سٹوڈنٹس یونین پر پابندی کیوں؟


اُنیس سو تراسی میں ضیائی مارشل لاء کے خلاف سندھ میں شدید رد عمل اُبھرا تھا جبکہ دوسری طرف جمہوریت کی حامی سیاسی جماعتوں نے ایم آر ڈی (تحریک بحالئی جمہوریت) کے پلیٹ فارم سے دن بدن مارشل لاء کے خلاف سیاسی دباؤ بڑھانا شروع کیا تھا۔

اس رد عمل اور دباؤ میں طلبہ تنظیمیں پیش پیش تھیں خصوصًا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سٹوڈنٹس ونگز جن میں پیپلز پارٹی سٹوڈنٹس فیڈریشن، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن، جئیے سندھ فیڈریشن اور بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن وغیرہ شامل تھے۔

کچھ عرصہ بعد سٹوڈنٹس یونین انتخابات سر پر تھے اور یونیورسٹیوں کے کیمپس اور کالجوں کا ماحول تپتا ہوا محسوس ہو رہا تھا گو کہ مقابلے میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اسلامی جمیعت طلبہ بھی اپنی تنظیمی طاقت کے ساتھ موجود تھی لیکن جنرل ضیاءالحق کو رپورٹس مل چکی تھیں کہ اگر سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن ہوئے تو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی طلبہ تنظیمیں صفایا کر جائیں گی اور پھر آپ کو بھی ایوب خان بنا کر چھوڑیں گی۔

اس لئے جنرل ضیاءالحق نے فوری طور پر سٹوڈنٹس یونین پر پابندی لگا دی اور یوں اُنیس سو تراسی کے طلبہ یونین الیکشن آخری الیکشن ثابت ہوئے، پھر نہ اس ملک میں مکمل جمہوریت نافذ ہوئی اور نہ ہی سٹوڈنٹس یونین الیکشن ہوئے گو کہ اُنیس سو اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد طلبہ یونین کو بحال کرنے کی کوشش تو کی لیکن اس کے بندھے ہوئے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہ آ سکی کہ وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہناتی۔

جب ہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو قیام پاکستان کے ساتھ ھی دو اہم طلبہ تنظیمیں میدان میں تھیں، جن میں ایک ایم ایس ایف (مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ) دائیں بازو جبکہ دوسری این ایس ایف (نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن ) بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں تھیں آگے چل کر ان طلبہ تنظیموں نے ایوب خان جیسے آمر کو پچھاڑ کر رکھ دیا تھا۔

ستّر کا عشرہ طلبہ تنظیموں اور سیاست کے حوالے سے سب سے ذیادہ زرخیز رہا اس دوران ایک طرف پیپلز پارٹی کے زیر سایہ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن پروان چڑھی تو دوسری طرف اسلامی جمیعت طلبہ، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن، پنجاب سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی توانا طلبہ تنظیمیں منظر پر اُبھریں۔

انھی تنظیموں سے بعد میں جہانگیر بدر (مرحوم)، جاوید ہاشمی، لیاقت بلوچ، میاں افتخار، فرید طوفان، الطاف حسین، فاروق ستار، علی احمد کُرد، حفیظ اللہ نیازی اور شیخ رشید جیسے لوگ سیاست کے جانے پہچانے نام بنے لیکن اُنیس سو چوراسی میں جنرل ضیاءالحق کے جابرانہ حکم اور طلبہ یونین پر بندش کے ساتھ ہی وہ سیاسی نرسری ملیامیٹ کر دی گئی جہاں سے سے سیاسی میدان کو ایک پختگی اور بلوغت فراہم ہوتی رہی۔ جس کا فائدہ ہمیشہ جمہوری عمل اور پارلیمان کو ملتا رہا لیکن یہ فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو وارا نہیں کھاتا تھا اس لئے نہ صرف اسے جڑ سے اکھاڑ دیا گیا بلکہ گزشتہ کئی عشروں سے اٹھنے بھی نہ دیا گیا وہ تو بھلا ہوا ان طالب علم نو جوانوں (لڑکے لڑکیوں) کا جنہوں نے ایک پر امن لیکن با شعور جدوجہد کا آغاز اپنے طور پر کیا اور ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ جب بھی نوجوان طالب علم کسی جدوجہد کے لئے باہر نکلے تو وہ اتنی آسانی سے کبھی پسپا بھی نہیں ہوئے کیونکہ ان کا شعور اور جذبہ ہی ان کا سب سے بڑا اور کارگر ہتھیار ہوتے ہیں۔

اگر اپنے جمہوری حق یعنی سٹوڈنٹس یونین کی بحالی کے حق میں نوجوان طلباء نے ایک توانا لہر اُٹھا ہی دی ہے تو ضروری تو نہیں کہ ھر جگہ مخالفت اور ٹھکراؤ کی پالیسی پر ہی گامزن رہا جائے بلکہ ہوش و خرد اور عقل و فہم کا راستہ بھی چنا جا سکتا ہے جس کے لئے طلبہ کے نمائندوں کے ساتھ گفت و شنید کو آگے بڑھا کر ایک موثر پالیسی اور لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے جس کے تحت کیمپس اور کالجز میں اسلحے پر پابندی اور غیر جمہوری اقدامات، اخلاقی بے راہ روی اور تشدد کی مخالفت سمیت تمام اہم اور ضروری معاملات پر قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے اور تمام طلبہ یونین کو سختی کے ساتھ اس کا پابند بھی بنایا جا سکتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اس احتجاج کے دوران طلباء و طالبات نوجوان ہوتے ہوئے بھی حد درجہ پر امن اور سنجیدہ رہ کر اپنی جمہوری جدوجہد آگے بڑھا رہے ہیں نہ تو کوئی متشدد جذباتیت دیکھنے میں آئی نہ ہی کہیں اسلحے کی نمائش ہوئی، نہ کسی گریبان پر ھاتھ ڈالا، نہ کسی دیوار پر چڑھے بلکہ شاعری اور موسیقی جیسے لطیف فنون ہی ان کا ذریعہ اظہار ٹھہرے ہیں۔

لیکن دوسری طرف ان پر امن طلباء و طالبات کے ایک رہنما کے ایم فل پر پابندی لگا کر گویا اس رویے کا آغاز کر دیا گیا ہے جو عمران خان اور اس کی حکومت کی سرشت ہے۔

ایک درد دل کے ساتھ گزارش ہے کہ پہلی بار اور ایک بار ہی سہی کسی مخالف کا حق تو تسلیم کر لیجئے۔ اور پھر یہ باشعور طبقہ (طالبعلم) کونسا آپ کا اقتدار چھین رہے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ تو آپ کے مخالف بھی نہیں، محض شعور اور حقوق کے پرچارک ہی ہیں لیکن بحیثیت وزیراعظم پاکستان آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کے خاموش اور پرامن احتجاج کا نوٹس لیں کیونکہ میرا اندیشہ بھی ہے اور تاریخ کا سبق بھی کہ کوئی اپنا حق جتنی شرافت سے مانگے، اتنی ہی شرافت سے دینا بھی چاہیے ورنہ۔۔۔۔

اور پھر اس ورنہ سے آگے جو کچھ ہوتا ہے اسے بتانے کی ضرورت بھی نہیں، کیونکہ آپ کو پہلے کون سی بات کی بروقت سمجھ آئی ہے، جو اب آئے گی۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).