجہ سے خصوصی توجہ کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ اگر وہ اس ملک میں معدوم ہو گئے تو ان کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے لسانی، ثقافتی اور مذہبی گروہ موجود ہیں اگر وہ معدوم ہوگئے تو صرف اسی مٹی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کا صفحہ ہستی سے مکمل مٹ جانے کا خطرہ ہے۔

گلگت بلتستان میں حال ہی میں معدوم ہونے والی زبان ڈوماکی اب شائد تاریخ کی کتابوں میں بھی نہ ملے کیونکہ اس کے بارے میں نہ زیادہ لکھا گیا اور نہ سنا گیا۔اس زبان کے بولنے والے پیشہ کے اعتبار سے بھی موسیقی بجانے والےایک عاجز گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس \"kailash-valley-1-snaprgroup\"زبان کے آخری بولنے والوں کا تعلق زیادہ تراثنا عشری شیعہ اور اسمٰعیلی فرقوں سے تھا جن میں یہ لوگ سماجی اکیلے پن کا شکار رہے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ میل ملاپ اور رشتے اور بندھن سے ان کے اپنے ہی اہل عقیدہ بھی گریزاں ہیں۔ ان لوگوں کے کسب یعنی فن موسیقی کو معاشرے میں فوقیت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے ان لوگوں نے اس پیشے کو چھوڑ دیا اور اس کے ساتھ جڑی دوسری علامات بھی ختم کر دیں جس میں ان کی اپنی زبان ڈوماکی بھی شامل تھی۔ اس زبان کو جب اس کے بولنے والوں نے ترک کیا تو معدوم ہو گئی اور آج صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ اس زبان کے مٹنے کا پاکستان کے کسی ادارے یا یونیورسٹی کو شاید ہی پتہ چلا ہو لیکن یورپ ، امریکہ اور جاپان کے لسانیات پر تحقیق کرنے والے اداروں کے لئے یہ واقعہ ایک المیہ سے کم نہیں اور ان کو تشویش بھی ہے۔

چترال کے کیلاش اور ان کا قدیم مذہب معدوم ہونے کے قریب ہے۔ اثار قدیمہ بتاتے ہیں کہ گلگت، چترال اور افغانستان تک اس مذہب کے پیروکار تھے جو اب نہیں رہے۔ کیلاش کے چند بچ جانے والے اس مذہب کے پیروکار ہر دور میں اپنے عقیدے کو بچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ افغانستان میں جب ان کے مسکن کو نورستان بنا دیا تو صرف کیلاش کی وادی میں اس عقیدے کے پیروکاروں کی ایک چھوٹی سی آبادی رہ گئی ہے۔ ان میں سے بھی بہت سے لوگوں اب اس مذہب سے منسلک نہیں رہے۔ رہی سہی کسر گزشتہ سال کے سیلاب کے بعد مذہبی تنظیموں نے تعمیر نو کے نام پر پوری کردی۔ نیا پختون خواہ بنانے والوں نے ان کے گھروں کی تعمیر نو کونظر انداز کرکے ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جس سے وہ ان کے مذہب کو تبدیل کرانے والوں کے لئے آسان نشانہ بن گئے۔ اگر ریاست کے طرف سے کیلاشی لوگوں کے معاشی، معاشرتی اور سماجی اور عقیدے کا تحفظ نہ کیا تو بہت جلد یہ گروہ بھی تاریخ کا حصہ بن جائیگا۔

بلتستان میں بسنے والے ایک صوفی سلسلہ نوربخشیہ سے وابستہ ہیں جو پانچ سو سالوں سے اپنی اصلی حالت میں ان پہاڑوں میں موجود ہے۔ \"zikriritual\"اس صوفی سلسلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں صوفیاء کا تصوف ، لداخ کے بودھوں جیسی عاجزی اور روایتی بلتیوں کی فاقہ مستی کا امتزاج ان کو دنیا بھر میں ممتاز بنا دیتا ہے۔ لیکن سعودی عرب سے پھیلنے والے وہابیت اور ایران کے انقلاب کے بعد کے اثرات نے بلتستان کے پہاڑوں میں سینکڑون سالوں سے محفوظ اس قدیم صوفی طریقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مقرر کئے جانے والے محمدخراسانی دراصل محمد علی بلتی نور بخشی مسلک سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم تھا جو کراچی میں دوران حصول تعلیم اپنے مسلک سے تائب ہوۓ تھے ۔ یہ صرف ایک محمد علی کی بات نہیں اس علاقے کی غربت سے فائدہ اٹھا کر ایسے کئی نوجوانوں کو اس فرقے سے متنفر کرا دیا گیا ہے۔ بلتستان میں چند ہزار نفوس پر مشتمل یہ مسلک انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔

  سکھر بیراج پر سادھو بیلہ میں بنائی ایک ہندو قبر یا سمادھی دیکھ کر وادی سندھ کے ان غیر مسلم عقائد کا نشان ملتا ہے جن میں مردوں کو دفنایا کرتے ہیں ۔ آج سندھ میں بھیل قبیلے کا ایک شخص جب اپنے کسی عزیز کومرنے کے بعد حیدرآباد کے نذدیک دفناتا ہے تو آس پاس رہنے والے مسلمان اکھٹے ہوکر اس مردے کو قبر سے نکال دیتے ہیں ۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ مردے دفنانا صرف مسلمانوں کا ہی استحقاق ہے اور کسی ہندو کا ایسا کرنا جرم ہے۔ سندھ کے صحرا میں رہنے والے یہاں کے پشتنی باشندوں کو ہندوؤں میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ وہ رامائن اور گیتا پر عمل پیرا ہندو نہیں بلکہ یہاں کی مقامی عقائد کے ماننے والے مختلف لوگ تھے۔ تاریخ کا جبر یہ ہے کہ آج یہاں سے ایسے تمام عقائد کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے جو ہندوستان کے دیگر ہندوؤں سے مختلف تھے اور اب سب ہندو کہلاتے ہیں یا مسلمان ہو چکے ہیں۔

بلوچستان کے مکران میں بسنے والے ذکری اپنے مخصوص عقائد رکھتے ہیں جو عام مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ گو کہ ذکری عقیدے سے \"kalash_women_traditional_clothing\"تعلق رکھنے والوں کے سندھ ، افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں بھی ہونے کے دعوے بھی ہیں لیکن ذکریوں کے عقائد اور ان کی تعداد کے متعلق کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں جس کی وجہ سے ان کے متعلق کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔ ایک طرف ایران اور دوسری طرف پاکستان میں مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں ذکری مذہب کے ماننے والے زیر عتاب تو تھے ہی اب بلوچ علٰحیدگی پسندوں کی جانب سے بھی ان کے ایک مذہبی پیشوا کو قتل کرکے ان کے مشکلات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ان کو تحفظ نہ دیا گیا تو یہ فرقہ اپنے مرکز یعنی بلوچستان سے ختم ہوجائیگا اس کے بعد صفحہ ہستی سے بھی مٹ جانے کا خطرہ ہے۔

یہ چند مثالیں تو صرف نمونے کے طور پر پیش کی گئی ہیں اگر پاکستان میں لسانی، مذہبی ، ثقافتی اور نسلی گروہوں کا عمیق جائزہ لیا جاۓ تو صورت حال انتہائی دگرگوں معلوم ہوتی ہے۔ ہماری زمیں پر موجود لسانی، ثقافتی اور مذہبی گروہوں کا تحفظ ہماری قومی اور بین الاقوامی زمہ داری ہے اور ان کی حفاظت کے لئے ہر قسم کے اقدامات اٹھانا ریاست اور حکومتوں کا فریضہ بھی ۔ اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر اپنی ذمہ داریوں کو صرف چند مذہبی اور سیاسی گروہوں کے حقوق تک محدود رکھنا حکومتوں اور ریاست کی جانب سے اپنے فرائض سے روگردانی کے مترادف ہے۔

لسانی، ثقافتی اور مذہبی حقیقتیں ہماری میراث ہیں اگر ان کا تحفظ نہ کیا گیا تو یہ صرف تاریخ کی کتابوں میں ہی ملیں گی ۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments