نئے انتخابات کا مطالبہ


پاکستان میں انتخابات کی تاریخ ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہے۔ کوئی بھی فریق جو انتخاب ہارتا ہے وہ انتخابی نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور ان کے بقول ہمیں ایک منظم سازش کے تحت انتخابی جیت سے دور رکھا گیا ہے۔ عمومی طور پر انتخابات او راس کے نتائج میں اسٹیبلیشمنٹ کے کردار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جو جماعتیں انتخابات جیت جاتی ہیں ان کے نزدیک اسٹیبلیشمنٹ کا کردار منصفانہ اور شفاف ہوتا ہے جبکہ ہارنے والے اسٹیبلیشمنٹ پر سارا بوجھ ڈال کر انتخابات کی حیثیت کی ساکھ کو خراب کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس سوچ او رمنطق کے بعد جو بھی الیکشن ہوگا اس کی شفافیت کو کوئی قبول نہیں کرے گا۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ یہاں سیاست، جمہوریت اور انتخابات کے مسائل کافی حد تک اعتماد سازی کے بحران کا شکار ہیں۔

اس وقت پاکستان کے سیاسی بحران میں ایک نکتہ 2018 کے انتخابات کی ساکھ کا ہے۔ جو سیاسی بحران ہے یا حکومت کے خلاف ایک بڑی حزب اختلاف کی تحریک ہے اس کا نکتہ بھی 2018 کے انتخابی نتائج ہیں۔ اس نکتہ کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف کی حکومت کو عوامی حکومت یا ووٹ کی مدد سے بننے والی حکومت کے مقابلے میں سلیکٹیڈ حکومت کے سیاسی طعنے کا سامنا ہے۔ یہاں سلیکٹیڈ سے مراد خالصتا اسٹیبلیشمنٹ اور عدلیہ سمیت الیکشن کمیشن یا بیوروکریسی کا کردار ہے۔ اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر حزب اختلاف کی جماعتیں جن میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سرفہرست ہیں نئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کے بقول ملک کے سیاسی بحران کے حل کا ایک عملی نتیجہ ملک میں نئے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی شفاف حکومت ہوگی۔

یہ نعرہ یا سیاسی مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ اس مطالبہ سے بھری ہوئی ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد بھی عمران خان اور تحریک انصاف کا مطالبہ بھی نئے انتخابات تھا۔ دھاندلی پر بننے والے عدالتی کمیشن نے اس بات کر تردید کی کہ 2013 کے انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی ہوئی تھی۔ اس فیصلہ کو تحریک انصاف کو قبول کرنا پڑا۔ لیکن اس وقت موجودہ حزب اختلاف کسی بھی قانونی یا ادارہ جاتی نظام میں جانے کے لیے تیار نہیں۔

وہ سڑکوں پر موجود ہے اور سیاسی بنیاد پر نئے انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کی کون تحقیقات کرے گا کہ 2018 کے انتخابات جعلی یا دھاندلی پر مبنی تھے۔ یقینی طور پر اس کا بہترین فورم تو قانونی فورم ہیں۔ کیونکہ سیاسی محاذ پر اس مسئلہ کا کوئی حل ممکن نہیں او رنہ ہی یہاں کوئی ایسی بڑی عوامی تحریک چل رہی ہے جو ریاست یا حکومت کو سیاسی طو رپر مجبور کرسکے کہ وہ نئے انتخابات کا راستہ اختیار کرے۔

2013 کی حکومت میں تحریک انصاف کے مطالبہ کے بعد انتخابی اصلاحات او رشفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ایک 33 رکنی بڑی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے افراد شامل تھے۔ اس کمیٹی کی سفارشات بھی موجود ہیں۔ اسی طرح انتخابی دھاندلی کا جائزہ لینے والے عدالتی کمیشن نے بھی الیکشن کمیشن کے لیے 42 کے قریب ایسے نکات، تجاویز کی نشاندہی کی تھی جس سے انتخابی بے ضابطگیوں کو ختم کرنے اور شفا ف انتخابات کو یقینی بنانا تھا۔

لیکن پارلیمانی کمیٹی یا عدالتی کمیشن کی تجاویز کا بھی ایسا نتیجہ نہیں نکل سکا جو سب کو انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے پر آمادہ کرسکے۔ اصل میں ہماری سیاسی جماعتوں کا مقصد شفاف انتخاب نہیں بلکہ انتخابی نتائج میں خود کو حصہ دار بنا کر اپنے حصہ کو یقینی بنانا ہے۔ کیونکہ ماضی اور حال میں سیاسی جماعتوں نے اپنے داخلی اور خارجی محاذ پر ایسے کوئی کام یا اصلاحات نہیں کیے جو شفاف انتخابات کو یقینی بناسکے۔

اسی طرح ہمیں سیاسی جماعتوں کی سطح پر ایسے کوئی کام دیکھنے کو نہیں ملتے جو ہمیں ظاہر کرسکے واقعی ہمارا سیاسی نظام کوئی بڑی انقلابی یا اصلاحی تبدیلی چاہتا ہے۔ یہ جو بار بار سیاسی انتخابات میں اداروں کی مداخلتوں کی بات کی جاتی ہے اس کے آگے بند باندھنے کے لیے سیاسی محاذ پر کیا گیا۔ سیاسی اقتدار میں ایسی کون سی اصلاحات کی گئی جس نے واقعی ایک شفا ف نظام کی طرف پیش قدمی کرنے میں مدد فراہم کی۔ مسئلہ کسی ایک جماعت کا نہیں ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں جوسڑکوں پر انقلاب کی بات کرتی ہیں اور نجی محفلوں سمیت طاقت کے مراکز میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اقتدار کی بند بانٹ کا کھیل کھیلتی ہیں۔ اسی اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ نے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے نظام کو کمزور کیا ہے۔ منطق یہ دی جاتی ہے کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ لیکن اس کا عملی نتیجہ ہمیں طاقت کے مراکز میں جوڑ توڑ کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی یا جے یو آئی سمیت جو بھی جماعتیں یا اہل دانش سمجھتے ہیں کہ اس ملک کا مسئلہ فوری طو رپر نئے انتخابات ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ یہ مطالبہ کسی ایک جماعت کے خلاف تو ہوسکتا ہے، لیکن اصل مسئلہ کسی کہ اقتدار کو ختم کرکے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا ہے۔ کچھ دیر کے لیے اگر اس مطالبہ کو مان لیا جائے کہ ہمیں فوری انتخابات درکار ہیں۔ اگر انتخابات ہوجاتے ہیں او رمطالبہ مان لیا جاتا ہے تو نئے ہونے والے انتخابات کے نتائج کو ہارنے والے کیونکر قبول کریں گے۔

یہ جو تجربہ حکومت او رحزب اختلاف کے درمیان طے ہوا تھا کہ باہمی رضا مندی سے چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری وہ بھی کوئی مثبت نتائج نہیں دے سکا۔ مثال کے طور پر نئے انتخابات ہوتے ہیں اور آج اقتدار والے ہار جاتے ہیں اور حزب اختلاف جیت جاتی ہے تو یہ بحران ختم نہیں ہوگا بلکہ محض کردار بدل جائیں گے اور حالات کی سنگینی ایسی ہی رہے گی۔

ہمارا مسئلہ نئے انتخابات سے زیادہ شفاف سیاسی نظام ہے۔ اس شفاف سیاسی نظام میں ایک مسئلہ انتخابات کا ہے جب کہ مجموعی سیاسی نظام کو شفاف بنانے کے لیے حکومت، حزب اختلاف یا سیاسی قوتوں میں بہت کچھ طے کرنا باقی ہے۔ اس کے لیے سیاسی محاذ پر ایک مضبوط طرز کی سیاسی کمٹمنٹ درکار ہے۔ اس سیاسی کمٹمنٹ کی کنجی واقعی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں ہو اور یہ لو گ پس پردہ اسٹیبلیشمنٹ کا آلہ کار بننے کی بجائے واقعی سول بالادستی کا مسئلہ اہم ہونا چاہیے۔ اگر ہم نے سیاسی مداخلتوں یا اداروں کی مداخلتوں کو روکنا ہے توپہلے اپنے اندر تو اتفاق کریں کہ ہم بھی کسی غیر جمہوری سیاست یا پس پردہ قوتوں کا ساتھ باہمی گٹھ جوڑ نہیں کریں گے۔ اسی طرح شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے جو بنیادی نوعیت کے تقاضے ہیں اس پر عملد درآمد کو یقینی بنایاجائے گا۔

جو لوگ بھی ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں ان کے سامنے اصل ہدف حکومت کا خاتمہ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے افراد اس حکومت کے خاتمہ یا نئے انتخابات کا مطالبہ ہی پس پردہ قوتوں سے کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے تو براہ راست مطالبہ کیا جن سلیکٹڈ لوگوں نے اس حکومت کو مسلط کیا ہے وہی اس کا خاتمہ کریں۔ اس مطالبہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سول بالادستی یا قانون کی حکمرانی یا سیاسی مداخلتوں کا کھیل کتنا حقیقی مطالبہ ہے۔

شفاف انتخابات کے لیے ہمیں پانچ سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اول سیاسی جماعتیں اپنے داخلی محاذ پر جمہوری مزاج پیدا کریں اور اپنے اندر جمہوری انتخابات کے عمل کو یقینی او رشفاف بنانا ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں کے داخلی انتخابات محض مذاق یا دھوکہ بن کر رہ گئے ہیں۔ دوئم الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنا اور سیاسی بنیادوں پر تقرری کی بجائے میرٹ پر ادارہ جاتی اصلاحات کو یقینی بنانا، سوئم نگران حکومتوں کا تجربہ کوئی مثبت نتائج نہیں دے سکا۔ اس کے مقابلے میں پہلے سے موجود حکومت کی نگرانی میں ہی انتخاب اور ادارہ جاتی عمل کو مضبوط کرنا، چہارم بیورو کریسی کے نظام کو شفاف بنانا او ران کی سیاسی مداخلتوں کو روکنا، پنجم انتخابات کی نگرانی کے نظام کو موثر بنانا او راس میں سول سوسائٹی کی شمولیت قائم کرناہونا چاہیے۔

اس لیے ہمیں نئے انتخابات کے مطالبہ کی بجائے انتخابی نظام کو شفاف بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ حکومت اور حزب اختلاف اگر واقعی اس ملک میں شفاف انتخابات چاہتے ہیں تو پھر باہمی سطح پر بیٹھ کر یا پارلیمنٹ کی مدد سے ایسے اقدامات کریں جو شفاف انتخابات کی ضرورت بنتے ہیں۔ وگرنہ ہر انتخابات کے بعد نتائج کو قبول نہ کرنا اور مسئلہ کے حل میں نئے انتخابات کا مطالبہ ہمارے پہلے سے موجود مسائل کو کم کرنے کی بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ مسئلہ فوری انتخاب نہیں بلکہ شفاف سیاسی نظام ہے او راسی کی طرف ہمیں اپنی جدوجہد کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).