والٹن کیمپ نہیں مکیا


\"wajahat1\"ایک دفعہ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ جوانی دیوانی کے دنوں میں احمد رضا ہمارے رہنما تھے۔ اب ماہر اقبالیات ہیں۔ تب بھی شاہ ولی اللہ اور احمد رضا بریلوی کے مناقب بیان کیا کرتے تھے۔گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلم گوجرانوالہ میں ورود بھی فرماتے تھے۔ گلی سے ہم گزر رہے تھے۔ درویش نے غلطی سے ایک جملہ اردو میں کہا۔ لیڈر نے غصے سے مڑ کر دیکھا اور فرمایا اگر تم اردو نہیں بول سکتے تو اس زبان کی مٹی پلید نہ کیا کرو۔ درویش کم عمر تھا اور دوست کا جملہ بہت سخت تھا۔ سوال اٹھا کہ خیال اور زبان میں کیا رشتہ ہے۔ ٹالسٹائی اور دوستوئے فسکی کے کردار اچھی خاصی بات کہتے کہتے ایک سامنے کا جملہ فرانسیسی میں کیوں ادا کرتے ہیں۔ کہیں کچھ گوشت پوست کا ذکر آجائے تو ہسپانوی بولنے والے اطالوی زبان کا گھونگھٹ کیوں نکال لیتے ہیں۔ یہ سوال موجود تھے۔ کچھ وقت گزر گیا۔ درویش نے انگریزی ادبیات میں تعلیم پائی۔ شعوری طور پر فیصلہ کیا کہ اردو زبان میں لکھیں گے۔ روشن خیال افراد کے کچھ نشان اس ملک میں طے پا گئے تھے۔ پتلون پہنتے ہیں، داڑھی مونچھ صاف ہوتی ہے اور بقول ہمارے دبنگ صحافی کے منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولتے ہیں۔ صاحبانِ ذی وقار ،جس کا منہ ٹیڑھا ہو وہ غریب کوئی زبان بھی سیدھے منہ سے نہیں بولتا۔پاکستان میں ذہن بدلنے والا طبقہ غریب نچلے متوسط گھرانوں سے آتا ہے۔ صاحبانِ ثروت کو تو زمین اور زبان سے تعلق نہیں ہوتا۔ پیسے کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ اور جو بہت غریب طبقہ ہے وہ کسی بھی زبان میں روٹی مانگتا ہے۔نچلے غریب طبقے کی بیٹی اور بیٹا البتہ اپنے دکھ سے نجات چاہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ تعلیم انہیں یہ طاقت دے گی کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر آزادی، انصاف اور محبت کا مطالبہ کریں گے۔ پاکستان میں یہ طبقہ اردو زبان پڑھتا ہے۔\"sibte-hasan\"

توجہ فرمائیے کہ اکبر علی ایم اے، سید علی عباس جلالپوری اور سبط حسن کی کتابیں دس ہزار کی تعداد میں تو شائع نہیں ہوتی تھیں۔ ہمارے استاد محترم ڈاکٹر مبارک علی نے جب اپنی بات کہنا چاہی تو ان کی ابتدائی کتابیں ان کے اپنے سواد خط میں لکھی گئیں۔ تب کمپیوٹر نہیں تھا اور ڈاکٹر مبارک علی کاتب کا حق خدمت ادا کرنے کے وسائل نہیں رکھتے تھے۔اے عظیم الشان لوگو، آج پاکستان میں جہاں روشنی کی ایک کرن ہے، اس کے پیچھے کہیں ڈاکٹر مبارک علی کا نام لکھا ہے۔ ہر اچھے خیال کے ساتھ سبط حسن کا نام لیا جاتا ہے۔ جہاں خرد کی بات ہوتی ہے تو صاحبان احسان مند علی عباس جلالپوری کا ذکر کرتے ہیں۔ اچھی بات کہنے میں عار نہیں ہونا چاہئے۔ اردو نثر میں دلیل کی روایت سید ابو اعلی مودودی نے شروع کی۔ سید مودودی کی نثر میں دلیل کی سادگی تھی۔ دلیل میں حتمیت نہیں ہوتی۔ پڑھنے والے کے شعور سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔1966 میں نیاز فتح پوری کا انتقال ہوگیا۔ عمر عزیز کے آخری برسوں میں کراچی میں تشریف لے آئے تھے۔ اردو میں کہیں عقل کا کوئی ایسا چراغ ہے جس میں نیاز فتح پوری نے اپنے کاسہ سر سے روغن نہیں ڈالا ؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سید احمد شاہ بخاری کیمبرج سے انگریزی پڑھ کر آئے تھے۔ ادبیات میں ڈاکٹریٹ کا علمی منصب ایم ڈی تاثیر نے متعارف کروایا۔ تاریخ میں تحقیق کا دیا ڈاکٹر محمد اشرف نے جلایا۔ اختر حسین رائے پوری علم کی تلاش میں فرانس گئے تھے۔ڈاکٹر ذاکر حسین جرمنی سے پی ایچ ڈی کر کے تشریف لائے تو جامعہ ملیہ میں مبلغ ایک سو روپے کے عوض تعلیم دیتے تھے۔ بقول گوجرانوالہ کے حاجی محمد یوسف گلو ، ایسے طالب علم کے باپ کا تو سود بھی پورا نہیں ہوتا۔ان سب نیک اور اچھے انسانوں کا ذکر تو \"ali-abbas-jalalpuri\"محض خیر اور برکت کے لئے چلا آیا۔ عرض یہ کرنا تھی کہ خیال اور زبان ہاتھ میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھتے ہیں۔ زبان انسانوں کی سانجھی میراث ہے۔ اچھی بات پر کسی زبان کا اجارہ نہیں۔ دل آزاری، نا انصافی اور توہین آمیز لغت ہر زبان میں موجود ہوتی ہے۔

احمد رضا (لیڈر) نے پنجابی زبان کا طعنہ ایسا دیا کہ درویش نے انگریزی ادبیات میں اختصاص پر کمر باندھ لی۔ مظفر بخاری ہمارے استاد تھے۔ دل شکنی میں حضرت کا اپنا ایک مقام تھا۔ پڑھاتے تو کم تھے زیادہ وقت یہ واضح کرنے میں صرف ہوتا تھا کہ تم پنجاب کے دیہاتی، انگریزی زبان کی لطافت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ چونکہ تم ولایت میں لیڈیز کے ساتھ کھانے کی میز پر نہیں بیٹھے تو فلاں فلاں کھانے کا صحیح تلفظ ادا کرنا تمہارے لئے ممکن نہیں ہے۔ تم لوگ ہمیشہ جارج ایلیٹ کو مرد مصنف سمجھو گے۔ اور تم اس قدر جاہل ہو کہ ایذرا پاﺅنڈ کو آنٹی کہتے ہو۔ ہم سر جھکائے استاد کی تادیب سنتے تھے۔وقت گزر گیا۔ درویش نے موسم گرما کی چھٹیوں میں انگریزی کی ڈکشنری حفظ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ بھائی جمیل صادق سے کہا کہ اگر تم دن بھر کا آموختہ شام کو سنو گے تو میں تمہیں رفتار اور اسراع کا فارمولا سمجھاؤں گا۔ خدا کا بندہ گلی میں کھڑے ہوکے اونچی آواز میں پوچھتا تھا۔ Annihilate کے اسپیلنگ سناؤ، اس کا اسم بتاؤ، اسم صفت بناؤ۔ خدا لگتی کہئے کہ کسی بھلے آدمی سے ایسی باتیں پوچھنا کوئی شرافت ہے جہاں ہم عمر عفیفہ خواتین بھی موجود ہوں! یہ امتحان بھی پاس کر لیا۔ اگرچہ حق یہ ہے کہ\"dr-mubarak-ali\" Annihilate کا جو مفہوم بھائی حسن نثار نے سمجھا، وہ تو ان ہی کا حصہ ہے۔ حسن نثار لشکرِ انہدام کے امام ہیں۔ ہم راج ہنس کی چال چلتے انگریزی کی دنیا میں داخل ہوگئے۔ علم ساگر سمان ہے، کون ستارے چھو سکتا ہے، رہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے۔ الٹے پاﺅں پلٹ آئے اور اردو کی دہلیز پر دھونی رمائی۔ کچھ داخل کا احتجاج تھا۔ شعر تب کہا جاتا ہے جب دست تہ سنگ کی مشکل پیش آئے اور ایک بت سنگی سے واسطہ پڑ جائے۔ یہ مرحلہ 1998 میں پیش آیا۔ کوئی مشکل سی مشکل تھی۔ شعر کہنا چاہا اور حیران کن بات ہوئی کہ شعر بزبان پنجابی لکھا۔ کچھ برس گزرے اور ایک دفتر تیار ہوگیا۔ مجموعہ مرتب کیا گیا اور عنوان قرا رپایا ، ” والٹن کیمپ نہیں مکیا“۔ اظہر جعفری لارنس باغ میں کیکٹس کے کانٹوں پر گرے خزاں زدہ پتوں کی تصویر اتار کے لائے۔ صابر نذر نہایت تراشیدہ ہزلیات حسب معمول بکتے ہوئے ٹائٹل بنا رہے تھے۔ چھوٹی سی کامنی مسعود کمرے میں آ گئیں۔ کوئی چھ برس کی عمر ہوگی۔ گہرے سبز رنگ کا فراک پہنے ایک پاؤں پر تتلی جیسا تھرکتی پورے گھر میں بر شاخ آہو کی تصویر بنی پھرتی تھیں۔ باپ سر بزانو تھا۔ ماں اداس بیٹھی تھی۔ نانی کی آغوش میں پرورش پانے والی کامنی پنجابی نہیں جانتی تھی۔ پوچھا کہ ابا کی کتاب کا کیا نام ہے۔ تنویر نے بتایا ”والٹن کیمپ نہیں مکیا“۔ چھ برس کی بچی والٹن کیمپ کیا سمجھتی مگر یہ کہ سوال کرتی تھی۔ ماں \"kamini\"نے سمجھایا کہ بیٹا جب پاکستان بنا تو تمہاری دادی لاہور کے والٹن کیمپ میں آکر اتری تھی۔ نیا وطن قائم ہوا تھا۔ خیال یہ تھا کہ یہاں ہم آزاد ہوں گے۔ ہمیں حقوق ملیں گے۔ اور یہ کہ ہم انصاف کے اصولوں پر زندگی گزاریں گے۔ تمہارا باپ کہتا ہے کہ ہمارے خواب پورے نہیں ہوئے اور وہ گلہ کرتا ہے کہ ملک تو آزاد ہوگیا، ہمارا والٹن کیمپ ختم نہیں ہوتا۔ چھ برس کی کامنی مسعود نے ادھر ادھر سے اٹھائی ہوئی پنجابی میں معصومیت سے کہا ’سانوں حکم دیو، ہم ختم کر دیتے ہیں۔‘ باپ رو پڑا اور اس نے کہا بیٹا ہم سے یہ والٹن کیمپ ختم نہیں ہوا، ہم امید کرتے ہیں کہ تم یہ والٹن کیمپ ختم کرو گی۔ بہت برس بیت گئے، ساہیوال کے سکول سے خبر آتی ہے کہ وہاں پنجابی زبان کو بے ہودہ گوئی کے مترادف شمار کیا گیا ہے۔ زبان انسانوں کی میراث ہے۔ بہت افسوس کی بات ہے، والٹن کیمپ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments