سرفروشی کی تمنا کیوں ہمارے دِل میں ہے!


میں نے بچپن نہیں، مارشل لاء دیکھا۔ لیکن ہماری ساری تنقید جنرل ضیاء کے لئے تھی۔ ہم نے کبھی بھی فوج کو بُرا بھلا نہیں کہا۔ مُجھے اب بھی اپنے بچپن کے دن یاد ہیں جب مارشل لاء ہونے کے باوجود سیاچن کانفلکٹ کے دنوں میں ہم پاکستان کے جھنڈے لے ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگاتے تھے اور چھوٹے بچوں کو اُن کی پہلی سالگرہ کے دن فوجی وردی پہنا کے فوٹوگرافرز کی دکانوں پر لے جاتے تھے۔ میرے پاس اب بھی اپنے چھوٹے بھائیوں کی وردیوں کی تصاویر محفوظ ہیں۔

یہی کُچھ ہم نے مُشرف کے لئے دیکھا۔ وُکلاء تحریک میں ”گو مُشرف گو“ ہی ہوا، آپ ایک نعرہ دکھا دیں جو فوج کے خلاف لگا ہو۔ تو اب کیا ہوگیا ہے؟ راحیل شریف کے دور میں تو مُجھ جیسے ڈیموکریٹس بھی ملٹری ڈپلومیسی کے مداح تھے تو واقعی سوچیئے کہ اب ایسا کیا ہوگیا ہے جو وزیرستان کے نوجوانوں سے لے کے ابھی لاہور کے اسٹوڈنٹس مارچ میں ہم ایسے نعرے دیکھ رہے ہیں، جِن کا ہم نے آمریت میں بھی نہیں سوچا۔ ہم تو مارشل لاء ہونے کے باوجود پاکستان کے جھنڈے لہرا کے نکلتے تھے تو وہ اب معدوم شدہ کمیونزم کے جھنڈے کیوں لہراتے ہیں؟

کیوں نوجوانوں میں یہ تاثر ہے کہ جو پاکستان کا جھنڈا لہرائے گا وہ اپنے غفور بھائی کی ففتھ جنریشن کا ٹرول ہوگا۔ اور جو یہ نہیں کرے گا وہ ترقی پسند۔ پہلے صرف وزیرستان میں نعرے لگے، وہاں دبایا گیا تو لاہور، اب لاہور میں گرفتاریاں شروع تو کل پُورے پاکستان میں اگر نوجوان نکل آئے تو کیا آپ مُلک میں تیونس طرز کی ایک نئی عرب اسپرنگ لے کے آئیں گے؟

ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے، اور ماں اپنے ناراض بچے کو غدارنہیں کہہ سکتی۔ آپ سوچیں کہ کیوں نوجوانوں میں ریاست کے خلاف اتنا غُصہ ہے؟ لاہور کے نوجوان تو اکثریت میں پی ٹی آئی کے ہوتے تھے، تو پھر اب یہ ”لال لال“ کے نعرے کیوں لگ رہے ہیں؟ جب دو مُختلف انتہائیں اکٹھی ہوں، جب لیفٹ اور رائٹ ونگ کے بچے، جب جیکٹ اور حجاب والی بچیاں ساتھ نعرے لگا رہی ہیں تو یہ ایک سیاسی معاملہ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟ کیوں ان بچوں کی جدوجہد کو بیرونی فنڈنگ سے جوڑا رہا ہے، کیوں اِن کی مُحب وطنی پر شبہ کیا جارہا ہے۔ بات جب اسٹوڈنٹ یونینز کی ہے تو اُن کی بحالی کو سیاسی کے بجائے ایک سماجی مسئلہ کیوں نہیں سمجھا جاتا؟ ہم تو یہاں یونینز۔ کے بغیر یونیورسٹیز اور تعلیم کا تصور تک نہیں کرسکتے۔

مُجھے ابھی اپنی پی ایچ ڈی کا مسودہ دسمبر میں جمع کروانا تھا لیکن سوفٹ ویئر ایڈیٹنگ میں نوآموز ہونے کی وجہ سے میں ایک چیپٹر میں اٹک گئی جب کے ڈیڈلائین میں صرف چار ہفتے باقی تھے۔ میں مدد کے لئے سیدھا (ویل بینگ) اسٹوڈنٹ یونین والوں کے پاس گئی، جنہوں نے نہ صرف میری اُس سوفٹ وئیر کو سیکھنے میں مدد کا وعدہ کیا بلکہ ایڈمنسٹریشن کو دو مہینے کی ایکسٹینشن کا خط بھی لکھ ڈالا، جو کہ مُجھے تو شاید انکار کر دیتے لیکن اسٹوڈنٹس یونین کے خط کو ٹال نہیں سکے۔

یہ تو میرا یونین سے ذاتی تجربہ ہے، لیکن یہاں لیکچرز کی ٹائمنگس سے لے کے ہراسمنٹ اور پارکنگ تک کے سارے معاملات طلبہ تنظیمیں طے کرتی ہیں، جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ طلبہ کی سیاسی کمیٹیاں ایک بالکل علیحدہ معاملہ ہیں اور آپ کی مرضی پر مُنحصر ہے کہ اُن کو جوائن کریں یا نہ کریں۔ لیکن اسٹوڈنٹس یونین خالصتًا ویل بینگ کا معاملہ ہے اور یہی بات یونینز کے بجٹ کی بھی ہے۔ آپ کیوں ہر مطالبے کو اینٹی اسٹیٹ قرار دے کے اُسے متنازعہ بنا دیتے ہیں؟

کیونکہ اب یہ اسّی کی دہائی والے نوجوان نہیں، ہمارا تو ہمارے مُحلے والوں کو پتہ نہیں ہوتا تھا کہ جو اخبار میں کالم آرہا ہے تو اُسے لکھنے والی پڑوس کے سائیں جونیجو کی بیٹی ہے۔ اب تو لاہور کی ایک بچی ”لال لال“ کا نعرہ لگاتی ہے اور نیویارک تک میں لوگ اُسے گوگل کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم اس جنریشن کو دبا کر نہیں رکھ سکتے، اور یہی وہ بُنیادی بات ہے جو ریاست کے ”کرتا دھرتاؤں“ کو سمجھ نہیں آتی کہ آپ اس نسل کو جتنا دبا کے رکھیں گے وہ اُتنی ہی شدت سے اُبھریں گے۔

اور وہ اُبھرنا آپ کی مُخالفت ہی میں ہوگا کہ ہر وہ بچہ جو پاکستان کا جھنڈا لہرائے، وہ اُن میں سے نہیں سمجھا جائے گا۔ آپ کو چاہیے کہ آپ اُس تقسیم کو ختم کریں۔ آپ کیوں ہر اُس اسٹوڈنٹ پر کیس کرتے ہیں جو صرف حقوق کی بات کرتا ہے لیکن سینکڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر آنے کے باوجود ایک گملا تک نہیں توڑتا۔ آپ اُس عدم تشدد کے حامی بچے سے ڈائلاگ کیوں نہیں کر تے؟

میری رائے میں ہمارے معاشرے میں عدم برداشت، فرسٹریشن، اور تشدد کا عنصر ہی اس لئے بڑھا ہے کہ طلباء تنظیمیں اور اُن کا ڈسپلن ہی نہیں۔ یونینز ہمارے بچوں کا آئینی حق ہیں، آپ اُن کو اس بنیادی حق سے محروم نہ کریں۔

اور اب جاتے جاتے کُچھ پوسٹ ایکسٹینشن سیناریو کی طرف، گو کہ مُجھے سینئرز کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی کہ میں پاکستان کی سیاسیات پر اپنے کالمز میں پنجہ آزمائی سے گُریز ہی کروں کیونکہ میرا لکھنا مُردے کے کفن پھاڑ کے بولنے کی طرح ہوتا ہے، لِہٰذا میں تقریباً ڈیڑھ یا دو سال کالم لکھنے سے دُور رہی کیونکہ ادھر میری سول مِلٹری ریلیشنز پر پی ایچ ڈی شروع ہوئی اور اُدھر ڈان لیکس ہوگیا اور پھر پاکستان میں اُس موضوع کے علاوہ دُوسری کوئی بات ہی نہ رہی۔

بقول پاؤلا کوئلہو کہ ”جب آپ کُچھ چاہتے ہیں تو پُوری کائنات آپ کو اُسے حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے“، میری پی ایچ ڈی کمبخت نے بھی لا آف اٹریکشن کو کُچھ ایسا اٹریکٹ کیا کہ مُلک میں سوائے ”ملٹری کے پولیٹیکل انٹروینشنزم“ کے علاوہ کوئی دُوسرا موضوع ہی نہیں رہا اور بنی اسرائیل کو من و سلویٰ کی برسات کے مانند کوئی ایسا دن نہیں ہوتا تھا جس دن مُجھے اپنی پی ایچ ڈی کے لئے کوئی سِزلنگ (sizzling ) مواد نہ مِلا ہو۔ تو یہ مُجھ پر اللہ کی خاص رحمت نہیں تو اور کیا ہے۔

اور ایسا ہی کُچھ حالیہ ایکسٹینشن کا معاملہ ہے جس میں ہم نے تاریخ یوں بنتے دیکھی کہ ایک افسر نے خُود اپنے باس کے دفتر میں بیٹھ کے اپنی تقرری کا وہ ڈرا فٹ ٹھیک کروایا جو کہ وزارتِ داخلہ کا ایک سیکشن افسر بھی بنا سکتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ آج مارکس اینڈ اسپینسر کے کیفے میں سندھی کلچر ڈے کی مُبارک دینے کے بعد ”اُنہوں نے“ چائے پیتے ہوئے کہا ”مُجھے لگتا ہے کہ آپ قومی حکومت کی طرف جا رہے ہیں“، لیکن میں نے انکار میں سر ہِلاتے ہوئے کہا کہ پھر آپ عمران کو اور اُس کی ”ایروگینسس“ کو نہیں جانتے۔ وہ ”نہ کھیڈاں گا، نہ کھیڈن دیواں گا“ والوں کی کیٹیگری میں آتا ہے۔ لِہٰذا اب یہ ”اُن“ کے سوچنے کا وقت ہے کہ وہ ایک سیف وے (way) کو اسٹریٹیجائز کرتے ہوئے مئی سے پہلے نئے انتخابات کی طرف لے کے جاتے ہیں اور پھر ایسا سیٹ اپ لاتے ہیں جو ”جی سر“ کہہ کے سادہ یا دو تہائی اکثریت کے ساتھ ایک نئی قانون سازی، سمپل ایکٹ آف پارلیامنٹ، یا ایک نئی آئینی ترمیم لائے۔ یا پھر مائنس عمران کے آپشن کی طرف جاتے ہوئے قومی حکومت بنائے کیونکہ چیلنج اپوزیشن نہیں بلکہ خُود عمران ہے، جو کہ اپوزیشن کو اتنا زچ کرے گا کہ اُن کے مُکمل ”راضی“ ہونے کے باوجود کوئی قانون سازی ہی نہ ہو۔

کیونکہ جنرل اسلم بیگ کا ایک چینل کو چلنے والا انٹرویو تو سنسر کی نذر ہوگیا لیکن اُن کی دو باتیں ایک پوری فلاسفی بیان کر گئیں۔

ایک تو یہ کہ عمران سے پہلے کسی بھی حکمران کو فوج کا اتنا تعاون نہیں ملا۔ دوسری یہ کہ فوج میں بھی یہ تاثر جڑ پکڑ رہا ہے کہ اس بھرپور تعاون کے باوجود بھی عمران نے جان بوجھ کر آرمی چیف کی مدت ملازمت کو متنازع بنا دیا۔ جنرل صاحب کی تھیوری یہ تھی کہ عمران اتنا بھی ناسمجھ نہیں کہ ایک سمری تین بار بنائی گئی، اور تینوں بار اُس میں اتنی سنگین غلطیاں نکلیں کہ ججز نے بھی تنگ آکے باجوہ صاحب کو اُس قانون کے تحت ایکسٹینشن دی جو چھ ماہ بعد بننا ہے۔

یعنی کہ باجوہ صاحب کو اُس قانون کے تحت کام کرنے کو کہا گیا ہے جو ابھی ایگزسٹ (exist) ہی نہیں کرتا، اور اگر کوئی شرارت پر آئے تو تین ججوں کے اس فیصلے کو فُل کورٹ جوڈیشل ریویو میں چیلنج بھی کرسکتا ہے۔ لِہٰذا بے یقینی کی ایک مستقل صورتحال اگلے چھ ماہ تک مُسلط رہے گی تو پھر نُقصان کس کا ہُوا، وہ آپ بھی سوچیئے۔

شمع جونیجو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمع جونیجو

شمع جونیجو علم سیاسیات میں دلچسپی رکھنے والی ماہر قانون ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی (آنرز) کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات میں میں ایم اے کیا۔ ایس او اے ایس سے انٹر نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز اور ڈپلومیسی میں ایم اے کیا۔ آج کل پاکستان مین سول ملٹری تعلاقات کے موضوع پر برطانیہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے سے پہلے شمع جونیجو ٹیلی ویژن اور صحافت میں اپنی پہچان پیدا کر چکی تھیں۔

shama-junejo has 15 posts and counting.See all posts by shama-junejo