کس نے غائب کیے خوابوں کے رنگ؟


ایوانِ صدر میں آئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک شخص سے میری ملاقات ہوئی۔ یہ شخص مجھے کچھ مختلف سا لگا لیکن ذرا ٹھہریے، یہ ماجرا اتنا سادہ نہیں۔ اس ایوان کی راہ داریوں میں چلنے والوں کے بارے میں میرے تصورات میں کچھ مسئلہ ہے جس کی جڑیں طلسم ہوش ربا یا داستانِ امیر حمزہ جیسی پر پیچ داستانوں پیوست ہیں۔ اِن داستانوں کے کردار دراصل کچھ ایسے ماورائی ہیں کہ سب سائے محسوس ہوتے ہیں۔ کچھ سائے بیچ شاہراہ میں پورے اعتماد کے ساتھ تن کر چلنے والے اور ہما شما دائیں بائیں کی دیواروں کے سائے میں پناہ لیتے ہوئے۔

جیسے اُن کا بس چلے تو اِن دیواروں میں ہی جا چھپیں اور دنیا کی نگاہ سے محفوظ ہوجائیں۔ ویسے تو اس ایوان کی منزلوں میں بھی درجہ بہ درجہ عظمت و بزرگی اپنی جھلک دکھاتی ہے لیکن راہ داریوں میں معاملہ عام طور ایک سا ہی رہتا ہے۔ اِن میں گزرنے والے بھی طلسمات کے مرعوب سایوں کی طرح دیواروں کی پناہ کی تلاش میں اکثر پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ اِن پریشان حال لوگوں میں اس شخص کا انداز جداتھا، خوردوں میں وہ بڑا تھا اور بڑوں میں اس کا شمار خوردوں میں کیا جانا چاہیے لیکن اس سب کے باوجود میں نے اِسے دیواروں کے آزار سے محفوظ پایا، شاید اسی لیے میں اِسے مختلف جانا۔

مختلف تو اس شخص کو ہونا ہی چاہیے تھا کہ مادی اسباب کے مرکز میں بیٹھ کر شاعری کی بات کیا کرتا اور موقع پاکر لوگوں کا بھٹکانے کی کوشش بھی کیا کرتا۔ ایک روز جانے میں کس فکر میں بیٹھا قلم سے کاغذ پر لکیریں کھینچ رہا تھا کہ وہ موقع پر آن دھمکا مع ایک ”اشارے“ کے۔ یہ ایک سنگین گستاخی تھی کہ عمر کے اس حصے میں یہ حرکت نہ اسے زیب دیتی تھی اور نہ مجھے۔ یوں ”اشارہ“ کے سو ڈیڑھ سو صفحات نے میرے اس شبے پر مہر تصدیق ثبت کردی اور میں نے اسے تقریباً نظر انداز کردیا۔

اس کا سبب شاید ایک اور بھی رہا ہو۔ ایوانِ اقتدار کے سایوں کی طرح شاعروں کے بارے میں بھی میرے تصورات میں کچھ مسئلہ ہے۔ ہمارے کالج میں ایک لڑکا تھا، بھولا بھالا، قدرے خوب صورت اور گول مٹول، چہرے پر عینک نے اس کی وجاہت میں کچھ اور اضافہ کررکھا تھا۔ ”پکا ڈاکٹر“۔ لوگ باگ اسے دیکھتے اور کہا کرتے۔ بات یہ ہے کہ میٹرک میں اچھے نمبر لانے والے لڑکے بغیر کوئی مرحلہ طے کیے اپنی دانست میں تو ڈاکٹر بن ہی چکے ہوتے ہیں لیکن جب مستقبل کی ان دیکھی منزلیں طے کرتے ہوئے لڑھکنیاں کھاتے ہیں اور سپلی پر سپلی آتی ہے تو کسی شب تکیے کو آنسوؤں سے بھگوتے ہوئے شاعر بن جاتے ہیں جس کا انکشاف کالج کے سالانہ مشاعرے میں ہوتا ہے۔ مستقبل میں جن کے مجموعے پر مجموعہ شائع ہوتا ہے جس پر یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ پاکستان میں ورقِ سادہ کو ردی میں بدلنے پر ٹیکس لگا دیا جائے تو اس ملک کے سارے قرضے اتر جائیں۔

یہ عین ممکن ہے کہ یہ شخص میرے اسی تاثر کے بوجھ تلے دب کر کہیں رفت گزشت ہو جاتا لیکن بھلا ہو قاضی محمد اصغر کا جن کی وجہ سے مجھے اپنی رائے بدلنی پڑی۔ اہلِ ثروت، خاص طور پر پیٹرو ڈالر کی بارش سے بھیگنے والوں کے بارے میں ہمارے ہاں ایک بدگمانی سی پائی جاتی ہے کہ یہ لوگ اپنی دولت کے زور پر اقلیمِ ادب کو بھی تاراج کردینے کے درپے رہتے ہیں لیکن قاضی صاحب کی وجہ سے یہ گمان بھی ٹوٹا اور میں نے یہ جانا کہ ایسے عارضوں میں مبتلا لوگ اگر اپنے جاہ و حشم کے اظہار کے لیے دولت کا سہارا لیتے ہیں تو کچھ سعید روحیں ایسی بھی ہیں جو اپنے مال و منال سے ذہن و روح کی آبیاری کا کام بھی لیتی ہیں۔ یہ قاضی صاحب ہی کا ایک عشائیہ تھا جو مشاعرے میں بدلا اورکچھ ایسے اشعار سننے کو ملے جن میں اِس عہد کے دکھ کچھ ایسی بے ساختگی سے بیاں ہوئے کہ سننے والے اوّل سناٹے میں آئے پھر دادو تحسین کے نعرے تادیر گونجا کیے

دیکھتے رہتے ہیں وارفتگیِ شوقِ جہاں

بس ہوس کو ذرا تاخیر سے پہچانتے ہیں

کیا کھلے اُن پر بھلا تیری بصیرت کا جمال؟

جو تجھے بس تری تصویر سے پہچانتے ہیں

اصل میں یہ جو شعر کہنے کا عارضہ ہے، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ جس کی ذرا طبع موزوں ہوئی، دل ذرا سا صدمے سے دوچار ہوا، فٹاک سے ترتراتا ہوا شعر بھی برآمد ہوگیا لیکن جیسے جیسے دنیا کے دکھ پیچیدہ ہوئے، آزاروں کا چارا مشکل ہوا، اظہار کے پیرایوں میں بھی گہرائی اور گیرائی نے جگہ بنائی۔ یوں شعر زلف و کاکل کے شکنجے سے نکل کر زندگی کے بحر بے کراں میں غوطہ زن ہوا۔ ہمارے بزرگوں میں غالبؔ تھے جن کے ٔ سر پر اس اوّلیت کا سہرا بندھا۔

اِن کے بعد اقبالؒ نے اسے بام عروج پر پہنچایا۔ فیضؔ کا زمانہ آتے آتے خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں شاعری نعرۂ مستانہ بن کر دشمن پر ٹوٹ پڑنے کا مترادف ہی بن جائے۔ اِس شورش میں فیضؔ نہ ہوتے تو غضب ہوجاتا، انھوں نے دشنام برداشت کرکے بھی شعر کو ’‘ دھر رگڑا ”کے غیض و غضب سے بچا کر اس کی تہذیب اور غنائیت کے ساتھ اِسے جوڑے رکھا۔ اس طرح اردو شعر کا وہ مزاج وجود میں آیا جس پر اپنے اور غیر سب ناز کرتے ہیں۔

اب شعر اور شاعری وہی ہے جسے اس شعری مزاج کی کسوٹی سند عطا کرے۔ بعض لوگ اب بھی شعر وادب کی وادی میں اترتے ہیں اور برس ہا برس فاعلاتن فاعلات کی گردان کرنے کے باوجود زمانے کی گردش میں کہیں گم ہوجاتے ہیں لیکن جو لوگ شعوری بلکہ لا شعوری طور پر یعنی جبلت کے سہارے اس کے مزاج کی سان گمان پا لیتے ہیں، زمانے کی گردش سے ان کے محفوظ رہنے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جنید آذر قلبِ ماہیت کی کسی ایسی ہی کیفیت سے گزرا ہے، شاید اسی لیے اب وہ کبھی خوبصورتی کی بات کرتا ہے، کبھی مساوات کے خواب دیکھتا ہے اور کبھی کہتا ہے ؂

میں دیکھنے لگا ہوں خلاؤں کے اُس طرف

ایک اور آسمان مری آنکھ پر اٹھا

جنید آذر یہیں تک محدود رہتا تو خیریت رہتی لیکن اب تو وہ فریبِ جنوں عمر بھراٹھانے کی نیت کرکے زخم جاں میں خیانت کے خوف میں مبتلا ہونے اور بارعشق اٹھاتے ہوئے شعور کو کام میں لانے کی باتیں بھی کرنے لگا ہے، گویا اب وہ ایک ایسے پاکستان کا خواب دیکھتا ہے جس کا نام لیتے ہوئے گاہے زبان لڑکھڑا جاتی ہے اور قدم ڈگمگا جاتے ہیں، شاید اسی سبب سے میرے دل کی دھڑکن بھی تیز ہونے لگی ہے کیونکہ اس کے احتجاج کا کرب ایک طرف، اس میں کچھ کلاسیکی قسم کی شدت بھی آنے لگی ہے ؂

تو نے غائب کیے میرے خوابوں کے رنگ

تیرے ہاتھوں ہوئی روشنی لاپتہ

اس کے بعد میں اس کے حق میں صرف دعا ہی کرسکتا ہوں، اِس کے پڑھنے والے بھی یہی کریں کیونکہ عافیت اسی میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).