عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کی اورنج کمپین


25 نومبر عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن ہے اور 10 دسمبر انسانوں کے حقوق کا عالمی دن ہے۔ ہر سال پوری دنیا ان 16 دنوں میں خواتین کے حقوق اور ان کو درپیش مسائل اور مشکلات کے بارے میں آگاہی مہم چلاتی ہے۔

اس سال بھی 25 نومبر سے یہ سلسلہ شروع ہو جائے گا اور 10 دسمبر تک جاری رہے گا۔ اس سال اس مہم کا مرکزی خیال Orange the world: Generation Equality stands against rape۔ ہے۔ یعنی اس سال پوری دنیا اقوام متحدہ، اس کی ذیلی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مل کر زنا بالجبر جیسے غیر انسانی اور موذی فعل کے خلاف مہم شروع کرے گی۔

اس مہم کا آغاز کچھ سماجی کارکنان نے 1991 میں Women Global Institute کی افتتاحی تقریب کے دوران کیا اور یوں یہ سلسلہ ہر سال باقاعدگی سے جاری ہے۔ 2008 میں اقوام متحدہ نے UNiTE مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد 2030 تک عورتوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ ممکن بنانا ہے۔

یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پوری دنیا کی عورتیں ہر وقت اور ہر جگہ مختلف مسائل کا سامنا کر رہی ہوتی ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں سے ہمارا معاشرہ پدر سری اقدار کا حامل رہا ہے بلکہ اس وقت بھی دنیا چند خطوں کو چھوڑ کر باقی سب کی معاشرتی ساخت پدر سری ہے۔ عورت کو حقیر، کمتر، کمزور اور کم ظرف سمجھا جاتا ہے۔ گھر کے معاملات سے لے کر ریاست کے معاملات سب کے سب مرد چلا رہے ہیں۔

عورت بیچاری تو اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ نہیں کر سکتی، تعلیم حاصل کرنی ہے یا نہیں یہ فیصلہ بھی مرد نے کرنا ہے۔ گھر سے باہر کب جانا ہے، کس کے ساتھ جانا ہے اور کس کام کے لئے باہر جانا ہے ان سب کا تعین اور فیصلہ مرد کی ثواب دید ہے۔ معاشی اور معاشرتی معاملات میں مرد کے تابع اور زیر اثر ہونے کی وجہ سے عورت کا مقام ایک غلام کا سا ہے۔

خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کو تین اقسام میں تقسیم کر کے اسے آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلے نمبر پر جسمانی تشدد، دوسرے نمبر پر جنسی تشدد اور تیسرے نمبر پر نفسیاتی یا ذہنی تشدد آتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تینوں قسم کے تشدد کے واقعات مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً خواتین پر تشدد کے واقعات نا صرف کثرت کے ساتھ رونما ہوتے رہتے ہیں بلکہ معاشرہ میں رہنے والوں کی اکثریت اسے معیوب یا جرم نہیں گردانتی۔

گھریلو تشدد کے واقعات سے لے کر گلیوں کوچوں میں ہراسانی کے واقعات میں عموماً تشدد اور ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین ہی گناہگار ٹھہرتی ہیں۔ ہماری بچیاں اگر گھر آکر والدین کو یہ شکایت کریں کہ بازار یا سکول اور کالج جاتے ہوئے ان پر فقرے کسے جاتے ہیں تو والدین یہ کہہ کر چپ کرا دیتے ہیں ”تمہیں پتا تو ہے معاشرہ بہت خراب ہو چکا ہے۔ اپنا خیال خود رکھا کرو اور گھر سے باہر اکیلے نا جایا کرو۔ “ یوں معاشرہ بجائے مظلوم کا ساتھ دینے کے اندر ہی اندر سے ظالم کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔

معاشرتی گھٹن اور قدغنیں اتنی زیادہ ہیں کہ خواتین اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو بھی بتانے سے گریز کرتی ہیں۔ ریپ یا جنسی ہراسانی کے متعلق گھر میں بتانے سے مراد اپنی موت کو آواز دینے کے مترادف ہے کیونکہ پہلی بات ہی یہی ہوتی ہے کہ ضرور لڑکی کا قصور ہوگا۔ معاشرہ بجائے ان کی ہمت بڑھانے کے مظلوم خواتین کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کتنی ہی خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں اور وہ بھی اپنے پیاروں کے ہاتھوں۔ کتنی ہی خواتین ایسی ہیں جنہیں روزانہ کی بنیاد پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ میں اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ یہاں عورت تو دور کی بات ہے کمسن بچے اور بچیاں بھی وحشی درندوں کے ظلم سے محفوظ نہیں۔ معصوم زینب، رمشا اور ان جیسی بہت سی ننھی کلیوں کو کس بے دردی سے قتل کیا گیا یہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ایسے واقعات نا صرف ہمارے معاشرے کے کھوکھلے پن کو عیاں کرتے ہیں بلکہ اس امر کا بھی تقاضا کرتے ہین کہ ریاست ایسے گھناونے کام میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دے۔ تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص اپنی ہوس مٹانے کے لیے کسی خاتون کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کا سوچے بھی نا۔

ہمیں ایک معاشرہ کی بنیاد رکھنی ہوگی جہاں اس ملک کی آدھی آبادی (خواتین) اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں بلکہ معاشرے کے آزاد شہری کے طور پر اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ اس ضمن میں خواتین کی معاشی اور معاشرتی خود مختاری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ خواتین کی خودمختاری اور خود انحصاری میں جہاں دوسرے معاشی اور معاشرتی عوامل اہم ہیں وہیں ان کی نقل و حرکت سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں Women on wheels کمپین کی پنجاب میں کامیابی کے بعد کراچی میں شروع ہونے جا رہی ہے جس کا کریڈٹ سلیمان صوفی فاونڈیشن اور حکومت سندھ کو جاتا ہے۔ خواتین کی معاشی اور معاشرتی خود مختاری ہی ایک پرامن اور صحتمند معاشرے کی ضمانت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).