مجھے ایسی تعلیم نہیں چاہیے


ایک سادہ سا سوال ہے کہ اگر ہم کسی مرض کی غلط تشخیص کر دیں اور اس کے مطابق مریض کو دوا دیں تو کیا مریض صحت یاب ہو جائے گا؟ عقلی جواب ہو گا کہ نہیں ایسا ممکن نہیں۔ اس لئے یہ کس طرح ممکن ہے کہ رسمی تعلیم کے ذریعے انسانی عقل کوٹھیک طرح سے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔

میرے نزدیک رسمی تعلیم کا فکری ارتقاء سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ فکری ارتقاء کا تعلق سوال سے ہے اور جواب کی تلاش سے ہے۔ مگر یہاں معاملہ کچھ یوں ہے کہ سوال ہماری کُتب میں پہلے ہی دے دیے جاتے ہیں اور جواب بھی۔ بس مفکر کو اس سہولت کے ساتھ ان جوابوں کو رٹنا پڑتا ہے۔ اور سوچے سمجھے بغیر ہی امتحان میں چھاپ کے آنا ہوتا ہے۔

یہا ں فکری غلامی کا یہ عالم ہے کہ آپ خود سے ایک لفظ بھی لکھ دیں تو ممتحن اپنی پہلے سے طے شُدہ کی بک سے دیکھ کر اس جواب کو کاٹ دیتا ہے۔ مجھے کئی بار کہا گیا ہے کہ ایسی بات بھی نہیں، ہمارے ٹاپرز بڑے قابل ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات سچ ہے تو سبھی کو دنیا کے سامنے اپنے جوہر دکھانے چاہیے تھے۔ مگر وہ سبھی 4,45,000 یونیورسٹی کے ہر سال پاس ہونے والے طلباء و طالبات ایک گمنامی کی زندگی اس لئے گزار رہے ہیں کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں عاقل نہیں۔ ان میں سے چند جو واقعی قابل ہیں وہ غیر نصابی صلاحیتوں کی وجہ سے ہیں۔ آزادیِ پاکستان سے اب تک کے سارے ٹاپرز کو ملائیں اور قابل شخصیات کی گنتی کریں تو ان میں سے ایک یا دو فیصد ہی ہوں گے۔

آپکو بھی زندگی کا یہ دلچسپ تجربہ تب ہو گا جب آپ یہ سوچ بچار کریں گے کہ ہمارے تیسری کلاس کے طلباء اور انٹر میڈیٹ کے طلباء کا ذہنی معیار کیا ہو گا۔ آپکو ایک مضحکہ خیز اتفاق ہو گا کہ دونوں کا ذہنی اور فکری معیار ایک ہی ہو گا۔ کیونکہ دونو ں کو ایک جیسا سلیبس ہی پڑھایا جاتا ہے۔ وہی پیاسا کوا، وہی میرا پسندیدہ مشغلہ، وہی فیس معافی کی درخواست، وہی جیب خرچ بڑھانے کے لئے خط، وہی جمع، وہی تفریق، وہی الجبرا، وہی جیومیٹری، وہی سائنس، وہی زکوۃ کے مصارف، وہی چودہ نکات۔ فرق اگر پڑتا ہے تو یہ کہ طلباء کے کپڑے سال بہ سال چھوٹے ہوتے جاتے ہیں اور تحریر کا ہجم بڑا۔ اگر ہم نصاب کی repetition نکال دیں تو صرف چھ سے سات ماہ کا نصاب رہ جاتا ہے جو ہم نو سے دس سال دُہراتے رہتے ہیں اور قابل پھر بھی نہیں ہوتے۔

پڑھائی کے دوران عملی مشق کرنا کسی بھی طالبِ علم کے لئے اولین ترجیح ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں پریکٹیکل کے دنو ں میں سابقہ طلبا کی بنائی ہوئی کاپیوں کا بازار سیل کے ساتھ کئی دن پہلے ہی گرم ہو جاتا ہے اور امتحان کے دن کچھ کر کے دکھانے کی بجائے کسی پروفیسر کی کال کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے اور ہلکے سے اشارے سے ان پڑھ اور پڑھا لکھا ایک برابر ہو جاتے ہیں۔

میرا سوال ہے کہ کیا یہ تعلیم ہے، ہاں اگر یہی تعلیم ہے تو مجھے ایسی تعلیم نہیں چاہیے، مجھے علم، حکمت اور دانائی میں گزرے چند لمحے مل جائیں یہی کافی ہیں۔ جو میری ذات میں اچھائی کا جذبہ پروان چڑھائیں، مجھے سکون پہنچائیں۔ آخر پہ یہی کہوں گا کہ اگر تعلیم ایسی ہوتی ہے تو پھر

ایسے دستور کو، صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).