نواز شریف کا سیاسی مخمصہ


نواز شریف کا علاج کی غرض سے باہر جانا یقینی تھا۔ کیونکہ یہ ان کی خواہش بھی تھی اور بیماری کی ضرورت بھی کہ وہ اپنا مکمل علاج باہر ہی سے کروائیں۔ اس کے لیے ان کو عدالتی وحکومتی ریلیف درکار تھا جو سخت مشکلات کے باوجود ان کو مل گیا ہے اور اب وہ علاج کی غرض سے ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ اگرچہ شریف فیملی کے بقول وہ بہت جلد ملک میں واپس آئیں گے، لیکن فوری طور پر ان کی واپسی کا امکان بہت کمزور نظر آتا ہے اور ا س کی وجہ یقینی طو رپر ان کی بگڑتی ہوئی صحت ہے۔

ایک دلیل یہ دی جاتی رہی ہے کہ خود نواز شریف اپنا علاج ملک سے باہر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ لیکن والدہ اور بیٹی مریم سمیت دیگر خاندان کے افراد کے سامنے ان کو باہر علاج کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ لیکن ان کا باہر علاج کروانے کے فیصلہ نے یقینی طو رپر ان کے اس موقف کو کمزور کیا کہ وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور یہیں بیٹھ کر اپنا علاج کروانے کو ترجیح دیں گے۔

اس بات سے قطع نظر کہ نواز شریف کب واپس آتے ہیں لیکن ان کی اور ان کی جماعت کی مجموعی سیاست کے مستقبل کا تعلق یقینا ان واپسی سے جڑا ہوا ہے۔ کیونکہ وہ جتنا دیر باہر رہیں گے ان کا سیاسی بیانیہ بھی کمزور ہوگا اور یہ تاثر بھی عام ہوگا کہ وہ پھر کسی ڈیل کے تحت ہی ملک سے باہر گئے ہیں۔ پہلے ہی نواز شریف اور مریم نواز کی پچھلے کئی ماہ سے زبان بندی نے ظاہر کیا ہے کہ پس پردہ کچھ نہ کچھ تو ہے جس نے ان کی زبان بندی کی ہوئی ہے۔

مسئلہ محض نواز شریف یا مریم نواز کا ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن میں جو قوتیں اب زیادہ بالادست ہیں وہ بھی نواز شریف کے سخت گیر بیانیہ سے کافی دور نظر آتے ہیں۔ جو لوگ نواز شریف کے کیمپ میں تھے وہ بھی حالات کی مجبوری کے باعث اب شہباز شریف کیمپ یعنی مصالحت کی سیاست کا حصہ بن گئے ہیں۔ نواز شریف کے سخت گیر حامی اب مسلم لیگ کی موجودہ قیادت سے فاصلے پرہیں اور ان کو لگتا ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ یرغمالی کا شکار ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب نواز شریف اور مریم نواز دونوں نے ہی اپنے سیاسی بیانیہ پر مصالحت پسندی دکھائی ہے تو ان کی جماعت کیسے اس پر کھل کر کھڑی ہوتی اور خاص طور پر مسلم لیگ ن کی جو پارلیمانی افراد سے جڑی سیاست ہے اس پر شہباز شریف کا کنٹرول ہے اور ان میں سے بیشتر لوگ نواز شریف اور مریم نواز کی اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ کی پالیسی کے حامی نہیں۔ اس لیے بظاہر ایسے لگ رہا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی غیر فعالیت کے بعد پارٹی عملی طو رپر شہباز شریف کے کنٹرول میں ہوگی۔ یہ سب جانتے ہیں کہ شہباز شریف اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ پہلے بھی لاڈلے تھے اور اب بھی جو ریلیف نواز شریف کو ملا ہے اس میں شہباز شریف کی پس پردہ مصالحت کار سے جڑی سیاست کا حصہ ہے جس سے پارٹی کے اندر اور باہر کے لوگ اچھی طرح آگاہ ہیں۔

مسلم لیگ ن کا اگلا سیاسی مستقبل کسی بڑے سیاسی ٹکراؤ یا کسی بڑی مزاحمتی تحریک کے برعکس ہوگا۔ پیپلز پارٹی، جے یو آئی سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ شہباز شریف کی موجودگی میں مسلم لیگ ن کسی بڑی مزاحمتی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔ یعنی مسلم لیگ ن کی مستقبل کی سیاست ہومیوپیتھک ہوگی جو طاقت کے مراکز کے لیے کوئی بڑی رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی۔ ویسے بھی پچھلے چند ماہ سے نواز شریف کے بیانیہ کی سیاست بہت پیچھے چلی گئی ہے اور اس میں کافی حد تک خود نواز شریف کی مصلحت پسندی اور اپنے فیصلوں کا بھی حصہ ہے۔

اس لیے یہ کہنا کہ جو کچھ ہوا ہے یا ہورہا ہے اس میں نواز شریف اور مریم کی سیاسی رضا مندی نہیں تو درست سوچ نہیں ہوگی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ نواز شریف اور مریم نواز کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا کہ ان کی اس بیانیہ کی تحریک میں ان کی اپنی جماعت اور ووٹر وہ شدت نہیں رکھتے جو ان کو درکار ہے۔

جو لوگ اس خوش فہمی کا شکا رتھے کہ نواز شریف جمہوریت، سول بالادستی، قانون کی حکمرانی، اسٹیبلیشمنٹ کو کنٹرول کرنے یا اسے جمہوریت کا استعارہ قرار دے رہے تھے وہ پہلے بھی غلطی پر تھے اور اب بھی وہ غلطی پر ہیں۔ نواز شریف کی مجموعی سیاست اسٹیبلیشمنٹ کے مرہون منت یا ان سے ذاتی مسائل پر ٹکراؤ کا نتیجہ تھا۔ پچھلے چند ماہ کے رویوں یا فیصلوں سے بھی ظاہر ہوگیا کہ نواز شریف ایسی کسی لڑائی کا حصہ نہیں تھے اور جو کچھ نظر بھی آیا وہ جذباتیت پر مبنی سیاست تھی۔

اس طرح یہ سمجھنا بھی غلطی ہوگی کہ نواز شریف باہر جاکر کوئی بڑی سیاسی سرگرمی یا وہ پارٹی کے لیے کوئی فعالیت کا کردار ادا کرسکیں گے۔ ویسے بھی شہباز شریف نے جو مصالحت کا کارڈ کھیلا ہے اس میں یقینی طور پر خود کو بالادست کرکے ہی سیاسی کھیل کو انتظامی بنیاد پر سجاکر کچھ گارنٹیاں بھی شامل ہیں۔ نواز شریف کو ریلیف سیاسی تنہائی میں نہیں دیا گیا ہے۔

لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ووٹ بینک پر کنٹرول آج بھی نواز شریف کا ہے اور اس بات کا احساس خود شہباز شریف کو بھی ہے۔ اس لیے نواز شریف کے سیاسی کارڈ کو استعمال کرکے ہی شہباز شریف سیاست آگے بڑھے گی اور خود مریم نواز کا کردار بھی فوری طور پر کسی بڑی مہم جوئی کا حصہ نہیں ہوگا۔ یہ بھی دیکھنے کو ملے گا جو لوگ مریم نواز کے ساتھ بہت زیادہ سیاسی میدان میں دکھائی دیتے تھے ان کو بھی آہستہ آہستہ پارٹی میں پیچھے کی طرف دکھیلا جائے گا۔ سیاست بنیادی طو رپر بڑی بے رحم ہوتی ہے اور اس کے سینے میں کوئی دل نہیں ہوتا۔ طاقت کے کھیل میں رشتوں سے زیادہ اقتدار کی اہمیت ہوتی ہے۔ ویسے بھی مسلم لیگ ن کبھی بھی سیاسی مزاحمت کی جماعت نہیں رہی اور نہ ہی یہ مستقبل کی حکمت عملی ہے۔

عمران خان کا بھی بڑا چیلنج نواز شریف کی ملکی سیاست میں فعالیت کے کردار سے تھا کیونکہ وہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ نواز شریف ہی عملا مسلم لیگ ن کی طاقت ہیں۔ اس لیے اگر نواز شریف لمبے عرصے کے لیے باہر رہتے ہیں یا وہاں خاموشی اختیار کرتے ہیں تو یہ بات تو ہر سطح پر حکومت کے حق میں جائے گی اور مسلم لیگ کو کمز ور کرنے کا سبب بنے گی۔ نواز شریف کی یقینی کوشش ہے کہ وہ اپنے مقابلے میں اپنی بیٹی کو پارٹی کا بڑا جانشین کے طور پر پیش کرسکیں اور بہت سے لوگ یہ دل سے سمجھتے بھی ہیں کہ مسلم لیگ ن میں ووٹروں پر اگر کوئی شخصیت شریف خاندان سے اپنا اثر دکھاسکتی ہے تو وہ مریم نواز ہیں۔ مگر مریم نواز کی حالیہ خاموشی نے بھی ان بہت سے لوگوں کو مایوس کیا جو ان کو ایک بڑے لیڈر کے طور پردیکھنے کی کوشش کررہے تھے۔

لیکن ایک بات طے ہے کہ نواز شریف اگر جلدی صحت یاب ہوتے ہیں تووہ بہت آسانی سے اپنی سیاسی پوزیشن سے دست بردار نہیں ہوں گے اور نہ ہی اپنی بیٹی کی سیاست پر سمجھوتہ کریں گے۔ لیکن یہ معاملہ براہ راست ان کی صحت یابی سے جڑ ا ہوا ہے اور اگر وہ جلدی نہ آئے اور اپنی زبان بندی پر ایسے ہی قائم رہتے ہیں تو چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل بھی سکتی ہیں۔ اس لیے نواز شریف کو اس تاثر کی نفی کرنے کے لیے ان کا سیاسی کردار ختم ہوگیا ہے یا وہ کسی خاص ڈیل کے تحت باہر گئے ہیں ان کو جلدی واپس بھی آنا ہوگا اور سیاسی کمانڈ کو خود سنبھالنا ہوگا، مگر اس کے فوری امکانات کمزور نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اگر شہباز شریف کا کنٹرو ل کمزور کرنا ہے تو اس کے لیے مریم نواز کو خود ایک بڑے متبادل قیادت کے طور پر پیش کرکے میدان میں اترنا ہوگا، وگرنہ وہ بھی آہستہ آہستہ غیر اہم ہوسکتی ہیں۔

یہ جو کچھ مسلم لیگ ن یا نواز شریف یا مریم نواز کے ساتھ ہوا ہے یا ہورہا ہے اس کی ایک بڑی ذمہ داری خود ان پر بھی عائد ہوتی ہے جو ٹکراؤ کی پالیسی میں اپنی داخلی کمزوریوں کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایک بڑی سیاسی و جمہوری لڑائی کی بنیاد آپ کا سیاسی و اخلاقی معیار یا اصو ل بھی ہوتا ہے۔ لیکن جب آپ داخلی محاذ پر کمزور ہوں اور اپ کی جماعت کا داخلی نظام بھی طاقت کی سیاست سے جڑا ہو تو ایسے میں کسی بڑی سطح پر جمہوری جدوجہد کرنا اور طاقت کے مراکز کے ساتھ ٹکرانا گھاٹے کا سودا بھی بن جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).