اچھی لڑکی کی نئی ڈیفینیشن ”جنت کی چڑیا“


پہلی کہانی!

پرانے زمانے کی بات ہے ایک لڑکی ایک سرکاری ملازم کے گھر پیدا ہوئی۔ یہ جب کی بات ہے جب پاکستان بھی نومولود تھا، اس وقت وہ بھی نومولود تھی۔ اس کی اماں نے اس کے ابا کو کبھی بھی اپنی پوسٹنگ کسی بڑے شہر میں نہ کروانے دی۔ چونکہ چھوٹے شہروں میں اور قصبوں میں رشوت جسے وہ ”آمدنی“ کہا کرتے تھے اس کے مواقع زیادہ تھے۔ بچی جنگلوں اور باغوں میں کھیلتی جوانی کی دہلیز کو جوں ہی پہنچی ابا اماں نے اسکول سے ہٹا کے گھر پہ بیٹھا لیا۔ گھر کا ملازم بھی فارغ کر دیا۔ غریب صبح سے رات تک گھر کا ایک ایک کام کرتی جب رات کے کھانے کے بعد وہ کمرے میں جاتی تو بستر پہ گرتے ہی سو جاتی۔

اس غریب کی دنیا باورچی خانے سے شروع ہو کر باورچی خانے پہ ہی ختم ہو جاتی تھی۔

وہ اس دن اس لمحے کو کوستی جس دن وہ جوان ہوئی۔

وہ خواب میں اسکول دیکھتی اور روتی ہوئی صبح اٹھتی جب اس کے ابا اس کے نومولود بہن بھائیوں میں سے کسی کو اسے تھما کے جاتے۔ وہ لوگ جس گھر میں رہتے وہ کسی زمانے میں ہندؤں کا تعمیر کردہ تھا اس کا باتھ روم گھر سے دور تھا ہر بار باتھ روم جانے کے لئے گھر سے لوٹا لے کہ دو، چار منٹ کی چہل قدمی کر نی پڑتی، اس لڑکی کا دن میں چار، پانچ بار گھر سے نکلنے کا وہی واحد وقت ہوتا، وہ چار منٹ کی چہل قدمی کو دس منٹ تک لے جاتی۔

اس زمانے میں نہ ہی گھر میں ٹیلی ویژن تھا نہ ہی اس کے پاس گھر سے کہیں اور جانے کی اجازت۔ جوان ہونے کے بعد وہ لڑکی صرف ایک بار اپنے اماں ابا کے ساتھ کسی دور پرے کے رشتے دار کے گھر گئے، جب وہ جانے کے لیے تیار ہوئی تو ابا نے لڑکی کو نفرت بھری نظروں سے دیکھا اور لڑکی کی ماں سے کہا اس کو برقہ پہناؤ۔ اب چونکہ کہ وہ زندگی میں پہلی بار کہیں گھومنے پھرنے کے لیے نکلی تھی کم عمر بھی تھی۔ چہرے سے نقاب ہٹا کر نظارہ دیکھنے لگی اس ہی لمحے اس کے ابا نے غصے میں دانت پیستے ہوئے زور سے دھاڑا منہ ڈھانکو، بیچاری نے گھبرا کر چہرے پہ نقاب ڈالا اور جیسے ہی اگلا قدم اٹھایا ریل کی پٹری سے ٹکرا کر زمین پر گر گئی، اور جب وہ اپنے عزیز کے گھر پہنچی تو اس کا چہرہ پیشانی سے نکلنے والی خون اور آنسوں سے بھیگا ہوا تھا۔ وہ روتی ہوئی گھر آی اور فیصلہ کیا اب کہیں نہیں جاؤں گی۔

لڑکی کے والدین نے کبھی بھی گھر میں باتھ روم بنانے کا نہ سوچا، کبھی یہ بھی نہ سوچا کہ اس گھٹے ہوے ماحول سے فرار کے لیے کہیں وہ اس پچھواڑے والے راستے کا انتخاب ہی نہ کر لے۔

لیکن نا ہی ابا اماں کو خیال آیا نا ہی اس لڑکی نے کبھی ایسا سوچا۔ ایک روز اچانک اس کا ایک جگہ رشتہ لگا اور وہ شادی کر کے ہمیشہ کے لیے اس گھر سے چلی گئی۔

دوسری کہانی!

نئے زمانے کی کہانی، اس بچی نے اپنی آنکھیں جب کھولیں تو اس وقت نئے ملینیم کی آمد تھی، یہ لڑکی سائبر ایج میں پیدا ہوئی۔ اس کی پیدائش کے زمانے میں موبائل پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔ سرکاری ملازمت کرنے والے کی بیٹی جوائنٹ فیملی میں پل رہی تھی۔ جہاں ”پر دادی“ بھی بقید حیات تھیں۔

بچی ناظم آباد کے ایک پرانے اپارٹمنٹ میں رہتی، یوں سمجھ لیں جیسے پرانے زمانے کی چال نما عمارت صرف فرق یہ تھا کہ اس کا باتھ روم گھر کے اندر تھا۔ لڑکی کے ابا جنت کے طوطے تھے۔ گھر میں شدید گھٹا ہوا ماحول، نا ٹیلیویژن نہ ریڈیو۔ چھوٹی بچیوں کے سر پہ بھی نگوں والے اسکارف پہناے جاتے، بچی کو تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نا تھی۔ بچی کے گھر پہ شیطانی نظام کا دور تک سایا تک نہ تھا۔

لیکن بچی ہندوستانی، پاکستانی، اور انگریزی فلموں اور گانوں کی انسائیکلوپیڈیا، چھوٹی سی عمر میں ہی اپنی بھنووں کو تراشا، چہرے پر ڈھیر ساری فیراینڈ لولی لگا کے گوری بننے کے سارے طریقوں سے آشنا تھی۔ لڑکی پہ جوانی اس تیزی سے چڑہی کہ سب ہی حیران رہ گئے۔ محلے کے تمام لڑکیوں سے اس کی اچھی سلام دعا، دو تین سے اکٹھے چکر، لیکن ابا کے سامنے معصوم جیسے وہ اس دنیا کا کچھ بھی نہ جانتی ہو۔

میٹرک ہوتے ہی اسمارٹ فون ابا نے تحفے میں دیا۔ ان کو یقین تھا کہ گھر میں انٹرنیٹ نہیں ہے۔ اس لیے فون پاک رہے گا، لڑکی پڑوسیوں کے انٹرنیٹ سے بنا ڈائیلاگ والی انگریزی فلموں کے مزے لیا کرتی۔ لیکن ابا کو پھر بھی یقین تھا کہ بچی ”جنت کی چڑیا“ ہے۔ لڑکی ایک ایک رانگ نمبر کو پورا وقت دیتی پھر اپنے نئے دوست کے قصے اپنی پھوپھو اور اماں کو سناتیں۔ لڑکوں کے رانگ نمبر پر ہمشیہ اس کی پھو پھو کہا کرتیں کہ دیکھو تمہاری ماڈرن کزن تمہارا نمبر بانٹنے پہ لگی ہوئی ہے۔ وہ دونون نیک بیبیاں کبھی بھی رانگ نمبر پر بات کرنے پہ لڑکی کی گوشمالی نہ کرتیں۔ کیوں ان کی بچی تو معصوم ہے، اور گھر پہ نا کیبل نہ ہی انٹرنیٹ۔

لڑکی رنگین زندگی گزارتے منہ پہ نقاب ڈال کہ ایک روز خاموشی سے گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ دوسری کہانی بھی ختم۔

یہ دونوں کہانیاں سچی ہیں، یہ کردار زندہ ہیں، اور ہمارے اردگرد ہی موجود ہیں۔ دراصل آج ان کہانیوں کو یوں بیان کرنے کا دل اس لیے چاہ گیا کیونکہ کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک عزیز دوست نے کہا کہ آپ کی شادی کے ابھی تک نا ہونے کی وجہ یہ ہے کے آپ جیسی ہیں ویسی ہی سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں اصل زندگی میں آپ جیسے بھی ہوں لیکن سوشل میڈیا پر آپ کو ”جنت کی چڑیا“ ہی نظر آنا چاہیے۔ اگر آپ کامیاب زندگی گزارنے کی خواہش مند ہیں تو پہلے ایک ایسا ڈی پی لگائیں جس میں سر پے اسکارف ہو، دوئم اسٹیٹس پے صرف فرحت ہاشمی کے بیان شئر کیا کریں پھر دیکھیں کیسے آپ کے لئے رشتوں کی بارش ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).