کیا آپ موبا یٔل فون کے نشے میں مبتلا ہیں؟


مطلع صاف اور موسم خوشگوار تھا۔ گوجرخان اور دینہ کے درمیان ترکہی کی پہاڑیوں پر اُگے شیشم، کیکر، سرخ بیری او رپلاہی کے درخت موسمِ خزاں کی رُخصتی پر اپنے سر سبز پتے جھڑ جانے پر ٹنڈ منڈ اور اداس کھڑے تھے۔ موسم سرما کی آمد آمد تھی اور جنوب کی جانب سے چلنے والی باد صمیم قدرے خنک تھی، مگر ان پہاڑیوں کے بیچ سانپ کی طرح بل کھاتی ہوی گرینڈ ٹرنک (Grand Trunk Road) جی ٹی روڈ پر سبک رفتاری سے چلتی ہو ئی ایک کار کے اندر کا موسم بہت سہانا تھا۔

جس میں ڈر أیونگ سیٹ پر بیٹھی بینش کے ونڈ سکرین پر آویزاں موبائل فون کی سکرین کی دُودھیا روشنی اس کے حسین چہرے کو مزید خُوبصورت بنا رہی تھی کیونکہ اس کی نظریں وقفے وقفے سے گاڑی کی ونڈ سکرین پر آویزاں موبایٔل فون کی سکرین کا دیدار کر لیتی تھیں۔ وہ غروبِ آفتاب کے سمے راولپنڈی سے میر پور کے لئے اکیلی روانہ ہوئی تھی۔ اس نے نیلی جینز پر سُرخ رنگ کی اونی سویٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔ اور اس کا دوپٹے وغیرہ سے بے نیاز جسم کسی فرانسیسی خوشبو سے معمور تھا۔

ائیر کنڈیشنر کا خود کار نظام درجہ حرارت کو 28 ڈگری سینٹی گریڈ پر ایڈجسٹ کر چکا تھا اوراس کی نو خیز جوانی کی حرارت سال 2018 میں بنی ہنڈا سوک (Honda Civic) کار کے اندرونی ماحول کو مخمور کر رہی تھی۔ سی ڈی پلیئر (CD Player) کی میموری سلاٹ (Memory Slot) میں نصب شُدہ فلیش ڈرائیو (Flash Drive) میں مغربی و مشرقی گلو کاروں کے پانچ ہزار کے قریب نغمات موجود تھے۔ اس وقت نصرت فتح علی خان اپنے ہمنواؤں کے ساتھ اپنی جادوئی آواز میں پرنم الہّ آبادی کی غزل:۔

’تمہیں دِل لگی بھول جانی پڑے گی، محبت کی راہوں میں آ کر تو دیکھو ”کو قوّالی کی طرز پر گا رہے تھے۔ مگر ڈرائیونگ پر بیٹھی بینش موسیقی سے بے نیاز موبائل فون پر پچھلے تیس منٹ سے محوِ گفتگو تھی۔ کالے رنگ کی کار 80 یا 90 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جی ٹی روڈ پر فراٹے بھرتے ہوئے گویا مدہوشی کے عالم میں راولپنڈی سے پورے ایک سوکلو میٹر پر جی ٹی روڈ پر واقع دینہ کا ایک چھوٹا سا قصبہ گویا پلک جھپکنے میں عبورکر گئی۔

جہلم داخل ہونے سے قبل تمباکو فیکٹری پہنچ کر اس کو احساس ہوا کہ وہ فون پر باتیں کرتے ہوئے دینہ بائی پاس سے میر پور روڈ پر مُڑنے کی بجائے پندرہ کلو میٹر آگے آ چکی ہے۔ یہ احساس اس کو اس وقت ہوا جب اس کی کال سگنل کمزور ہونے کی وجہ سے کٹ گئی۔ اب اگلے یوُ ٹرن سے اس نے واپس راولپنڈی کی طرف مُڑنا تھا جو جادہ بائی پاس کے پاس تھا۔ لیکن اس نے ٹیکسٹ میسج کر کے کال کٹنے کی وجہ بھی بتانی تھی۔ لڑکی نے یو ٹرن (U Turn) لیتے ہوئے میسج کرنا شروع کر دیا۔

” سوری سگنل نہ ہونے کی وجہ سے کال کٹ گئی تھی۔ “ عین اسی وقت اور پلک جھپکنے میں بینش کی ہنڈا سوک لاہور کی سمت سے آتے ہوئے 22 وہیلر ٹریلر کے نیچے جا چکی تھی۔ شام آٹھ بجے جہلم سی۔ ایم۔ ایچ ( (C ombined Military Hospital) کے ٹراما سنٹر میں پڑی بیس سالہ بینش کی سانسیں اس کی زندگی کی آخری شام کو الودع کہہ رہی تھی۔ او ر تباہ شدہ ہنڈا سوک کی ڈرائیونگ سیٹ کے نیچے پڑا موبائل فون ملسل وایبریٹ کیے جا رہا تھا۔

یہ واقعہ ان چھ لاکھ ساٹھ ہزار حادثات میں سے ایک ہے جو دنیا میں ایک سال میں رونما ہوتے ہیں۔ کیا زندگی جیسی قیمتی شے کو چند لمحات کی آسودگی اور تفریح طبع کے لیے داؤ پر لگایا جا سکتا ہے؟ کیا یہ بہت ہی گھاٹے کا سودا نہیں؟ ان چھہ لاکھ ساٹھ ہزار حادثات کے نتیجے میں دنیا بھر میں تین لاکھ نوے ہزار قیمتی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق دنیا میں بڑی شاھراووں پر چلنے والی ہر ایک سو گاڑیوں میں سے دس گاڑیوں کے ڈرایور مسلسل فون استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں ایسے حادثات کی تعداد سولہ ہزار سالانہ کے قریب ہے۔ دنیا میں اس وقت تقریبا ًتین ارب اور تیس کر وڑ لوگ سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔ اوسطاً ایک شخص 24 گھنٹے میں سے دو گھنٹے موبائل فون استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں چھ کروڑ لوگ سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔ گویا اگرہر پاکستانی اوسطاً دو گھنٹے موبائل فون استعمال کرنے کے لئے وقف کر دیتا ہے یوں پاکستانی قوم ایک سال میں پورا ایک ماہ فون پر مصروف رہتی ہے۔

گویا پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشی طور پر بدحال، قرضوں کے نیچے دبی ہوئی قوم جس کا تعلیمی معیار% 45 سے اُوپر نہیں ہے، اتنی فارغ ہے کہ سال کے 365 میں سے 30 دن موبائل فون استعمال کرتی ہے۔ اور اس میں بچے بوڑھے، جوان مرد و خواتین شامل ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم لوگ ٹیکنالوجی منکیز (Technology Monkeys) بنتے جا رہے ہیں؟ ایک سروے کے مطابق ایشیا میں سمارٹ فون کا ضروری، تعمیری اوربا مقصد استعمال صرف بیس فیصد ( 20 %) ہے۔ باقیماندہ اسی فیصد ( 80 %) وقت میں موبائل فون سے مندرجہ ذیل کام لئے جاتے ہیں :۔

۔ دوسروں کی بھیجی ہوئی تصویریں، کیپشن اور ویڈیوز اپنے رابطے میں موجود تمام لوگوں کو آگے بھیجنا۔ ۔

دفتری اوقات میں پرائیویٹ کال ملا کر فارغ دوستوں سے لمبی لمبی باتیں کرنا۔ جن کے درمیان اکثر یہ سنا ئی دیتا ہے ”باقی سب ٹھیک ہے؟ “۔ اور ”اور سناؤ“، ۔

اپنے گھر کے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ کراپنے ہی اہلِ خانہ سے باتیں کرنے کی بجائے فیس بُک پر جانے انجانے افراد کو فرینڈ ریکؤسٹ (Friend Request) بھیجنا۔ ج

اپنے گھر میں موجود اہلِ خانہ کو ٹیکسٹ میسج بھیج کر اپنے آنے، جانے یا کھانا تیار ہونے کی اطلاع دینا۔

اس کے علاوہ واقف کار خواتین کو گڈ مارننگ (Good morning) ، گُڈ ایوننگ (Good Evening) اور دعاؤں اور خیر سگالی کے منفرد پیغامات بھیج کر متاثر کرنے کی کوشش کرنا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جدید اور ترقی یافتہ معاشروں میں ایسی حرکات ہراساں (Harrassment) کرنے کے زمرے میں آتی ہیں اور ان کی سزا 3 سے 6 ماہ جیل تک ہو سکتی ہے۔

موٹر سائیکل، کار اور بڑی گاڑیاں چلاتے ہوئے ٹیکسٹ میسج اور لمبی لمبی کالیں کرنا۔

اس کے علاوہ ایک سروے کے مطابق سن بلوغت میں داخل ہونے والے نوجوانوں کی اکثریت موبایٔل فون کو یو ٹیوب، پورن سایٔٹس ور جنسی ہیجان خیزی کے لیے استعمال کرنے کی عادی ہو چکی ہے۔ جو، ان کی نفسیاتی اور جسمانی صحت کے لیے مضر ہے۔

خلاصہ تحریر یہ ہے کہ اپنی ہییٔت میں کو ئی ایجاد اچھی یا بری نہیں ہوتی۔ ۔ اس کا استعمال اس کو فایٔدہ مند یا نقصان دہ بناتا ہے۔ اسی طرح سیل فون (Cell Phone) بھی ایک کارآمد ایجاد ہے۔ کال اور ویڈیو کال سے لیکر، راستے کی رہنمایٔ، بلز کی ادایٔگی، موسم کا احوال، لغت، انسیٔکلوپیڈیا، ٹرین، ہوٹل اور ہوا ئی جہاز کی بکنگ اور کیمرے تک سب موبیٔل فون کے فوایٔد ہیں۔ گویا دنیا بھر کی معلومات کا ایک بحر اوقیانوس آپ کی جیب میں ہے، مگر ٹیکنالوجی کے ٖفایٔدہ منداستعمال کے ضابطے حکومتیں طے کرتی ہیں۔

اور اس پر عمل درآمد یقینی بناتی ہیں۔ اگر ہم نے آنے والی نسلوں کو ٹیکنالوجی منکی Technology Monkey بننے سے بچانا ہے اور ان کا مستقبل محفوظ کرنا ہے تو اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جاے، سرکار کو اس بارے عوام کہ اگاھی اور مزید سخت قانون سازی ا ور میں بطور والدین اور بطور اساتذہ اپنی نٔی نسل کو لے کر سمارٹ فون کے ضمن میں تعمیری اور فایٔدہ مند استعمال کی تربیت کرنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).