باپ کی سگی بیٹی سے زیادتی: اب ہمیں مر جانا چاہئے


تحریر کا عنوان تھوڑا جذباتی ہے مگر پوری تحریر پڑھنے سے قبل کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔ معاشرہ جہاں معاشی، تعلیمی، تنظیمی، حکومتی اور خاندانی مسائل کا شکار ہے وہیں کئی مراحل پر اخلاقیات میں اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ گزشتہ روز پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر جو کہ حلقہ احباب میں بہت قریبی بھی ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ایسی خبر سے آگاہ کیا کہ سننے کے بعد کافی دیر تک سکتہ طاری رہا۔

اس بات سے سب آگاہ ہیں کہ انسان کسی نا کسی صغیرہ یا کبیرہ گناہ عیب یا غلطیوں سے آلودہ ہوتا رہتا اور اللہ پاک نے اس کے لئے توبہ کا دروازہ بھی ہمیشہ کھلا رکھا مگر کچھ گناہ اور واقعات ایسے ہوتے جو نہ تو سن کے برداشت ہوتے اور نہ ذہن تسلیم کرتا۔ میرے خیال سے شیطان بذات خود پناہ مانگتا ہوگا۔

ضلع بھکر کی تحصیل کلورکوٹ کے موضع غلاماں میں ایک ماں نے پولیس کو رپورٹ درج کروائی کے اس کے شوہر نے اس کی بیٹی یعنی اپنی سگی بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ ایف آئی آر میں لکھا گیا کہ ملزم بیٹی کو فصل کاٹنے کے بحانے لے گیا اور جہاں گھنی فصلیں تھیں وہاں اسلحے کی نوک پر زنا بالجبر کیا۔ اور بیٹی کی عمر 12 سال ہے۔ اور اس نے گواہ اپنے بھائیوں یعنی لڑکی کے ماموں کو بنایا۔

یہ ایف آئی آر پڑھی تو انسان ہونے پر شرمندگی ہونے لگی۔ اپنے تکبر کی وجہ سے جنت سے نکالے جانے والا شیطان کیا انسان کو اس حد تک گمراہ کر سکتا ہے کہ وہ اپنی ہوس کا نشانہ اپنی سگی بیٹی کو بنائے۔ سوال جنم لینے لگے، ایف آئی آر کو کئی بار پڑھا۔ اور پھر اپنی تسلی کے لئے کچھ متعلقہ پولیس افسر ز سے رابطہ کیا۔

اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ ملزم نے اس ایف آئی آر کے بعد خود کو پولیس کے حوالے کیا اور بتایا کہ میرے نام کچھ زمین ہے جو میری بیوی اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر وہ زمین ہتھیانا چاہتی ہے اور اس کے بھائی مجھ سے میری بیٹی کا رشتہ بھی طلب کر رہے تھے جس کا میں نے انکار کیا تھا۔ ان وجوہات کی بنیاد پر یہ سازش کی گئی۔

وہ افسر بھی تمام واقعہ بتاتے ہوئے اطمینان محسوس کر رہا تھا کہ یہ واقعی سازش ہے ورنہ عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ ایک سگا باپ اپنی ہی بیٹی کو وہ بھی اسلحہ کی نوک پر کھیتوں میں لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میڈیکل رپورٹ میں بھی شواہد نہیں ملے۔ اور ان لوگوں کے درمیان صلح بھی ہو گئی۔

اب بات یہ ہے کہ اگرعقل تسلیم نہیں کرتی کہ ایک سگا باپ ایسا ظلم کرے وہاں ایک ماں کس دماغ میں ایسی سازش تیار کر سکتی ہے؟ کیا ایک ماں اپنی ہی بیٹی پہ اس قدر بیہودہ الزامات لگا کے اپنی اور اپنے بھائیوں کی خواہشات پورا کر سکتی ہے؟

مانا کہ خاندانوں میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں، گھر میں میاں بیوی بیٹے بیٹوں میں بھی تصادم آ جاتے کیا ہم بحثیت مسلمان اور انسان اتنے گرتے جارہے ہیں کہ محرم اور نامحرم رشتوں کا احترام بھول جائیں؟ کیا لالچ ہمیں اتنا اندھا کر دیتا کہ ہم انسانیت کی منزل سے گر جاتے؟

اس کیس کا پہلو کوئی بھی ہو ایک طرف بیٹی کی ماں کا مؤقف اور دوسری جانب باپ کا، مگر اس کا معاشرے پہ کیا اثر پڑ سکتا ہے اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ ہم ابھی تک معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو ختم کرنے کے لئے کچھ نہیں کر پائے تھے کہ اب ایسے واقعات کو جھیلنا ہوگا؟

ہماری معاشرے میں پھیلتی عدم برداشت چاہے وہ مالی ہو، ذہنی ہو یا جنسی کیسے کم ہوگی؟ کیا صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی ذمہ دار ہیں؟ یہ ادارے ثبوت کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ اس کیس میں بتایا گیا کہ فریقین میں صلح بھی ہو چکی مگر اس الزام کے ساتھ وہ باپ اپنے گھر میں کیسے داخل ہو کے بیٹی کا سامنا کرے گا یا بیٹی اپنے باپ کو کیا منہ دیکھائے گی۔

کیا بحثیت قوم، انسان، مسلمان ہم سب کی ذمہ داری نہیں کہ ممکنہ حدود تک ایسے تمام واقعات کی روک تھام کے لئے کچھ کریں؟ میری تحریریں تو ایسے ہر ایک واقعہ پہ جاری رہیں گی، آپ بھی فیصلہ کر لیں کہ آپ نے کیا کردار ادا کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).