بلوچستان کے مسائل کی نشاندہی اور نامعلوم کالیں


گھٹن کا یہ عالم ہے کہ آپ کسی سماجی نا انصافی کے خلاف قلم اُٹھاتے ہیں تو سو بار سوچتے ہیں کہ کہیں کچرہ اٹھانے کا ذمہ دار شخص کسی با اثر حلقے کا دوست تو نہیں کہ کل اپ کو تحریر سے بحالت مجبوری راہ فرار اختیار تو نہ کرنا پڑے گی۔ تب ایسی حالت میں آپ کے لئے کسی بھی مسئلے پر لکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بلوچستان کے حالات سے نابلد لوگ شاید نہیں جانتے ہیں کہ یہاں پر کسی عوامی مسئلے کو مفاد عامہ کے لئے بغرض حل رپورٹ کرنا مشکل ترین کام ہے یہاں کسی بھی مسئلے کی جانب آپ اگر توجہ دلاتے ہیں تو آپ کو کال آئے اور کہا جائے آپ ایسا نہیں لکھ سکتے ہیں کیا آپ ہم سے زیادہ باخبر ہیں؟

کیا آپ کی معلومات ہم سے زیادہ مستند ہیں؟ تب ان کو آپ بتاتے ہیں کہ حضور والا آپ کی معلومات مجھ سے ہزار گنا بہتر ہوسکتی ہیں لیکن آپ ایک دفعہ جس مسئلے کو میں رپورٹ کرچکا ہوں اس کی فائل منگوا کے چیک کرلیں ہوسکتا ہے آپ کو غلط بتایا گیا ہو۔ جس مسئلہ کے متعلق میں لکھ چکا ہوں آیا وہ حقیقت پر مبنی ہے کہ نہیں آپ خود چیک کرلیں۔ کال کرنے والا شخص اپکو یہ کہہ دے کہ آپ ہمیں نہ سمجھائیں ہم نے کیا کرنا ہے۔ کیا نہیں کرنا کس کو چیک کرنا ہے کس کو نہیں؟

یہ آپ ہمیں نہ سمجھائیں تو ایک لمحہ کے لئے آپ سوچتے ہیں کہ میں بھی بول دوں کہ آپ ہمیں کیوں سمجھا رہے ہیں آپ اپنا کام کریں ہم اپنا کام کر رہے ہیں لیکن آپ کو ایسی بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ حالت یوں بن جائے کہ آپ دیگر معاملات سے جان بوجھ کر معلومات رکھنے کے باجود بات چیت کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ گھر کے بڑوں کے وژن اور فیصلوں سے ہماری سوچ اور وژن کیسے بہتر ہوسکتا ہے لیکن گھٹن تب انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب آپ گھر کی پالیسوں پر تو بات کرنے سے خود ساختہ کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں لیکن اپنے گھر میں باہر سے آیا ہوا مہمان آپ کی پلیٹ سے بوٹیاں چرا لے اور آپ شور مچائیں اور مدد کے لئے بڑے بھائی کو پکاریں اور بھائی آپ کا ساتھ دینے کی بجائے مہمان کی چوری پر پردہ ڈال کر آپ کو جھوٹا قرار دے دے۔

کون چور ہے کون شریف اگر اس کا فیصلہ آپ نے کسی سے پوچھ کر کرنا ہے تو اس سے بڑی گھٹن کی فضا کیا ہوسکتی ہے؟ اس کے باوجود بھی اگر عام بلوچستانی آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ صوبے کے مسائل پر خاموش ہیں تب آپ کو یہ سمجھانا بڑا مشکل اور کٹھن ہوجاتا ہے۔ ابھی کچھ دنوں سے کوئٹہ میں نان ٹیچنگ سٹاف کے بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے بہت سارے حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے گئے ہیں جس کے جوابات حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے گریڈ 20 کے دو افسر ان کی نگرانی میں کمیٹی بنائی۔

کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی جس میں اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے نہ صرف تعیناتیوں کو کالعدم کرنے کی سفارش کی بلکہ ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کردی فائل خدا خدا کرتے بڑی مشکلوں سے دو دفعہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے سیکرٹریٹ کی یاترا کرتے ہوئے واپس چیف منسٹر انسپکشن ٹیم میں واپس آئی تو بلوچستانیوں کی خوشی کی انتہا نہیں رہی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے نہ صرف تعیناتیوں کو کالعدم قرار دیا ہے بلکہ اس بھرتی کمیٹی کے خلاف بھی سخت کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔

میں چونکہ بلوچستان کے ایک ادنیٰ لکھاری کی حیثیت سے اس طرح کے مسائل پر گاہے بگاہے لکھتا ہوں اور اس دوران مجھے معلوم ہے کہ کتنی ساری مشکلات اور کتنے مسئلے جھیل کر میں لکھتا ہوں۔ میں ان چیزوں کا ذکر اس لیے اپنے پڑھنے والوں سے نہیں کرتا ہوں کہ عام آدمی کو یہ تاثر نہ ہو کہ میں ان کا مسئلہ نہیں بلکہ اپنے مسائل کی زنبیل کھول کر میدان میں موجود ہوں اور ان سے مدد تلاش کر رہا ہوں۔ کبھی کبھار میں مجبور ہو جاتا ہوں یہ باتیں آپ کے سامنے ریکارڈ پر لانے کے لئے تاکہ بلوچستان کی عوام اور ملک کے اعلی با اثر طبقات ان معاملات سے باخبر رہیں کہ میں کس مشکل حالت میں کام کر رہا ہوں۔

مذکورہ بے ضابطہ بھرتیوں کی رپورٹ نے جب نظام پر سوالات اٹھانا شروع کردیے تو عام بلوچستانی سے لے کر افسر تک سے جب بھی میری ملاقات ہوئی ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ ان کا والی وارث نہیں ہے۔ جبکہ باہر کا ایک با اثر سابق ڈپٹی کمشنر جو کہ حال ہی میں گریڈ 19 میں ترقی کرچکا ہے کو بچانے کے لئے پوری حکومتی مشینری میدان میں آگئی۔ میں بلوچستانیوں کے تمام تحفظات نظام کے سامنے رکھتا آرہا ہوں کہ عام آدمی کیا سوچتا ہے عام آدمی کے کیا خیالات ہیں جو کہ آپ تک نہیں پہنچتے۔

یا پھر آپ اپنی مصروفیات کی وجہ سے میری تحریروں کو نہیں دیکھ سکتے اس کے بعد ہوا یہ کہ بجائے اس با اثر ڈپٹی کمشنر طاہر عباسی کے خلاف کارروائی ہوتی مجھے دھمکی آمیز فون آنا شروع ہوئے جس میں انتہائی ذمہ دار لوگوں نے میرے بارے میں غیر ذمہ دارانہ الفاظ کا استعمال کیا۔ لیکن باوجود اس کے میں اس کرپشن کے خلاف تھا اور رہوں گا۔ چاہے کسی کو اچھا لگے چاہے کسی کو برا لگے چور، چور ہے چاہے وہ بڑے گھر کا ہو یا چھوٹے گھر کا ہو دونوں کی سزا ایک جیسی ہوگی۔

آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ محمکہ سیکنڈری ایجوکیشن میں ضلع کوئٹہ 266 بھرتیوں کا عمل ایک معمہ بن گیا ہے وزیراعلی معائنہ ٹیم کے چیئرمین کے پاس فائل پہنچنے کے بعد وہ حیران ہیں کہ وزیراعلی نے منظوری کس چیز کی دی ہے۔ محکمہ تعلیم کوئٹہ میں ہونے والی بھرتیوں کو وزیراعلی معائنہ ٹیم کی دو رکنی کمیٹی نے مکمل طور پر خلاف قانون قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دینے اور ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی سفارش کی تھی۔

جس کی روشنی میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے فائل پر لفظ (اپروڈ) منظور، لکھ دیا ہے اور فائل واپس وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کے چیئرمین کے آفس کو ارسال کردی ہے۔ دو ہفتے سے چیئرمین سی ایم ائی ٹی، وزیراعلی کے منظور (اپروڈ) کے معنی حاصل کرنے سے قاصر ہیں، اور نہ ہی مزید وضاحت کے لیے دوبارہ وزیراعلیٰ بلوچستان کو فائل ارسال کررہے ہیں، نہ ہی مزید کارروائی کے لئے متعلقہ محکموں کو یہ فائل ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے ارسال کی جا رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ سابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ طاہر عباسی کو بچانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ اور معاملے کو دبایا جارہا ہے جس کی وجہ سے حکومت کی کارکردگی پر مزید سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ واضح رہے کہ سابق سیکریٹری لیبر بلوچستان کو 3 اور سابق ایڈیشنل سکریڑی پراسیکیویشن بلوچستان کے خلاف 8 افراد کو غیر قانونی طریقے سے لگانے کے الزام میں نیب اور اینٹی کرپشن دو الگ کارروائیاں کرکے ان کو گرفتار کر چکی ہے ان کے خلاف کیسز عدالتوں میں بجھوائے گئے ہیں۔

جبکہ یہاں پر 266 افراد کی غیر قانونی بھرتی پرخاموشی معنی خیز ہے؟ وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کے آفس سے یہ بیان جاری کیا گیا ہے کہ محکمہ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ کی بھرتیوں کی انکوائری رپورٹ سے متعلق اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کی سختی سے تردید کرتے ہیں اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اور بھرتیوں سے متعلق انکوائری میں نہ تو کسی کے ساتھ کوئی رعایت برتی جارہی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ابہام پایا گیا ہے۔

ویسے پوچھنا یہ تھا کہ کیا آپ وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی عہدے میں بڑے ہیں؟ جب وزیراعلیٰ بلوچستان نے کارروائی کی منظوری دے دی

عوام پوچھتی ہے کہ وزیراعلی سے منظوری کے بعد چیئرمین سی ایم آئی ٹی نے کس قانون کے تحت یہ فائل اپنے پاس دو ہفتے سے رکھی ہوئی ہے اور اس سلسلے میں انکوائری مکمل ہونے سے عام آدمی کیا نتیجہ اخذ کرے کہ کیا چیئرمین کو وزیراعلی نے منظوری کے لئے فائل ارسال کی ہے یا چیئرمین کا مزید اس فائل میں کام اس حد تک رہ گیا ہے کہ وہ وزیراعلی کے حکم کی ترسیل کرتے ہوئے فائل متعلقہ محکموں میں بھجوائیں

خدارا مجھے اپنا دوست سمجھیں میں پیٹھ پیچھے چھورا گھونپنے والوں میں سے نہیں۔ درباری خوشامدیوں کے غول کے غول آپ کی منڈیر پر منڈلاتے ہیں لیکن آپ کے خلاف نہیں بلکہ آپ کے کچھ پیاروں کے خلاف اختلاف رائے کا ایک دریچہ گھٹن کے اس ماحول میں کھلا رہنے دیں ورنہ گھٹن کا ماحول بہت سوں کو بے دم کردیگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).