ماسی حاجراں جیسے لوگ کب آئیں گے؟


اللہ بخشے میری والدہ کو، ایک دن میں اُن کے ساتھ بیٹھا تھا میں اُس وقت آٹھویں جماعت میں تھا، شاید اسکول سے کوئی شکایت آئی تھی، وہ مجھ سے بولی بیٹا تمھیں ایک بات سناؤں، میں بولا جی ماں جی ضرور۔ تو وہ بولی بیٹا جب میں چھوٹی تھی تو ہمارے گاؤں میں ایک بوڑھی عورت دوسرے گاؤں سے آتی تھی، جس کا نام تھا ماسی حاجراں وہ گھر گھر جا کر کپڑا بیچا کرتی تھی۔ ہم سب لڑکیاں ہر ہفتے ماسی حاجراں کا انتطار کرتی کہ وہ آئے تو ہم اپنے لئے کپڑے خریدیں۔

پھر پتا نہیں کیا ہوا ماسی حاجراں نہ آئی، ایک مہینہ، دو مہنے یہاں تک کہ چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا اور ماسی حاجراں کا کچھ پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں گئی۔ ہم سب نے یہ یقین کر لیا کہ ماسی حاجراں شاید اب اِس دنیا میں نہیں رہی۔ ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ماسی حاجراں نہ آئی ہو۔ اچانک ایک دن گلی میں شور پربا ہو گیا کہ ماسی حاجراں آگئی، ماسی حاجراں آگئی۔ تمام محلے کی خواتین، بچے، مرد اپنے اپنے کام چھوڑکر بھاگے بھاگے ماسی حاجراں سے ملنے کے لئے دوڑے۔

ماسی حاجراں کو گلی کے بچوں نے گھیرا ہوا تھا، میں نے دیکھا کے ماسی کے لبوں پر بہت ہی خوبصورت اور میٹھی سی مسکراہٹ تھی، آج ماسی حاجراں پتہ نہیں کیوں کوئی بہت ہی پُرنور سی پَری لگ رہی تھی، سب سے خوبصورت، سب سے پیاری، سب سے بلند۔ ماسی حاجراں کو بڑی عزت اور پیار سے بٹھایا گیا اور سب ماسی کو گھیر کر بیٹھ گئے۔ سب ماسی سے پوچھنے لگے، ماسی کہاں تھی، کیوں نہیں آرہی تھی، کہاں رہی، ہم تو سب پریشان تھے کہ ماسی کہاں چلی گئی۔

ماسی سب کے سوالات خاموشی سے سنتی رہی اور مسکراتی رہی، پھر ایک عورت نے کہا ارے سب چُپ ہو جاؤ ماسی کو تو بولنے دو۔ سب خاموش ہو گئے اور ماسی حاجراں کو دیکھنے لگے۔ ماسی نے سب کی طرف پیا ر سے دیکھا اور پھر بتایا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میں حج کرنے چلی گئی تھی۔ کائنات کے خالق کا بلاوا آگیا تھا۔ پھر جب حج سے واپس آئی تو اپنے رب کا خوف دل میں ایسا بیٹھا کہ ناپ تول کرنے کا سوچ کر دل کانپ جاتا تھا۔ اِس لئے کپڑا بیچنے کا خیال دِل سے نکال دیا کہ اب حج کر لیا ہے تو کوئی ایسا کام نہیں کرنا جس سے میری پکڑ ہو، کہیں ناپ تول میں کمی نہ ہو جائے اور میری اپنے رَب کے ہاں پکڑ نہ ہو جائے۔

اَب میں کپڑا نہیں بیچتی۔ لوگ میرے گھر آٹے کے پیڑے لاتے ہیں اور میں اُن کو روٹی پکا کر دیتی ہوں۔ اماں کی یہ بات سننی تھی کہ میرے کم عمر ذہن کو ماسی حاجراں ایک فرشتہ محسوس ہوئی۔ بغیر دیکھے ہی ماسی حاجراں سے میرا ایک عقیدت کا رشتہ قائم ہو گیا۔ ایسے ہوتے تھے وہ پرانے لوگ جن کے نقشے قدم پر چلنا آج شاید معیوب سمجھا جاتا ہے، یا پھر بس ایسے لوگوں کے قصے سنا کر واہ واہ کی جاتی ہے۔ پھر دور ترقی کرتا چلا گیا۔

امریکہ، جاپان، چین جیسے ملکوں نے دنیا کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا اور ہم نے دین کو ترقی دینا شروع کردی۔ وہ کیا خوب کہا کسی نے کہ رَب کو تو مانتے ہے پر رَب کی ایک نہیں مانتے۔ اِسی طرح ایک اور واقعہ ترقی یافتہ دور کا یاد آیا کہ میں ایک جنازے میں شریک تھا مختلف لوگ جنازے کو دفنانے کے بعد ٹینٹ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جنازے والا گھر ہے۔ کاروباری باتیں ہو رہی تھی، قہقے بھی لگ جاتے تھے۔

اچانک کسی نے زور سے آواز لگائی اوہ بھائی کیا ہوا کھانا ابھی تک نہیں لگایا۔ میں خاموشی سے بیٹھا لوگوں کے رویوں کا جائزہ لے رہا تھا، دماغ میں یہ بھی چل رہا تھا کہ کیا میں نے اور میرے قریب بیٹھے اِن لوگوں نے اُس قبر میں نہیں جانا جس کو ہم ابھی ابھی دیکھ کر آرہے ہیں؟ اچانک میری سوچوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور ایک آواز میری کانوں سے ٹکرائی، وہ دیکھو اپنا یار صابِر آگیا، میں نے دیکھا کہ ایک صاحب کَلف لگے شلوار قمیض میں آئے اور سامنے تین چار لوگوں کے ساتھ کُرسی پر بیٹھ گئے۔

ا ب وہ آپس میں باتیں کرتے رہے، مرنے والے کے لئے دعائے مغفرت کی، پھر دیر سے آنے کا عذر بیان کیا کہ ایک پارٹی آگئی تھی، موصوف کا گاڑیوں کا شوروم تھا۔ پھروہ اپنے کاروبار کے بارے میں بتانے لگے، کہ گاڑیوں کے کام میں بڑا منافع ہے، مگر جھوٹ بہت بولنا پڑتا ہے۔ ساتھ یہ بھی بتا چکے تھے کہ الحمدللہ چار حج کئے ہیں، مگر کام کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ جھوٹ کے بغیر کام نہیں چلتا اُس کاروباری شخص کو شاید احساس ہی نہیں کہ وہ کیا بول رہا ہے اورباقی اُسکے اِسٹیٹس کی وجہ سے صرف گردن ہی ہلاتے رہے، مجھے نہیں پتہ یہ بات سن کر میں کانپا تھا یا نہیں مگر یہ بات سنتے ہی اچانک میرے تخیل میں ماسی حاجراں نمودار ہو گئی۔

میں شاید اپنے اِرد گِرد ماسی حاجراں کو ڈھونڈتا رہتا ہوں کہ کوئی تو ہو جس کے اندر ماسی حاجراں بستی ہو۔ جس کے دِل میں یہ خوف ہو کہ میرا رَب مجھے دیکھ رہا ہے، کل مجھ سے سوال بھی ہونا ہے۔ حلال حرام کا فرق اَب سمجھ ہی نہیں آتا۔ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ آخر ہم کون ہیں؟ میں کون ہوں؟ میں دن رات محنت کرتا ہوں، بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے، اِسکولوں کی بھاری فیسیں دیتا ہوں، تاکہ میرے بچے بہترین تعلیم حاصل کر سکے۔

موبائل فون کے اِستعمال پر ڈبل ٹیکس دیتا ہوں، لوگوں میں اپنی عزت بنانے کے لئے اُن کی خوشی کا خیال رکھتا ہوں، بلا وجہ چاپلوسی کرتا ہوں، اپنی انا کو مار کر جیتا ہوں کہ کہیں کوئی مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ میں اللہ کو بہت یاد کرتا ہوں، صدقہ بھی دیتا ہوں، زکوٰۃ بھی باقاعدگی سے ادا کرتا ہوں، تھوڑا بہت ٹیکس بھی دے دیتا ہوں، مگر پھر مجھے ملتا کیا ہے؟

گھر میں سکون نہیں، بجلی نہیں، ہسپتال میں علاج نہیں، پینے کو صاف پانی نہیں، زندگی محفوظ نہیں، انصاف نہیں، بچے بار بار بیمار، کبھی کوئی پریشانی، کبھی کوئی تکلیف۔ یار مجھے بھی سکون چاہیے، میں تنگ آگیا ہوں اِس زندگی سے، اور تو اور لوگوں میں اِنسانیت نہیں۔ سب خراب، کیا صرف میں اچھا ہوں۔ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ میں جو کام کرتا ہوں، وہ پیسے کے لئے ہے یا اِنسانیت کے لئے؟ میرا مقصد صرف پیسہ ہے نہ کہ خدمت۔

پھر حلال ہو یا حرام مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر پتہ نہیں کیوں مجھ مظلوم کو اتنی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ اللہ مجھ پر رحم کرے۔ دن رات کی محنت کے بعد ملتا کیا ہے، سوائے پریشانیوں کے۔ اور میں کیا کروں کہ مجھے سکون حاصل ہو؟ لیکن کبھی سوچا نہیں ہم نے کہ سکون کیسے ملے گا، سکون آخر ہے کس چیز میں؟ جب ہمیں صحیح اور غلط میں تمیز ہی نہیں بتائی جاتی، تعلیم مہنگی سے مہنگی دی جاتی ہے، مگر تربیت کا دور دور تک نام ونشان نہ ہو، دینی تعلیم کو بس فارغ وقت میں حاصل کرنے والی چیز سمجھا جاتا ہو، تو پھر کیسے ہم اِنسانیت کو سمجھ پائینگے؟

کیسے جان پائینگے کہ اللہ پاک نے اِنسان کو اَشرف المخلوقات کیوں کہا؟ کون بتائے گا کہ جب اللہ ایک ہے، رسول ایک ہے، قران ایک ہے، تو پھر عقیدے کیوں مختلف ہیں؟ کیوں ہم لوگوں کی عزتوں، اُن کے مال، اُن کی جان کے رکھوالے نہیں بن پا رہے، کہنے کو ہم مسلمان ہے، پھر کیوں ہم صرف لٹیرے بنتے جارہے ہیں، ہمیں کیوں ہمارے اپنے ہی زبان کی بنیاد پر، رنگ و نسل کی بنیاد پر بانٹ رہے ہیں، لڑا رہے ہیں، اور ہم اِتنے جاہل ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم اِستعمال ہو رہے ہیں۔

بات تربیت کی نکلی تو بڑی سوچ کا مقام ہے کہ ہم اپنی نسل کی تربیت کیسے کر رہے ہیں؟ آج کل ٹیکنالوجی نے ہم کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، ہم وہ قوم بن گئے ہیں جو ٹیکنالوجی کو صرف استعمال کرتی ہے، بناتی نہیں ہے، آج کی ماں چھوٹے چھوٹے بچوں کو صرف اِس بات پر موبائل تھما دیتی ہے کہ میرا بچہ کھانا نہیں کھاتا جب تک اِس کے ہاتھ میں موبائل نہ دے دوں، پھر ہم اِس بات پر خوش ہوتے دیکھو کتنا چھوٹا ہے اور ساری ایپلیکیشنز کیسے فٹا فٹ کھول لیتا ہے، پھر وہ بچہ چھوٹی عمر میں ہی اُن سب چیزوں کو جان جاتا ہے، جو ابھی اُس کے جاننے کی نہیں، ہم بچے کو نبیﷺ کی باتیں، صحابہ کے قصے نہیں سناتے، ہم بچوں کو یوٹیوب پر انگریزی نظمیں لگا کر دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ہماری تباہی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔ آخر کب ماسی حاجراں جیسے لوگ آئیں گے جو ہماری نئی نسل کی تربیت کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).