آصف زرداری کی ضمانت: ملک میں گھٹن اور نفرت کا ماحول ختم کیا جائے


بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا ہے کہ نیب کے زیر حراست آصف علی زرداری کی ضمانت کے لئے بیماری کی بنیاد پر درخواست دائر کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ انہیں پاکستانی ڈاکٹروں پر بھروسہ نہیں ہے۔ اس سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ پیپلز پارٹی آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے بعد علاج کے لئے انہیں ملک سے باہر بھیجنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ پاکستانی عدالتوں اور حکومت کو اس بارے میں جلد از جلد سہولت فراہم کرنی چاہئے۔
دو ہفتے قبل مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی ضمانت اور لندن روانگی کے بعد عدالتوں یا حکومت کے پاس آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت قبول کرنے اور انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کے باوجود جب تک سابق صدر آصف زرداری کو عدالتوں سے ریلیف نہیں مل جاتا، اس حوالے سے کوئی بات یقین سے کہنا ممکن نہیں ۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ نواز شریف کی طرح آصف زرداری بھی متعدد سنگین بیماریوں میں مبتلا ہیں اور انہیں بھی علاج اور توجہ کی ضرورت ہے جو جیل یا پمز ہسپتال میں بوجوہ فراہم نہیں ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے پاکستانی ڈاکٹروں پر شبہ کا ظاہر کرنے کا مطلب دراصل موجودہ نظام اور حکومت کے طریقہ کا ر پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ آصف زرداری کے معاملہ میں حکومت اور عدالتوں نے غیر ضروری تاخیری ہتھکنڈے استعمال کئے ہیں اور انہیں مشکل حالات میں قید رکھ کر دراصل انتقامی رویہ کا کھل کر اظہار کیا گیا ہے۔ آصف زرداری یا بلاول بھٹو زرداری نے ابھی تک اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف کی درخواست نہیں کی تھی تاہم احتساب عدالت نے نہ صرف جعلی کاؤنٹس کیس میں آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کوجون سے اب تک قید میں رکھا ہے بلکہ ان کی اس درخواست کو بھی قبول نہیں کیا گیا کہ انہیں علاج کے لئے کراچی جانے کی اجازت دی جائے۔
آصف زرداری نے ماضی کی طرح اس بار بھی حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی قسم کی رعایت نہ لینے اور ضمانت کی درخواست دائر نہ کرنے پر اصرار کیا تھا، البتہ اب اپنی صاحبزادیوں کے اصرار پر وہ ضمانت کی درخواست دینے پر راضی ہوئے ہیں۔ جیل اور اب ہسپتال میں ملک کے سابق صدر کے ساتھ ناروا برتاؤ کیا گیا ۔ انہیں اپنے ذاتی معالج کو ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ بمشکل کیا گیا تھا۔ اس دوران اہل خانہ اور عزیزوں کو بھی آصف زرداری سے ملاقات کے لئے غیر ضروری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالانکہ آصف زرداری کو تو نواز شریف کے برعکس ابھی تک کسی مقدمہ میں سزا بھی نہیں دی گئی۔
سندھ کے شہری کی حیثیت سے ضروری تھا کہ آصف زرداری کو گرفتاری کے بعد کراچی منتقل کیا جاتا۔ تاہم اس بات پر اصرار کیا گیا کہ انہیں راولپنڈی میں ہی قید رکھا جائے گا۔ بیماری کی خبریں آنے کے بعد بھی ان کی حالت سے لاتعلقی کا مظاہرہ بھی حکومت کے انتقامی مزاج اور نظام کے نقائص کی کہانی بیان کرتا ہے۔ حکومت ، عدالتیں اور ادارے اگر واقعی ملک میں بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ماضی میں کی گئی غلطیوں کا مرتکب ہونے والے اعلیٰ عہدیداروں کو سزا دلوانا اہم سمجھا جارہا ہے تو احتساب کے طریقہ کار اور نظام کو شفاف اور منصفانہ بنانا پڑے گا۔ احتساب کو سیاسی لیڈروں کے خلاف انتقام کے لئے استعمال کرتے ہوئے وقتی فائدہ تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے طویل المدت نقصان کا اندیشہ رہے گا۔
آصف زرداری کا معاملہ اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ ماضی میں بھی انہیں دس برس تک کسی مقدمہ میں سزا کے بغیر قید رکھا گیا تھا۔ ان کے خلاف عائد کئے گئے کسی الزام کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔ تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے بدعنوانی اور سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار کے جو قصے بیان کرنا شروع کئے تھے، ان کا سلسلہ اب تک جاری ہے حالانکہ انہیں اقتدار سنبھالے ڈیڑھ برس مکمل ہونے کو ہے۔ ایک عدالتی حکم کے بعد کابینہ نے گزشتہ ماہ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کرنے کے بعد ، سیاسی فائدے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے۔
19 نومبر کو نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد عمران خان نے تواتر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ نواز شریف دھوکہ دہی سے جھوٹ بول کر ملک سے ’فرار‘ ہوئے ہیں اور عدالتوں نے ’طاقت ور‘ کا ساتھ دیتے ہوئے انہیں باہر جانے کی سہولت فراہم کی تھی۔ اگرچہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے واضح کردیا تھا کہ نواز شریف کابینہ کے فیصلہ کے بعد بیرون ملک گئے ہیں لیکن تحریک انصاف سابقہ حکمرانوں کی کردار کشی کے جس مشن پر گامزن ہے ، وہ اس کا سلسلہ بند کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
اس جذباتی اور بے بنیاد نعرے بازی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت گزشتہ سولہ ماہ کے دوران کارکردگی دکھانے اور ملکی معیشت کو راہ راست پر لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ حکومت کے نمائندے عالمی اداروں کی رپورٹیں دکھا کر اور معاشی اشاریوں کی تفصیلات بتاکر یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک کے اقتصادی مسائل پر قابو پالیا گیا ہے اور اب سرمایہ کاری کے دروازے کھلنے والے ہیں جس کے بعد دھڑا دھڑ روزگار ملنے لگے گا اور عوامی سہولتوں میں اضافہ ہوگا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ معاشی اشاریوں میں تبدیلیاں آئی ایم ایف کے پیکیج پر سختی سے عمل کرنے کے سبب رونما ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ سے افراط زر اور عام لوگوں کی مالی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کے متعدد پروگرام مکمل کرچکا ہے۔ اگر اس ادارے کے طریقےملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے قابل ہوتے تو تحریک انصاف کی حکومت بعد از خرابی بسیار آئی ایم ایف پیکیج لینے پر مجبور نہ ہوتی۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مالی پیکیجز کی وجہ سے جو بہتری گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران دیکھنے میں نہیں آئی ، وہ اب بھی رونما نہیں ہوگی۔
عمران خان اور تحریک انصاف البتہ اس ناکامی اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا کا سارا الزام سابقہ حکومتوں اور نام نہاد کرپشن پر عائد کرکے عوام میں اپنی سیاسی ساکھ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ بدعنوانی پاکستانی نظام کا مسئلہ ہے، اس کا تعلق کسی ایک فرد یا جماعت سے نہیں ہے۔ ملک میں اب بھی رشوت کا دور دورہ ہے، عام آدمی کوئی آسان سا کام کروانے کے لئے اب بھی رشوت دینے یا زیادتی برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ تحریک انصاف بدعنوانی کے خلاف نعرے لگانے کے باوجود نظام کی اصلاح کرنے کے لئے کوئی منصوبہ سامنے نہیں لاسکی۔ حکومت جب تک احتساب کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتی رہے گی ، وہ نظام کی اصلاح کے کسی منصوبے کا آغاز نہیں کرسکتی۔ اس کے علاوہ یہ تاثر قوی تر ہوتا رہے گا کہ حکومت احتساب کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال کررہی ہے تاکہ اپوزیشن حکومت کی سیاسی ناکامیوں پر بات نہ کرسکے۔
اہم سیاسی لیڈروں کو گرفتار کرنے اور مسلسل حراست میں رکھنے کا بنیادی مقصد سیاسی ہے۔ احتساب بیورو کی کارکردگی کے بارے میں ماضی میں ملک کی اعلیٰ عدالتیں نشاندہی کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ پندرہ سولہ ماہ کے دوران متعدد اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کرنے اور بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود کسی کے خلاف کوئی مقدمہ حتمی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ عمران خان ، نیب اور نظام کی اس ناکامی کو بھی اپوزیشن لیڈروں کی کرپشن کا عنوان دے کر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اگر صرف الزام تراشی اور اپوزیشن لیڈروں کو قید کرنے سے ہی حکومتیں کامیاب ہوتیں تو عدالتیں قائم کرنے اور قانون بنانے کی بجائے گالی گلوچ اور لعن طعن سے ہی کام چلالیا جاتا۔
آصف زرداری کی درخواست ضمانت اور بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اپنے والد کو ملک سے باہر بھیجنے کی بات کے بعد یہ قیاس آرائیاں ایک بار پھر زور پکڑیں گی کہ مسلم لیگ (ن) کی طرح پیپلز پارٹی بھی دراصل ’درپردہ‘ کوئی ڈیل کررہی ہے جس کے نتیجہ میں انہیں ریلیف مل رہا ہے۔ یا بعض مبصر اس نظریہ پر اصرار کریں گے کہ اسٹبلشمنٹ تحریک انصاف کو سپیس فراہم کرنے کے لئے اہم لیڈروں کو ملک سے باہر بھیجنے کا اہتمام کررہی ہے تاکہ تحریک انصاف سیاسی مخالفت سے بے پرواہ ہوکر ملک کے مسائل حل کرسکے۔ اس قسم کی قیاس آرائیوں کو حکومتی ترجمانوں کے بیانات نے بھی معتبر بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ایک وفاقی وزیر اور وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات اسی حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے معافی مانگ چکے ہیں۔
عدالتوں کے علاوہ حکومت کو بھی یہ باور کرنا ہوگا کہ درپردہ طاقت ور عناصر کی موجود ہونے کی افواہیں دراصل حکومت کی اتھارٹی اور اس کے کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔ حکومت کو اپنے اچھے برے فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے اور نعرے بازی کی بجائے حقائق کا سامنا کرنے اور متوازن اور قابل عمل سیاسی فیصلے کرنے کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملہ پر سامنے آنے والی صورت حال بھی یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ملک کے سیاسی ماحول کو متوازن اور معتدل بنایا جائے۔ اسی طرح تاکہ حکومت کے اندر حکومت اور وزیر اعظم کے سر پر کسی ’خلائی قوت‘ کے سایہ کا تاثر ختم ہوگا۔
یہ اعتبار بحال کرنے کے لئے سب سے پہلے حکومت کو اپنا رویہ اور کام کرنے کا طریقہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اسے اپوزیشن کی اہمیت کوتسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ بہتر پارلیمانی تعلقات قائم کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہئے۔ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کو سہولت دینے کا کریڈٹ نامعلوم مقتدر حلقوں کو دینے کی بجائے، حکومت اس کی ذمہ داری قبول کرے۔ اسی طرح سیاسی تصادم اور معاشرے میں گھٹن اور نفرت میں کمی کا اہتمام ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali