3حصول انصاف میں قانونی پیچیدگیاں


گذشتہ سے پیوستہ دونوں کالم کا مضمون ان قوانین کے تعارف اور بنیادی مسائل پر تھا جو ہر شہری کو حصول انصاف میں درپش آتے ہیں۔ پاکستان کے نظام انصاف پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ اتنے وسیع اور اہم موضوع کو چند تحریروں میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ ان تحریروں کا مقصد صرف عوامی شعور ہے۔ نظام انصاف کسی بھی ریاست کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتا ہے۔ انصاف کی اہمیت کو اس بات سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر نظریہ، تمام مذاہب اور سیکولر معاشروں الغرض دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک جتنے میں ممالک ہیں، دنیا میں بسنے والے جتنے بھی انسان ہیں سبھی متفق ہیں کہ سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔

نا انصافی کسی کے ساتھ بھی نہ ہو۔ اسلام میں تو انصاف کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر عام شہری کو ایک چادر ملتی ہے تو وقت کے خلیفہ کو بھی ایک ہی چادر ملنی چاہیے۔ اگر عام شہری بھی خلیفہ وقت کے خلاف قاضی سے شکایت کر دے تو اسے بھی قاضی کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ مگر پاکستان کے عدالتی نظام کی کمزوریوں کا اندازہ حالیہ فیصلوں سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ گو کہ چیف جسٹس پاکستان بہت کوشش کر رہے ہیں کہ عدالتی نظام میں کچھ بہتری لائی جاسکے۔ اسی کوشش کی ایک کڑی ماڈل کورٹس اور آن لائن مقدمات کی سماعت ہے۔ اس موضوع پر لکھے گذشتہ دو کالم مسائل کی نشاندہی پر مشتمل تھے جبکہ اس کالم میں کچھ تجاویز پیش کرنے کی کوشش ہوگی۔

پہلی تجویز کرمنل کیسز میں درپیش مسائل کے حوالے سے ہے۔ چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ صاحب سے گزارش ہے کہ ماڈل کورٹس کے ساتھ ساتھ اگر ایسے سسٹم یا محکمہ کی بنیاد بھی رکھی جاتی جو پولیس کے ماتحت ہو نہ ہی حکومت کا زیادہ اثرورسوخ ہو اور وہ سسٹم یا محکمہ آزادانہ طور جرائم کی انکوائری کرے۔ اس سسٹم یا محکمہ کے زیادہ اختیارات عدلیہ کے پاس ہونے چاہیے اور یہ کرمنل کیسز کی تحقیقات کا کام کرے۔ جہاں بھی کوئی جرم ہوجائے اس سسٹم یا محکمہ سے جڑی ٹیم فوری طور وہاں پہنچ کر تحقیقات شروع کردے۔ تاکہ مجرم شک کی بنیاد پر بری نہ ہو سکے۔ کیونکہ کرمنل کیسز میں معمولی شک کا فائدہ بھی مجرم کو جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں معمولی شک تو کیا جان بوجھ کر شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں معمولی شک کی بنیاد پر عادی مجرموں کا بری ہوجانا جرائم میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔

دوسری تجویز عوام میں قانون کا شعور دلانے کے متعلق ہے۔ جب تک عام شہری کو قانون کا شعور نہیں ہوگا وہ کبھی بھی قانون کا احترام نہیں کرے گا اور نہ ہی قانون پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا۔ عام شہریوں کے لئے قومی سطح پر ہر شہر میں ورکشاپ یا کانفرنسز کا انعقاد ہونا چاہیے۔ ان کانفرنسز یا ورکشاپ کے ذریعے شہریوں کو بنیادی ضروری قوانین کے حوالے سے تربیت دی جائے۔ تاکہ شہری خود بھی کسی جرم کے دوران ان اہم ثبوتوں کو ضائع ہونے سے بچائیں اور اگر انکوائری کے لئے ٹیم پہنچے تو جرم کے مقام پر موجود لوگ انکوائری ٹیم کے ساتھ مکمل تعاون کرسکیں۔ اس طرح مجرموں کو پکڑنے اور عدالت کے ذریعے سزا دلانے میں بہت آسانی ہو۔ اور جو بیگناہ ہیں انہیں سزا سے بچایا جاسکے گا۔ جبکہ اصل مجرم کو کڑی سے کڑی سزا دی جاسکے۔ یہ سب تب ممکن ہوگا جب عام شہری کو قانونی پیچیدگیوں کے حوالے سے بنیادی علم ہوگا۔

تیسری تجویز میٹرک اور ایف ایس سی لیول تک بنیادی قوانین کا کوئی مضمون نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ جس طرح بچے دیگر مضامین کے متعلق کچھ نہ کچھ علم رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہر طالب علم جو قانون کے شعبہ بھی منسلک نہ بھی ہو اپنے ملکی قوانین کی ابجد کا ضروری علم رکھتا ہو۔ ہر شہری کو اپنے ملکی قوانین کے متعلق بنیادی علم ہونا چاہیے تبھی قانون پر عمل بھی ممکن ہوسکے گا اور عام شہری قانون کا احترام بھی کرے گا۔

اگر ان تین تجاویز پر ہی غور کیا جائے تو کسی حد تک بہتری آسکتی ہے۔ جب تک قانون کا علم نہیں ہوگا اور عدلیہ سستا اور فوری انصاف فراہم نہیں کرے گی تب تک یہی کہا جاتا رہے گا کہ عدلیہ نے کوئی انصاف فراہم نہیں کرنا۔ اور عدالتوں میں جانے کو وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھا جانے لگے گا۔ جناب چیف جسٹس پاکستان آصف سعید سے گزارش ہے کہ وہ پورے ملک کے عدالتی نظام کو بہتر بنائیں اور عام شہری کو عدالتوں کے غیرجانبدار ہونے اور قانون سب کی نظر میں برابر ہے کی یقین دہانی کرانا ہوگی۔

جو لوگ برسوں سے انصاف کے لئے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں انہیں خود سننا پڑے گا۔ جب تک انصاف کا بول بالا نہیں ہوتا تب تک ملک میں جرائم کم نہیں ہوں گے۔ قانون کی بالادستی ہر ریاست کی اہم ضرورت ہے اور پاکستان میں یہ ضرورت ناگزیر بن چکی ہے۔ عدالتیں سیاسی کیسز کی سماعت تو چھٹی والے دن بھی کرلیتی ہیں جبکہ عام شہریوں کو صرف تاریخ پر تاریخ دے کر ذلیل کیا جاتا ہے۔ ملک میں اگر حقیقی معنوں میں امن قائم کرنا ہے تو عدالتوں کو اپنا مثبت اور غیرجانبدارانہ کردار کرنا ہوگا اور عام شہری کو یقین دلانا ہوگا کہ کمزور اور طاقتور سب قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ ختم شد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).