مطالعہ کا لپکا لگ جائے تو نہ دماغ تھکتا ہے اور نہ دل بھرتاہے


میرا معمول ہے کہ فجر کی آذان کے ساتھ بستر استراحت چھوڑ دیتا ہوں رب العالمین کے ہاں سربسجود ہونے کے بعد سات بجے سے لے کر ساڑھے نو یا کبھی کبھار دس بج جاتے ہیں آن لائن اوبر ٹیکسی کرتا ہوں۔ اوبر سروس کرنا بھی ایک خوشگوار تجربہ ہے اوبر میں سفر کرنے والوں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہوتی ہے دوران سفر گپ کے دوران بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے انسان ہر وقت سیکھنے کی جستجو میں رہتا ہے اور سیکھ لینے ہی میں عظمت ہوتی ہے۔ دس بجے کے بعدادارے کی طرف سے دی گئی صحافتی بیٹ میں خبروں کے حصول کے لیے مشقت کرتا ہوں۔ مطالعہ کا مجھے ایسا لپکا ہے کہ سفر ہو یا حضر کتاب میرے ساتھ ہوتی ہے۔

پرلے روز کی بات ہے کہ ایم ایچ صدر سے رائڈ جمال نامی آدمی نے بُک کروائی، دی گئی لوکیشن پر پہنچا تو کندھے کے ساتھ لیپ ٹاپ لٹکائے نوجوان کے ہاتھ میں کتاب دکھائی دی، گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولنے کے بعد شائستگی سے سلام کیا گیا، فرنٹ سیٹ پر براجمان ہونے کے بعد کہا گیا کہ چلیں سر مجھے فیض آباد ڈراپ کر دیں۔

نوجوان نے احسان دانش مرحوم کی کتاب ”جہان دانش“ کھولی اور انہماک سے مطالعہ کرنے لگا۔ جی ایچ کیو کے سامنے سے جیسے ہی مری روڈ کی طرف مڑا میں نے نوجوان سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ دو طرفہ تعارف ہوا۔ میرا نام جمال ہے اور پاک آرمی میں کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوں وسطی پنجاب سے تعلق ہے مقابلے کا امتحان پاس کر کے سول سروس میں آنا چاہتا تھا مگر قسمت اس طرف لے آئی خاندان میں پہلا شخص ہوں جو فوج کی نوکری میں آیا۔

میں گویا ہوا کہ آج کا نوجوان کرکٹ، میوزک اور ہاتھ میں موبائل لیے سوشل میڈیا پر اتنا مصروف ہوتا ہے کہ انھیں مطالعہ کی فرصت ہی نہیں ملتی اور آپ کے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر حیراں ہوا ہوں آپ صاحب مطالعہ لگتے ہیں مطالعہ کے کیا فوائد ہیں کون کون سی کتابیں پڑھتے ہیں کتنی دیر مطالعہ کرتے ہیں۔

کپیٹن جمال ہنسا اور بولا کہ ایک وقت میں آپ نے تین سوال پوچھ لیے تو صاحب مطالعہ کے فوائد ہی فوائد ہیں نقصانات کوئی بھی نہیں۔ اگر آپ کا تعلق لکھنے والوں میں سے ہے تو مطالعہ کے بغیر تحریر میں نکھار پیدا نہیں ہوتا اگر بولنے والوں میں سے ہے تو مطالعہ کے بغیر بولنے میں سنوار نہیں آتا۔ رہی بات کہ میں کتنی دیر مطالعہ کرتا ہوں تو میں کہتا ہوں عمر بھر صاحب وہ شخص کبھی بھی عالم نہیں ہو سکتا جو زندگی کے کسی مرحلے میں خود کو مطالعہ سے بے نیاز سمجھ لے آج آپ کو جو بھی نظر آتا ہے وہ خود کو علامہ سمجھتا ہے مگر جب وہ گفتگو کرتا ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ وہ علامہ ہے یا الاہمہ۔

ایک بات اور کہ مطالعہ کا لپکا لگ جائے تو نہ دماغ تھکتا ہے اور نہ دل بھرتا ہے، اچھی کتاب سے لے اخبار کے اُس صفحہ تک جس میں نانبائی روٹی لپیٹ کر دیتا ہے ایک نظر دیکھنے کو جی کرتا ہے مطالعہ کا ذوق نہ ہو تو سامنے رکھی بہترین کتاب کو دیکھ کر سر درد کرنے لگتا ہے اور جی متلانا شروع ہو جاتا ہے۔ مطالعہ کا ذوق نہ ہو تو آراستہ پیراستہ کمرہ میز کے اوپر لمیپ اور آرام دہ کرسی سے بھی استعفادہ نہیں اُٹھا سکتا صاحب مطالعہ تو گلی کی نُکڑ پر لگے بلب کے نیچے بھی کھڑا ہو کر مطالعہ کی تسکین لے سکتا ہے۔

آپ کا مطالعہ جتنا وسیع ہو گا اتنا ہی مطالعہ میں لطف ملتا ہے وسعت مطالعہ ہو تو کتاب کے انتخاب کی نوبت آ سکے گی درجنوں کتابوں کے مطالعہ سے ایک آدھ کا مواد ذہن میں اترے گا آپ سے سامنے بہت سے کھانے ہوں تو ایک دو پر آپ کا دل آئے گا اگر کھانا ایک ہی ہو تو پھر انتخاب کاہے کا۔

کپیٹن جمال کی خوبصورت باتیں دل پر اتر رہی تھی منزل بھی قریب آ رہی تھی میں نے فیصلہ کیا کہ کپیٹن کو چائے کی آفر کروں گا اصل میں چائے تو ایک بہانہ تھا اصل مقصود یہ تھا کہ گوہر نایاب سے کچھ سیکھا جائے۔

منزل پر پہنچ کر میں نے کیپٹن جمال کو چائے افر کی انھوں نے خوشی سے قبول کی گرم گرم چائے کی چُسکی لیتے ہوئے وہ گویا ہوئے کہ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو اردو لٹریچر میں خوبصورت لکھنے والے وہ نثر نگار ہوں یا شاعر زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کے پاس مکتبی تعلیم واجبی سی تھی مگر وسعت مطالعہ نے ان کے ذہنوں کو مالامال، زبان کو پاکیزہ اور قلم کو روانی دی۔

مولانا مودودی کے پاس کون سی مکتبی تعلیم تھی اُن کی نثر رس گُلا ہے جو منہ میں گُھلتی جاتی ہے شورش کاشمیری زندگی بھر سکول و مدرسہ کا منہ نہیں دیکھا اُن کی شاعری اور نثر کمال درجہ کی ہے۔ یہ جو کتاب احسان دانش مرحوم کی میں پڑھ رہا ہوں اس میں وہ لکھتے ہیں کہ عمر بھر وہ مزدوری کرتے رہے کبھی کانجی ہاؤس کے چوکیدار کبھی مالی اور کبھی سڑک پر جھاڑو لگاتے رہے مگر ان کی نثر اوج ثریا کو چُھو رہی ہے۔

قلم میں ذاہقہ اور زبان میں رونق پیدا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں دینیات، تاریخ، سماجیات، فلسفہ، ادب، سوانح، سیاسیات اور جو کچھ بھی ہاتھ لگ جائے اُسے نعت سمجھیں ایک وقت آئے گا معیاری اور بازاری لٹریچر میں فرق پیدا ہو جائے گا۔ جمال نے لیپ ٹاپ کھولا اور مجھے ایک تحریر پڑھوائی یہ تحریر شیخ ضیاءالدین سہروردی نے اپنی کتاب آداب المریدین میں لکھی ہے۔ انھوں نے لوگوں کی تین اقسام بیان کی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ”لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں ایک مانند غذا جن کے بغیر گزارہ نہیں، دوسرے مثل دوا جو بوقت ضرورت کام آتے ہیں اور تیسرے بیماری کی طرح جن سے بچنا لازم ہے“

تحریر پڑھنے کے بعد کپیٹن جمال کا مہمان آ گیا اور مجھے بھی اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں بیٹ میں جانا تھا اس وعدہ کے ساتھ کہ بہت جلد کھانے کی میز پر بیٹھک ہو گی ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے کے بعد اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui