کچھ بے ربط سوالات، جن کے جواب نہیں چاۂیں۔


سوالات، بالعموم ایسے مسائل یا مظاہر سے متعلق ہوتے ہیں جوانسانی تفہیم کے دائرہ کار سے فی الوقت باہر ہوں۔ اور ان مسائل یا مظاہر کی تفہیم، انسان کی بنیادی خصوصیت یا فطرت ہے۔ سوالات کی تلاش کوئی ایسی صلاحیت نہیں جو سکھائی جاتی ہے بلکہ پیدائش کے ابتدائی لمحات کے وقت سے جب بچہ چُھو کر چیزوں کی تلاش کرتا ہے یا کچھ بڑا ہو کر اپنے کھلونوں کو توڑتا ہے تو دراصل وہ اپنے ذہن کی اُلجھنوں کی تسکین کے لئے سعی کرتا ہے۔ بچہ غیر شعوری فطرت کے تحت اپنے کھلونوں کے اعمال، ان کی حرکت اور بناوٹ جاننے کی سعی کرتا ہے۔ چناچہ اِرد گِرد کے مظاہر کی تفہیم کے لئے ذہن کا سوالات اُٹھانا اور ان سوالات کے جوابات کی سعی کر کے ان کے جوابات جاننا، انسانی فطرت ہے۔

گذشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا پر سُرخ رنگ کے بینرز کی صورت میں چھایا ہوا بادل، ںعروں اور اجتماعات کی آندھی، طلبأ و طالبات کے پلے کارڈ اور پوسٹرز، پورے ملک سے ہمہ گیر تحریک و یک جہت مطالبات کہ:

طلبہ یونین بحال کرو، طبقاتی تعلیم کا خاتمہ کرو، فیس کم کرو۔ یہ وہ نعرے ہیں جن سے متعلق ویڈیوز اور تصاویر نے سوشل میڈیا پرعوامی توجہ حاصل کی ہوئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ دفعتاً ملک گیر احتجاج، یک جہت نعرے، ایک ہی طرح کی ڈیمانڈز، اچانک یہ کیسے ہو گیا۔ یہ تعلیمی مسائل تو سات دہایؤں سے ہیں، یونیینوں پر پابندی لگے دہایئاں گزر چکی ہیں۔ پھراچانک اتنا منظم سیلاب، دفعتاً عروج، یہ سب ہے کیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات میں نہیں جاننا چاہتا۔

کشمیر میں ایک سو اٹھارہ دن سے جو حالات ہیں، انھیں بیان کرنے کے لیے، الفاظ اپنے مفہوم کھو چکے ہیں۔ بھوک، بچوں کا بلکنا، ماوؤں کے سامنے بچوں کی شہادتیں، عصمتوں کا لُٹنا اور کیا کیا کچھ۔ ایسے واقعات یا سانحات، جن کا احوال بغیر خود پہ برداشت کیے اور ہڈ بیتی بِتائے کہنا نا ممکن ہے۔ ان کے لئے سیاسی یا تاریخی طور پر نہ سہی بلکہ مذہبی یا انسانی طور پر ہی سہی۔ کیوں کوئی ایسی ہمہ گیر تحریک نہی چلی۔ میں ان سوالات کے، جوابات نہیں جاننا چاہتا۔

دھرنے ہوے ٔ، روڈ بلاک ہوے ٔ پھر ختم ہوے ٔ، اسباب و نتا ئج کیا تھے۔ میں نہیں جاننا چاہتا۔ کرپشنیں ہویئں، آزادیاں ہوئیں، کیا ہوا، کیسے ہوا۔ میں نہیں جاننا چاہتا۔ عام لوگ سڑکوں پر مارے جاتے ہیں، قاتل کے ساتھ کیا ہوا، مقتول کے وارثوں کے ساتھ کیا ہوا۔ میں کوئی جواب نہیں چاہتا۔ معصوم بچیوں کے ساتھ ریپ ہونے کا بعد وہ کہاں جاتی ہیں، ان کا مستقبل کیا ہوتا ہے، مجرم کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ عوام کے احتجاج کا کیا ہوتا ہے۔

لوگ سرِ عام بدلے کا مطالبہ کرنے کے بعد، مجرِموں کو اللہ کے واسطے کیوں معاف کر دیتے ہیِں، میں اِن بے سر و پا اور بے ربط سوالات کے جواب نہیں چاہتا۔ میں نہیں جاننا چاہتا کہ وہ کیا اکسیر ہے جو صرف پاکستان کے باہر کے ہسپتالوں میں اپنا اثر دکھاتی ہے اور عوام سڑکوں پر مارے جاتے ہیں اور ان کی جیب سے پیسے اور شناختی کارڈتک چوری ہو جاتا ہے اور ایک شناختی انسان کی صورت بے نام لاش کیوں بن جاتی ہے، جلسوں میں بینر اور جھنڈوں کا خرچہ کہاں سے آ جاتا ہے۔ ایک کلرک کے پاس بنگلہ کیسے آتا ہے۔ لوگ اچانک ٹرانسفر یا ریٹائرمنٹ کیسے لے لیتے ہیں۔ چھوٹی سی مسجد کے امام کا آڈٹ تو مسجد کمیٹی کر لیتی ہے، پر میرا ابھی پیدا ہونے والا بچہ مقروض کیوں پیدا ہو گا۔ مجھے ان بے ربط سوالات کے جوابات نہیں چاہیں۔

میں ذہنی طور پر معذور معاشرے کا، نظر نہ آنیوالی مجبوریوں میں گِھرا، جسمانی مجبور فرد ہوں۔ مجھے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں چاہیے۔ میں اپنی انسانی فطرت کے خلاف ہوں، میرے ذہن میں سوالات آتے ہیں۔ پر میں انسان نہیں بننا چاہتا۔ میں ایک بایؤلوجیکل روبوٹ ہوں۔ میرا کوڈ نام ’ہیومن بی اِ نگ‘ ہے۔ میں اپنے حالات کے سو فٹ ویئر سے باہر نہی سوچ سکتا۔ اگر میرا ذہن مندرجہ بالا باتوں کے بارے سوچے تو میرا سو فٹ وئیر ان باتوں کو ’بے ربط سوالات کا وائرس‘ بتا کر سوالات کو تلف کر دیتا ہے، میرا اینٹی وائرس سوفٹ ویئر جو حل نکالتا ہے وہ یہ ہے۔ کہ کچھ۔ ’بے ربط سوالات، جن کے جواب نہیں چاۂیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).