سرخ پھریرے أٹھانے آسان اور نبھانے مشکل ہیں


سرخ پھریروں اور کامریڈ چی گویرا کی تصاویر سے مزین مارچ نے میڈیا پر ایک کھلبلی سی مچا دی ہے اور یہ طوفاں جھوم کر فیض فیسٹیول سے أٹھے ہیں۔ میرا بھائی یاسر حسین کہا کرتا ہے کہ میں نے جس کسی کو تنقید کا نشانہ بنایا اسے ہمیشہ عزت ملی اور مجھے ہمیشہ شرمندہ ہونا پڑا اور جس کے ساتھ میں کھڑا ہوا اس کا جاگتا نصیب بھی سو گیا۔ کھولیں دکان کفن کی تو لوگ مرنا چھوڑ دیں والی بات ہے۔

اس کی بہت سی مثالیں ہیں مثلا آسٹریلوی بیٹسمین ڈین جونز کا آؤٹ آف فارم ہو جانا، رجی رجرڑسن کی ناکامی، سوویت یونین کا انہدام، ممد یوسف کا ٹیم میں آنا ( محمد یوسف ساتھی کرکٹر تھے اور برٹ میں ہی رہتے تھے لیکن ایک معمولی سی بات پر تلخی ہو گئی تھی جو بعد میں ختم بھی ہو گئی لیکن اس دوران انہوں نے بہت ترقی کی) ۔ فیض فیسٹیول کے دوران میں نے فاروق طارق صاحب کی زیر نگرانی دقیانوسی نعرے لگانے پر بائیں بازو کو آڑے ہاتھوں لیا اور اگلے ہی دن عروج شہرت کے بام عروج پر تھی حالانکہ نعرہ وہی دقیانوسی تھا کہ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے وغیرہ وغیرہ۔

کچھ ہی دن بعد سٹوڈنٹس کا مارچ ہوا اور بڑے تزک و احتشام سے لال جھنڈے، لال ٹوپیاں نظر آئیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں جب میں سوشلسٹ پارٹی میکلوڈ روڈ اور طبقاتی جدوجہد قلعہ گجر سنگھ سے اپنے گھر ریلوے کالونی بوہڑ والا چوک جایا کرتا تھا اور دل میں ظاہر ہے سرفروشی کی تمنا تھی کیونکہ اپ کسی بھی سرخ انقلاب والے دفتر سے نکلیں تو انقلاب بانہیں پھیلائے کھڑا ہوتا ہے اور مجھے تو سرخ رنگ بچپن سے ہی وراثت میں ملا تھا جب میرے تایا جان جو کہ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری رہے تھے، ضئیا آمریت کی وجہ سے زیرزمین تھے اور ان کے بچے زیر عتاب۔

کسی بھی سرخ انقلابی پارٹی یا اجتماع پرتنقید کرنے سے پہلے میں کارل مارکس سے وفاداری کا عہد دہرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپ کو کرئیرسٹ یا سوشل ڈیموکریٹ یا سٹالنسٹ یا ٹراسکائسٹ کہہ کر دائرہ سرخ سماج سے خارج کردیا جاتا ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ میں کیونکہ کسی رد عمل یا جذباتی سوچ کے تحت نہیں بلکہ موروثی طور پرسچا اور پکا مارکسسٹ ہوں لہذا میں ان کنورٹڈ لوگوں کی طرح دل بہلانے یا کتھارسس کے لئے سرفروشی کی تمنا نہیں کروں گا جیسے وہ جیکٹ والی لڑکی کر رہی تھی۔

آس پاس کی حالت یہ ہے کہ چودہ برس کی لڑکی کو دادو میں گڑھا کھود کر درگور کر دیا گیا، تھر میں ہزاروں بچے بھوک سے مر گئے، بے روزگار ماں باپ خودکشیاں کر رہے ہیں، چند لوگ دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت سمیٹ کر بیٹھے ہیں، شرح منافع کو بچانے کے لئے لوگوں کو کھڑے پیر نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے اور اس دکھ کا کوئی مداوا نہیں سوائے اس کے کہ خیرات کرنے والا یا کالے دھن والا کوئی سیٹھ ہاتھ آ جائے اور دیہاڑیاں لگ جائیں۔

سٹوڈنٹس نے سرخ جھنڈے تو أٹھا لئے کیونکہ یہ شاید اس گھٹن کے خلاف احتجاج ہے جو ریاستی جبر نے بپا کیا ہوا یا وہ گھٹن جو ناکام حکومتی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے یا وہ سماجی گھٹن جو مرد و خواتین کے میل جول پر غلاظت کا اظہار کرتے ہیں یا تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر نہ کرسکنے کے مواقع کا فقدان۔ سرخ جھنڈے اٹھانے والے عورت کی آزادی، فیسوں میں کمی اور سٹونٹس یونیز کی بحالی کے لئے آواز أٹھا رہے تھے لیکن یہ بچے شاید سماج کی جدلیاتی حرکیات سے واقف نہیں تھے اور عام طور پر احتجاجی ہوتے بھی نہیں کیونکہ وہ تو کسی گمنام سے احساس تلے جذباتی نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہ نعرے اتنے ہی دقیانوسی تھے جیسے آج یین اسلام ازم یا اخوت مسلم امہ کا نعرہ لگایا جائے۔

بہرحال عورت کی آزادی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کیونکہ عورت یا مرد کی آزادی اقتصادی ڈھانچے کی ترقی پرمنحصر ہوتی ہے۔ فیسوں میں کمی معقول بات ہے لیکن بجلی، گیس، پٹرول، ڈالر اور ویلتھ ٹیکس بڑھیں گے تو فیسیں بھی بڑھیں گی کیونکہ تعلیم دینے کے لئے رابرٹ اوون تو نہیں بیٹھے ہوئے۔ وہاں بھی ایک سیٹھ کلچر ہے جو بند مکھن شامی بیچ کر بھی منافع کماتا ہے اور سکول کالج کھول کر بھی۔ آپ اللہ کا شکر کریں کہ عمران خان نے گورنر ہاؤسز اور وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹیاں نہیں کھول دین ورنہ فیسیں اتنی ہوتیں کہ اپ یا تو نیا گھر خرید سکتے اور یا تعلیم حاصل کرتے۔

رہی بات سٹوڈنٹسی یونین کی تو سٹوڈنٹس یونیز بہرحال بڑے بڑے غنڈ ے اور بدمعاش ضرور پیدا کر چکی ہیں۔ نوے کی دہائی میں سٹوڈنٹس یونیز نے تعلیمی اداروں کو بدمعاشوں کے اڈے اورسیاستدانوں کے آلہ کار بنائے رکھا۔ امتحانی سینٹر بکتے تھے اور کبھی فلاں چوہدری کبھی فلاں چوہدری کلاشنکوف لے کر بیٹھا ہوتا تھا۔ چھوٹے شہروں سے احساس محرومی لئے طالب علم ان یونیز میں شامل ہو کر پاٹے خاں بنے بھرتے تھے اور پھر ایک دن شہباز شریف ک غصہ آ گیا۔

ایک ایک کر کے چوہدری قبروں میں اترتے گئے۔ یونین بازی سے پہلے تعلیمی اداروں میں روشن خیالی اور مکالمے کا کلچر پروان چڑھنا چاہیے اور اس کے لئے بہت قابل اساتذہ ہونے چاہیں۔ سرخ پھریرے اور انقلاب کو اگر سیاسی اور فکری بیانیوں کی حمایت حاصل نہ ہوں تو وہی ہو گا جو لینن کا مجسمہ گرنے کے بعد تیسری دنیا کی بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ ہوا۔ یوں بوکھلائے جیسے حاجیوں کو ان کا لیڈر ( بھلا سا نام یوتا ہے اس کا ) چھوڑ کر چلا جائے۔

بڑے بڑے سرخے بوہنترے بونترے پھرتے تھے جیسے غلطی سے مرگ والے گھر میں گھس آئے ہوں۔ شکر کریں این جی اوز کا جنہوں نے ان کو سہارا دیا ورنہ موم بتیاں جلانے کے قابل بھی نہ رہتے۔ سرخ پھریرے والے اگر تو وقتی ابال کے زیر اثر نکلے تھے تو اگلے نومبر تک ٹھنڈے ہو کر نظام پر تف بھیجتے رہیں گے اور اگر کوئی جوالا مکھی بیدار ہو گیا تو ان سوالوں کے حل ڈھونڈیں گے کہ شرح منافع کا لالچ مارکسی بنیادوں پر کیسے حل کیا جا سکتا ہے کیونک روایتی مزدور اور کسان تو رہا نہیں۔

مشینیں جب مزدور کو بے روزگار کر رہی ہیں اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بزنس ہو رہا ہے تو انقلاب کس کے ساتھ اور کہاں برپا کرنا ہے۔ محنت کش کون ہے اور محنتی وقت کا استیصال کیسے کر رہا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل عہد میں استیصال کا متبادل کیا ہے۔ آج ییداواری ذرائع سے زیادہ مارکیٹ اہم ہے جہاں پیداور کو کھپانا ہے۔ گلوبلائیزیشن کے جبر سے انسان کو کیسے بچانا ہے۔ آج بیگانگی کی وجہ پراڈکٹ سے تخلیقی تعلق قائم نہ ہونا ہے یا کچھ اور۔

جمہوریت اور انفرادی آزادی کو سرمائے کے جبر سے کیسے بچانا ہے۔ ظاہر ہے ایک متبادل معاشی نظام دینا پڑے گا جو ریاستی قید و بند سے آزاد بھی ہو، انسانوں کے لئے باعث کشش بھی ہو، شرح منافع کی بجائے انسانی بہبود کے لئے پیداوار کرے، تہذیبوں اور ثقافتوں کی انفرادیت کو بھی پامال نہ کرے، سائل اور وسائل کے حقوق بھی سلب نہ ہونے دے اور انسانوں کو گھٹیا مقابلہ بازی کی بجائے جمالیاتی اور تخیلیقی کاوشوں کو بروئے کار لانے کا موقع دے۔ یہ سوال ہیں سرخ پھریرے کے سامنے۔ سرخ سلام زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).