چھوٹی سی زنجیر


میرے دل کے پاؤں میں

نجانے کب سے

ایک چھوٹی سی زنجیر پڑی تھی

جو مجھے

نہ گانے

نہ رقص کرنے دیتی تھی

میں جب بھی گانے لگتی

مجھے اپنے ابو کی آواز آتی

’موسیقی گناہ ہے‘

میں جب بھی رقص کرنے لگتی

مجھے اپنے بھائی کی آواز سنائی دیتی

’کیا تم ایک طوائف بننا چاہتی ہو؟ ‘

میں کہتی

’میں ایک فنکارہ بننا چاہتی ہوں‘

لیکن میری آواز

روایتوں ’رسموں‘ رواجوں کے شور میں دب جاتی

میں اپنے ابو کی عزت کرتی تھی

میں اپنے بھائی سے محبت کرتی تھی

ان کی باتیں میرے لیے بہت اہم تھیں

وہ میری روایتی شادی کرنا چاہتے تھے

لیکن میں نہ مانی

میں ایک شاعر کو چاہنے لگی

ٹوٹ کر چاہنے لگی

اس کی خاطر

میں نے اپنی ماں اور دھرتی ماں کو خیر باد کہا

اور

دیارِ غیر میں آ بسی

کچھ عرصہ ہم

ایک دوسرے کی محبت کے خمار میں مدہوش رہے

لیکن پھر

اس کی محبت سرد ہونے لگی

وہ کسی اور کی زلف کا اسیر ہو گیا

مجھے چھوڑ گیا

اور میں ٹوٹ کر بکھر گئی

اداس ہو گئی

غمگین ہو گئی

ڈیپریشن کا شکار ہو گئی

اور ایک دن

زندگی بے مقصد لگنے لگی

اس شام

خود کشی کا ارادہ کر کے

بہت سی گولیاں کھا کر

میں ہمیشہ کی نیند سو گئی

جب جاگی

تو میرے بستر کے پاس ایک نرس بیٹھی تھی

میں نے کہا

’میں کہاں ہوں؟ ‘

نرس نے کہا

’ایک ہسپتال کے کمرے میں‘

میں نے پوچھا

’میں یہاں کیسے آئی؟ ‘

نرس نے جواب دیا

’تمہاری سہیلی تم سے ملنے آئی تھی

تمہیں بے ہوش پایا

تو ایمبولنس کو بلایا

جو تمہیں ہسپتال لے آئی ’

میں یہ جان کر دکھی ہوئی

کہ میں خودکشی میں بھی ناکام رہی

پھر میں

ایک طویل عرصے تک

اپنی زندگی کے بارے میں غور کرتی رہی

اپنی زندگی میں معنی تلاش کرتی رہی

میں لمبی سیر کے لیے جاتی

لائبریری سے کتابیں لا کر پڑھتی

سہیلیوں سے ملتی

ایک دن میں نے ایک کہانی پڑھی

جس نے میری زندگی بدل دی

وہ کہانی کچھ یوں تھی

ایک شخص ایک چڑیا گھر گیا

اس نے بہت سے جانوروں کو پنجروں میں بند دیکھا

پھر وہ ایک میدان میں پہنچا

جہاں بہت سے ہاتھی کھیل رہے تھے

رقص کر رہے تھے

لیکن دور ایک ہاتھی

درخت کے پاس کھڑا تھا

اور اداس تھا

اس شخص نے

مینیجر سے وجہ پوچھی

تو اس نے کہا

جب یہ ہاتھی بچہ تھا

تو بہت شرارتی تھا

ہم نے

اس کے پاؤں میں

ایک چھوٹی سی زنجیر ڈال دی تھی

جسے یہ توڑ نہ سکتا تھا

اب یہ جوان ہو گیا ہے

لیکن یہی سوچتا ہے

کہ وہ اس چھوٹی سی زنجیر کو نہیں توڑ سکتا

وہ شخص سر ہلاتا ہوا گھر چلا گیا

اگلے مہینے پھر آیا

تو کیا دیکھتا ہے

وہ اداس ہاتھی

باقی ہاتھیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے رقص کر رہا ہے

اس شخص نے مینیجر سے وجہ پوچھی

تو اس نے کہا

پچھلے ہفتے

چڑیا گھر میں

آگ لگ گئی تھی

سب ہاتھی بھاگے

یہ ہاتھی بھی بھاگا

اور اس کی زنجیر ٹوٹ گئی

ایک بحران نے اسے آزاد کر دیا

اس کہانی کو پڑھ کر

مجھے احساس ہوا

میرے بحران نے بھی مجھے آزاد کر دیا ہے

جب مجھے احساس ہوا کہ

میرے دل کے پاؤں کی

چھوٹی سی زنجیر کٹ چکی ہے

تو میں نے آرٹس سکول میں داخلہ لیا

گانا سیکھا ’موسیقی سیکھی‘ ایکٹنگ سیکھی ’رقص سیکھا

اور ایک سٹوڈیو بنایا

اب میرے سٹوڈیو میں

بہت سی لڑکیاں اور عورتیں آتی ہیں

موسیقی اور رقص سیکھتی ہیں

ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں

تا کہ وہ

آزاد ہو سکیں

خود مختار ہو سکیں

رسموں ’روایتوں‘ رواجوں نے

ان کے دل کے پاؤں میں

بچپن میں

جو چھوٹی سی زنجیر ڈالی تھی

اسے توڑ سکیں

زندگی سے محظوظ ہو سکیں

اور اپنے خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کر سکیں

26 نومبر 2019

۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail