ہاکی کو آپ سب بھول چکے ہیں


دل سے نکال چکے ہیں اب اس طرف کوئی پوچھ گچھ ہوتی ہے نہ خبر آتی ہے۔ شائقین کی دلچسپی تو دور کی بات، شائقین موجود ہی نہیں رہے۔ کوئی تذکرہ تک نہیں ہوتا۔ اسکول، کالج یا گلی کوچوں سے بھی ناپید ہے۔ طالبعلم نوجوانوں میں حد درجہ غیر مقبول ہے کہ نہ کوئی ہاکی پکڑا نظر آتا ہے اور نہ ہی الیکٹرانک کمپیوٹرائز گیم کی صورت کوئی تذکرہ نکلتا ہے۔ جی ہاں کمپیوٹرائز گیم جس سے ہر ایک واقف ہے اور تقریبا ہر گھر میں کسی نہ کسی ڈیوائس پر کھیلا جاتا ہے۔ آج کی نسل آئس ہاکی سے تو واقف ہوسکتے ہیں لیکن ہاکی سے نہیں۔ ایسے میں اگر کوئی سوال پوچھ بیٹھے کہ پاکستان کا قومی کھیل کون سا ہے۔ تو جواب دینے والا خلاووں میں گھور کر (غیر مطمعئن انداز) رٹا رٹایا جواب دے دیتا ہے، ہاکی۔

بطور کھیل وہ ہاکی کے گیم سے، اس کے میدان سے، ہاکی اسٹک سے ناواقف ہونے کے باعث عجیب گھسیایا ہوا انداز اپناتا ہے (جبکہ وہ دوسرے کھیلوں کے بارے میں فرفر بتا سکتا ہے اعتماد کے ساتھ) کھیل سے ناواقفیت اس کے اندر اپنے قومی کھیل سے اجنبیت پیدا کیے ہوئے ہے۔ اور یہ اجنبیت آج کی نہیں برسوں کی پیدا کردہ ہے۔

آپ نے بڑے بڑے پیروز کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ جو انتھک محنت، لگن و دلچسپی سے اپنے کام کے ماہر بنتے ہیں پھر قومی و بین الاقوامی شہرت کے ساتھ جانے مانے جاتے ہیں۔ آپ نے مغرور، امیر کبیر اور ظالم بادشاہوں کی کہانیاں بھی پڑھی ہوں گی۔ جن کے زوال کا سبب خود ان کا غرور یا منفی رویہ ہوتا تھا۔

لیکن ہاکی کی کہانی ذرا مختلف ہے جو اس کھیل کو بھلائے جانے کی کہانی ہے۔ کیا اس پر سے زوال آ کر گزر گیا اور اب یہ کھیل اور ادارہ تباہ ہے؟ اس کا فیصلہ آپ کو بحثیت منظم ایک پاکستانی قوم کرنا ہوگا۔

بھلائے جانے کا عمل طویل ہے اور ہاکی کھیل کو تباہ کرنے کا تعلق صوبائیت اور تعصب زدہ وہ سوچ ہے جس نے تقریبا پورے ملک کے ہر چھوٹے بڑے ادارے کو کہیں نہ کہیں اپنی گرفت میں جکڑا ہوا ہے تعصب زدہ سوچ سے بھرتی تک کا وقت طویل اور نہ ختم ہونے والا ہے۔ نا اہلوں کی بھرتیاں در بھرتیاں بالآخر ادارہ کو ختم کر دیتی ہے۔

بات ہاکی کی ہورہی ہے اور اس لئے ہو رہی ہے کہ یہ ہمارا قومی کھیل ہے۔ جو ملک کے تمام حصوں سے تقریبا ناپید ہوچکا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے

تو کیا اب ہاکی نہیں کھیلی جاتی؟

ظاہر ہے اب بھی کھیلی جاتی ہے۔

تو کیا اس ادارے کی بدعنوانی جو بے ایمانی و تعصب پر مشتمل تھی، ختم ہوچکی ہے؟

کیا بد نیتی پراہلیت کو حاکمیت حاصل ہو چکی؟

ظاہر ہے نہیں۔

اسی سالہا سال کے تعصب اور بدنیتی نے اس قومی کھیل سے شائقین کو اتنا متنفر کر دیا تھا کہ انھوں نے بہتری کی امید ہی چھوڑ دی۔

یہ بدعنوانی اور بے ایمانی کا دور برس ہا برس پر نہیں کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ اتنے طویل دور میں ایک نہیں دو نسلوں کی امیدیں دم توڑ گئیں کہ کب اس ادارے کی کرتا دھرتا اور ادارے میں ہاکی لے کر بھرتی ہونے والے بڑے بڑے صوبائیت کے تعصب سے نکل کر ملکی سطح پر سوچیں گے۔ کب نا اہل بھرتی نکال کر قابل، باصلاحیت کھلاڑی سلیکٹ ہوں گے۔ اور کب شائقین پھر سے ہاکی کا بہترین کھیل دیکھ سکیں گے، کسی طرف کوئی سن گن نہیں۔

انتظار کے بجائے نئی نسل نئے کھیلوں میں گم ہوتی پیدا ہوئی ہے۔ اب کی پود ہاکی سے تقریبا نا واقف ہے۔ ان کی عمر سے زیادہ ہاکی میں نا قص کھیل اور ٹیم کی خانہ پوری کی عمر ہے۔

اب تک ادارہ اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔ کوئی کارکردگی، کوئی شاندار کھیل پچھلے بیس سالوں میں ہوا ہو۔ کہیں آپ کی یادداشت میں ہو تو ضرور شیئر کریں جسے دیکھ کر شائقین خوشی سے کھل اٹھے ہوں قومی ہاکی ٹیم کو کندھوں پر اٹھا لائے ہوں۔ ایسا شاندار کھیل کھیلا ہو کہ جو آپ کے دماغ پر نقش ہو گیا ہو۔ کوئی ہے؟

کھیل شاندار ہو تو شائقین بھی بار بار دیکھتے ہیں جیسے کرکٹ کے میدان میں میانداد کا چھکا۔ فلائنگ ہاورس سمیع اللہ کا ہاکی کے میدان میں ڈاجز اور گیند کے ساتھ دوڑنا گول کرنا، اصلاح الدین کی سربراہی میں ہاکی ورلڈ کپ میں گولڈ میڈلسٹ ہونا۔ اور ( 1971، 1978 1982، 1994 ) چار بار گولڈ میڈل حاصل کرنا، شاندار کارگردگی بھی ہے، ملک و قوم کے لئے باعث فخر بھی اور شائقین ہاکی کے لئے دلچسپ بھی۔ دنیائے ہاکی کی تاریخ میں چار بار گولڈ میڈلسٹ ہونا پاکستان کے لئے بین الاقوامی امتیاز ہے جو دنیائے ہاکی میں بھی یادگار ہے۔

( مجھے ان میں سے 1994 کا آخری کھیل بھی یاد نہیں لیکن ان کی کارکردگی کی دھمک اتنی ہے جو مجھ تک بھی پہنچی۔ اب تک یاد ہے جب گھر والے اکٹھے بیٹھے گیم سے لطف اندوز ہوتے تھے اور ان کی وقفے وقفے سے ابھرنے والی تالیاں سارے گھر میں گونج جاتی تھیں۔ ریڈیو ہو یا ٹی وی، شہر ہو یا قصبہ خوشی برابر اور دلچسپی کھیل پر مرکوز تھی مجھے اسی بنا پر ہاکی سے انسیت ضرور تھی۔ پھر) ۔

میں بھی باقیوں کی طرح ہاکی کو بھول گئی۔ شائقین نے یقینا کوفت کے کئی سال گزارے ہوں گے۔

کب مستقل بنیادوں پر اہل، قابل چاک و چوبند کھلاڑیوں کا ملکی سطح سے انتخاب و امتحان کا مثبت عمل شروع ہو سکے گا، دور دور تک کوئی امید ہے نہ کوئی مثبت رویہ کی سمت اشارہ۔

محض بھرتی ہونے والوں کو ہاکی اسٹک پکڑا کر ٹیم بنا لینا، باہر کے دورے کرنا، تنخواہیں وصول کرنا، ریٹائرمنٹ کے بعد قومی ہیروز کی مراعات مرتے دم تک اٹھانے کا تمام تر پیکیج نالائقوں کے لئے وہی ہے جو کہ لائق فائق مستعد بہترین کھلاڑیوں کو ماضی میں حاصل تھا جو پاکستان کا نام بلند کرتے تھے بہترین کھیل، شاندار کارگردگی کے بعد ملکی و حکومتی سطح پر پذیرائی و داد ان کے شایان شان بھی تھی اور ان کا حق بھی بنتی تھی۔ (ممکن ہے اس ٹیم میں بھی کوئی ایک بہترین کھلاڑی ہو جو اس منفی ڈگر میں پس رہا ہو۔ ٹیم کی ناقص کارکردگی اس ایک اکیلے کے بہترین کھیل کو کھا جاتا ہو۔ )

جس کھیل کو شائقین نے مایوس ہو کر دل سے نکال پھینکا ہو اس کھیل اور ناقص ٹیم کی ضرورت کیا رہتی ہے۔ اس کھیل کو میوزیم میں رکھوا کر ملکی دولت اور ماضی کی ساکھ کو محفوظ بنانا زیادہ بہتر عمل ہے بجائے ناقص ٹیم بیس پچیس سالوں سے کھلانا۔ کئی دہائیوں پر مشتمل ناقص کارکردگی دیکھاتے رہنے والی ٹیم کا مراعات پر کیا حق بنتا ہے؟ کیسے؟ کس کارکردگی پر؟

لیکن حیرت از حیرت نہ غیرت آئی نہ ڈھیٹائی گئی۔ نہ ہی زوال پذیری پر تعصب کی چھاپ ہٹائی۔ ملکی سطح پر صوبائیت غالب از غالب ہے ہزاروں باصلاحیت نوجوان محض گلی کوچوں میں کوئی بھی کھیل کر اپنی صلاحیتیں استعمال ہی نہیں کر پاتے۔ ان کے پاس قومی ٹیم میں جانے کی موہوم امید بھی نہیں جس لائحہ عمل میں وہ اپنا مستقبل دیکھ کر دلجمعی سے معیاری کھیل کھیلیں۔ مقابلہ کریں۔ بہتر سے بہتر کھلاڑی قومی ٹیم کے لئے میسر آسکیں۔

اور اب اس لپیٹے میں کرکٹ کا کھیل آچکا ہے۔ دو دہائیوں سے وہی طرز عمل ہے جو ہاکی میں تھا، ہے۔ ہر دوسرے تیسرے ادارے میں ہے سازش، اقربا پروری صوبائی تعصب کی پہلی سیڑھی ہے جس سے سب سے پہلے کوئی اہل کھلاڑی بدظن ہوتا ہے۔ جو ابھی سرفراز کے ساتھ ہوا۔ اب کرکٹ کے شائقین پرجوش نہیں بددل ہیں۔ چند سالوں میں کرکٹ نام تو سنا ہوگا۔ ٹیم میں بھرتی کب ہوئی، کہاں ہوئی، کس کی ہوئی، کس ملک کے دورے پر نکلی اور کیوں؟ سب سوالات گم گزشتہ یادداشت سے زیادہ کچھ نہیں ہوں گے۔

یہاں بھی بھرتی ہونے والے قومی ہیروز بنے ساری مراعات سے بھوپور مستفید ہوں گے۔

کسی پوچھ گچھ سے بے فکر پر آسائش زندگی کے حصول کے بھرتی، بھرتی ہونے کی کامیابی پر بگلیں بجائیں گے، اپنی ناقص کارکردگی پر ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیں گے کہ شائقین بھی دل چھوڑ جائیں۔

( یقین نہیں ہورہا تو آج کل کی کرکٹ ٹیم اس کی سیاست، سوچ، اور ناقص سلیکشن و کارکردگی کو سامنے رکھیں ) ۔

اصل بات یہ ہے کہ یہ ساری نا اہل بھرتیاں محض اس کھیل کے عوض ملنے والی تنخواہوں، مراعات، بیرون ممالک کے دورے، ریٹائرمنٹ کے بعد تک کی مراعات کے حصول کے لئے ہیں ہاکی ہو یا کر کٹ کھیل کھیلنے سے بھلا کس کو دلچسپی ہے۔ ملک کا نام، کھیل کی ساکھ ڈوبتی رہے کس کو پرواہ ہے۔ اسی لئے قومی حکمت عملی سے عاری یہ صوبائی تعصب قومی سوچ کو پس و پشت ڈالتے چند سالوں پر نہیں کئی دہائیوں پر مشتمل ناقص ہونے کے باوجود اقربا پروری لئے جاری و ساری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).