معاشرے اور اخلاقیات


جو قوم اخلاق کے اونچے درجے پر فائز ہوتی ہے وہ دنیا میں بھی اپنا اونچا مقام رکھتی ہے۔ کیونکہ اقوام کی ترقی، خوشحالی اور تنزلی کا دارومدار اس کی اخلاقی اقدار پر منحصر ہوتا ہے۔ محترم حسن نثار صاحب اکثروبیثتر اپنے کالمز اور ٹی وی شوز میں معاشرے میں ہونے والی اخلاقی نا انصافی پر بہت مفید لکھتے اور کہتے ہیں ان کا تجزیہ کافی حد تک درست اور حق بجانب ہے۔

انسان کا انداز بیاں اس کے اندر کے احساسات اور ان کہی باتوں کو بھی بیان کرتا ہے۔

مجھے معاشرے میں ہونے والی اخلاقی زیادتی سے گھٹن ہوتی ہے اور ہر اس کو بھی جس کی سوچنے سمجھنے موازنہ کرنے اور پرکھنے کی اہلیت ریشنل ہے۔ جس معاشرے میں اخلاقیات پستہ حال ہو جائے اور ایک بوسیدہ خیال لگے اس معاشرے کو زوال سے اور تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

جس معاشرے میں دوسرے کی غلطی کو نیا خیال نئی سوچ کہہ کر معاملے کو رفع دفع کر دیا جائے اس معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کہاوت مشہور ہے کہ ”اگر دوسرے کا منہ سرخ ہے تو اپنا تھپڑ مار کے سرخ نہیں کر لینا چاہیے“ مگر ہمارے معاشرے میں الٹا ہوتا ہے جس کی بہترین مثال ”ہمارے معاشرے کا زبان زدعام نعرہ سکولوں میں“ مار نہی پیار ”والا۔

میں چونکہ بین الاقوامی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سرکاری سکول میں شعبہ معلمی سے بھی منسلک ہوں اور معلم کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔ جس شعبہ زندگی سے وابستہ ہوں سیکھنا اور سکھانا کام ہے۔ قوم کی پستہ حالی کو زمینی حقائق کے ساتھ بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ نئی نسل جس کی ذمہ دای لگائی گئی ہے اس کی اخلاقی، معاشرتی اور سماجی کردار کی نشونما کرنا ہے کیونکہ اس نسل بے ہی کل مستقبل میں قوم اور معاشرے کی شکل اختیار کرنا ہے۔

نئ نسل کی پستہ حالی دیکھنے سے اس قدر شدید ”گھٹن ہے اور انتہائی شدید گھٹن ہے کہ اندر ہی اندر انسان مرتا جاتا ہے۔ قانون ساز اور حکومتی ادارے مغربی ماڈلز اور پالیسز لاگو کرنے پر تلے ہوئے ہیں ایسے ہی جیسے“ مرغی بانگ دینے کی کوشش کر رہی ہو۔

زمینی حقائق اور مسائل اس قدر پچیدہ اور مصیبت زدہ ہیں۔ اوپر سے اگر کوئی استاد بچے کی بہتری کے لئے جھڑک دے تو یورپین فنڈنگ سے پلنے والی این جی اوز استاد کو ملک بدر کرنے پر تل جاتی ہیں۔

میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہمارے معاشرے کی اپنی اقدار، تہذیب اور رسمیں ہیں۔ ایک ( غیر) ترقی پزیر معاشرے میں جب کسی دوسرے معاشرے کے بنائے ہوئے ماڈل لگائے گئے تو نتائج منفی میں آئیں گئے۔ جیسا کہ ہو رہا ہے۔ ذہنی پستی کو سب سے پہلے بہتر کیا جائے اور پورے معاشرے کی تربیت کی جائے زیادہ نہ سہی چند چیزوں پر۔

پچھلے دنوں محترم عطاء الحق قاسمی صاحب نے جنگ میں ایک کالم ”سخت گیر والدین سے بچے زیادہ پیار کرتے ہیں“ کہ عنوان سے۔ جس کا لبے لباب یہ تھا کہ بچوں کو غلط بات پر اس انداز میں سمجھایا جائے کہ دوبارہ غیر اخلاقی حرکت نہ کرے۔ اور درست بات پر بھی سراہیں۔

جس قوم میں ذہنی غربت والا عنصر پایا جائے اس کو آزادی رائے تب دی جائے جب وہ اخلاق کے خاص درجے پر فائز ہو۔

زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیمی ماڈل بنائے جائیں اور اپنی تہزیب کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات میں تمیز کی جائے بہت زیادہ آزادی بھی مسائل پیدا کرتی ہے۔ ہمیں اپنا منہ چپیڑیں مار کر لال نہی کرنا۔ نہی تو آنے والی نسل مرغے سے انڈہ دلوانے پر تل جائے گی جو کہ ناممکنات میں سے ہے۔ اور قوم ک حالت اس لطیفہ جیسا ہوگی ”ایک نالائق بادشاہ نے وزیر کو کہا تم کل رعایا کے ہوتے ایسی پہیلی پوچھنا جو آسان ہو تاکہ میں جواب دے کر داد وصول کر سکوں اگر مشکل ہوئی تو تمھارا سر قلم کر دوں گا۔

وزیر پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا۔ اگلے دن بادشاہ نے پہیلی پوچھی مجلس میں ’وہ کون سی چیز جو وزن نھیں اٹھاتی اور اس کی چار ٹانگیں۔ بادشاہ سوچ میں پڑ گیا۔ وزیر پریشان ہوا تو اس نے اشارہ دیا اس کے دو کان بھی ہیں اور آواز بھی بھیانک ہے۔ بادشاہ سوچنے کہ بعد بولا ”کتا“، اور وزیر بادشاہ کو داد دیتے ہوئے سر قلم ہونے سے بچ نکلا۔ اس پہلے کہ کتا اور گدا میں فرق بھولے قوم کی اصلاح ضروری ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).